میرے ذوقِ مطالعہ میں ایک جوہری تبدیلی آئی ہے۔ یہ تبدیلی غیر ارادی اور غیر شعوری ہے لیکن اس تبدیلی کا احساس شعوری ہے۔ میں اس کو سمجھنے کی کوشش میں ہوں۔
میں ابوالکلام کے اسیروں میں سے ہوں۔برسوں سے ان کے علم ہی نہیں‘ ان کااسلوبِ بیان کا قتیل ہوں۔ان کے ہاں اگرچہ اسالیب کا تنوع ہے لیکن بطورِ نثر نگار‘ ان کی شہرت ایک ایسے انشا پرداز کی ہے جو مسجع ومقفیٰ زبان لکھتا ہے۔اس باب میں ان کی کتاب ''غبارِخاطر‘‘ ان کی نمائندہ ہے۔''غبارِ خاطر‘‘مدتوں میرے سرہانے پڑی رہی۔
اب لیکن یہ عالم ہے کہ مطالعے کے دوران میں‘کسی جملے کے بارے میں یہ گمان ہو کہ اسے اضافی محنت سے سنوارا گیا ہے یا الفاظ کے استعمال میں لفظوں کا اصراف کیا گیا ہے تو طبیعت پڑھنے سے اِبا کرتی ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ پسندیدہ لکھاریوں کی فہرست تبدیل ہو رہی ہے۔چند دن پہلے‘برسوں بعد‘چوہدری افضل حق کی ''زندگی‘‘ کی ورق گردانی کر رہا تھا۔پڑھنا چاہا تو ایک آدھ صفحے سے زیادہ نہیں پڑھ سکا‘درآں حالیکہ‘کبھی یہ میری پسندیدہ کتب میں شامل تھی۔یہ تجربہ مجھے اتنی دفعہ ہوا کہ میں اس تبدیلی کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ سوچنے پر مجبور ہو گیا۔
اس مرحلے پرمیں کوئی حتمی رائے تونہیں دے سکتا مگردو اسباب میری سمجھ میں آ سکے۔ایک تو یہ کہ جدید دور میں ابلاغ کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔وہ تحریر زیادہ اچھی سمجھی جاتی ہے جو ابلاغ میں زیادہ کامیاب ہو۔ایک تحریر سے ممکن ہے لکھاری کے بارے میں یہ تاثر پیدا ہو کہ وہ لغت کا قارون ہے۔ اس نے منوں الفاظ ایک مضمون میں جمع کر دیے ہیں۔ کئی صفحات پڑھنے کے باوجوداگر ایک چھٹانک معانی ہاتھ نہ آئے تواسے اچھی تحریر نہیں سمجھا جائے گا۔اسی طرح اگربیان کا اندازسادہ ہو لیکن ابلاغ مکمل ہو تواسے ایک کامیاب تحریر سمجھا جا ئے گا۔
اردو ادب کی روایت میں یہ سادہ اسلوب نیا نہیں۔اس کا آغاز غالب نے کیا اور سر سید نے عروج تک پہنچایا۔'دبستانِ شبلی‘ نے اس سادگی میں انشا پردازی کا رنگ شامل کیا جس سے یہ اسلوب مزید نکھر گیا۔'خطوطِ غالب‘ نجی نوعیت کے تھے۔سر سید کے پیش نظر اپنے پیغام کا ابلاغ تھا‘خود کو نثر نگار منوانا نہیں۔یہ الگ بات کہ وہ اردو ادب میں ایک طرزِ تحریر کے بانی ٹھہرے۔ اقبال کے پیشِ نظر بھی صرف اپنی بات کا ابلاغ تھا۔ان کو اس بات سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی کہ وہ بطورِ شاعر تاریخ میں زندہ رہتے ہیں یا نہیں۔یہ الگ بات کہ شاعری میں وہ خود ایک معیارہیں۔
عبارت آرائی آپ کی ضرورت ہے‘اگر پیشِ نظر کوئی ادبی شاہکار تخلیق کرنا ہے۔یہ مولانا ابوالکلام آزاد ہوں یا مشتاق یوسفی‘شہادتیں یہی ہیں کہ اپنے لکھے کو سنوارنے میں اپنی تمام توانائیاں صرف کر ڈالتے تھے۔ ابتدائی مسودہ کئی مراحل سے گزرتا تھا۔ادب اگر برائے ادب تخلیق کیاجا رہا ہے تو پھرشاعری ہو یا نثر‘ ساری توجہ اسلوب اورسجاوٹ ہی پرہوگی۔ جوش اور عبدالعزیز خالد نے اپنی اپنی شاعری میں لغت ہائے عرب و عجم کو جمع کر دیا۔میرے جیسا طالب علم ایسی شاعری سے کبھی حظ بھی نہیں اٹھا سکا۔
میرا خیال ہے کہ جن اہلِ قلم کے پیشِ نظر محض ادب تخلیق کرنا نہیں‘کوئی پیغام پہنچانا ہے‘ان کے ہاںابلاغ کی اہمیت بنیادی ہے۔ ایسے لکھنے والے دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جوفطرتاً ادبی ذوق رکھتے ہیں۔دوسرے وہ جو ایسے کسی ذوق سے محروم ہیں۔ان کے ہاں اکثر صحتِ زبان کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو سر سید‘شبلی‘ ابوالکلام‘ مولانا مودودی‘مولانا امین احسن اصلاحی اور جاوید احمد غامدی جیسوں کا شمار پہلے طبقے میں ہو تا ہے۔وہ ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں اور ان کی تحریریں اس معیار پر پورا اترتی ہیں۔ان میں سے اکثر شاعر بھی ہیں؛تاہم وہ اپنی توانائیاں علم اور ابلاغ پر صرف کرتے ہیں‘اسلوب پر نہیں۔دوسرے طبقے میں ہم علامہ مشرقی‘ سبطِ حسن اور دیگر مذہبی و سیاسی مصنفین کو شمار کر سکتے ہیں۔
اردو افسانہ نگاری کی روایت میں سادگی کا غلبہ ہے۔پریم چند ہو ں یا منٹو۔غلام عباس ہوں یا احمد ندیم قاسمی۔زبان پُر لطف ہے لیکن قاری کہانی سے جڑارہتا ہے۔تشبیہ و استعارے ہوتے ہیں لیکن کہانی میں جڑے نگینوں کی طرح۔کہیں اضافی دکھائی نہیں دیتے۔افسانہ نگاروں میں ایک طبقہ وہ ہے جو کسی خاص تجربے یا خیال کے زیرِ اثر لکھتا ہے۔ جیسے قرۃ العین حیدر یاانتظار حسین۔ایسے لکھاریوں کے ہاں مرکزی خیال‘ان کی لغت کا انتخاب کر تا ہے۔جیسے تقسیمِ ہند کا تجربہ۔ جیسے ایک مٹتی تہذیب کا المیہ۔شمس الرحمن فاروقی کا ناول''کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ میں عبارت آرائی بہت ہے لیکن اسے پڑھتے ہوئے طبیعت بوجھل نہیں ہوتی۔اس کا سبب یہ ہے کہ وہ کہانی کی ضرورت ہے۔یہ ایک تہذیب کا بیان ہے ا ور اس کے مظاہر کی منظر نگاری۔ان کی زبان حیرت میں ڈال دیتی ہے۔
آج کے کالم نگاروں میں بھی دوطرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ایک وہ جو صحافی ہیں اور ان کے پیشِ نظر خبر کا ابلاغ ہے یا تجزیہ۔ان کو اسی لیے پڑھا جاتا ہے۔کچھ وہ ہیں جو اسلوب کی وجہ سے پڑھے جاتے ہیں یاصاحب الرائے ہونے کی بنا پر۔ ان کو شاید خود بھی اس کا اندازہ ہے۔اس لیے ان کو پڑھ کرعبارت آرائی کا احساس ہو تا ہے۔ ایک تیسرا طبقہ بھی ہے جو عددی اعتبار سے قابلِ ذکر نہیں۔ان کے پیشِ نظر کوئی پیغام ہے اور ان کا ادبی ذوق بھی تربیت یافتہ ہے۔ان کا بنیادی مقصد اپنی رائے یا سوچ کا ابلاغ ہے۔ اسلوب ان کے لیے ثانوی ہے۔تحریر میںاس طبقے کے امام سر سید ہیں یا پھرمولانا مودودی۔مولانا مودودی نے سر سید سے زیادہ خوب صورت نثر لکھی لیکن ان کو پڑھتے ہوئے کہیں یہ گمان نہیںہوتا کہ عبارت آرائی ان کے پیشِ نظر تھی۔ان کا شمار ایسے لکھنے والوں میں ہوتا ہے جو زبان کی صحت کے لیے سند کا درجہ رکھتے ہیں۔
مجھے ابوالکلام کے بعد‘کوئی سجائی گئی عبارت کم ہی اپنی طرف متوجہ کر سکی۔ اب پڑھتے ہوئے‘یہ دیکھتا ہوں کہ علم میں کوئی اضافہ ہو رہا ہے یا نہیں۔پھر یہ کہ بات کہنے کا اسلوب رواں اور بے تکلف ہے یاپُر تصنع۔ تصنع کا احساس ہو تو طبیعت مائل نہیں ہوتی۔یہ مشکل کالم پڑھنے میں زیادہ پیش آتی ہے۔کلام نگار بسیار نویس ہو تا ہے۔اکثرخود کو دہراتا ہے۔ عبارت سادہ اور رواں ہوتو کچھ حاصل ہو نہ ہو‘پڑھی جا تی ہے۔
میرے ذوق میں تبدیلی کا دوسرا سبب یہ ہے کہ میں مذہب‘ سیاسیات یا سماجی علوم سے متعلق کتب زیادہ پڑھتا ہوں۔ان میں اصل اہمیت نفسِ مضمون کی ہے‘اسلوب کی نہیں۔
یہ کالم شخصی ذوق کا بیان ہے۔اس کا مقصدکوئی حکم صادر کرنا نہیں۔یہ کالم اس لیے لکھا ہے کہ بہت سے پڑھنے والے اس بارے میں سوال کرتے ہیں۔یا پھریوں سمجھئے کہ اپنے آپ کے لیے لکھا ہے۔ بہت سوں کے لیے اس میں دلچسپی کا کوئی پہلو نہیں ہوگا۔پیر نصیر الدین نصیرنے ایک تقریر میں فارسی کی ایک رباعی پڑھی کہ وہ چند بہت باذوق لوگوں میں سے تھے۔وہ رباعی پر سر دھنتے رہے۔ساتھ ہی سامعین سے یہ بھی کہتے رہے کہ میں نے جو پڑھا ہے‘آپ کی بلا سے‘ میں تو صرف اپنے حَظ اٹھانے کے لیے پڑھ رہا ہوں۔انہوں نے یہ بات مقامی پوٹھواری زبان میں کہی۔اس کا مزہ وہی اٹھا سکتا ہے جو یہ زبان جانتا ہے۔اس کالم میں‘میرا معاملہ بھی پیر صاحب جیساہی ہے۔