اہلِ دانش کا عوام کے ساتھ رشتہ کیا ہے؟
وہی جو ایک خیر خواہ اور مشیر کا ہو سکتا ہے۔وہ اپنی رائے دے سکتاہے۔نیک ‘بد سمجھا سکتا ہے۔بتا سکتا ہے کہ اس کی دانست میں صحیح کیا اور غلط کیا ہے۔اس کے بعد یہ عوام کا کام ہے کہ وہ کسی مشورے کو خاطر میں لاتے ہیں یا نہیں۔سیاست کے باب میںجو فیصلہ عوام کو کرنا ہے، عوام ہی کو کرنا ہے۔ اس کے نتائج بھی، ظاہر ہے کہ انہی کو بھگتنے ہیں۔ کوئی اپنی دانست میں ان کا کتنا ہی خیر خواہ کیوں نہ ہو،ان کے اس حق کو اپنا حق نہیں بنا سکتا۔اہلِ دانش کیا،کسی کو یہ حق حاصل نہیں۔یہاں اگر بطور خاص دانشوروں کا تذکرہ ہے تو اس کی ایک وجہ ہے۔
ابوالکلام آزاد نے برصغیر کے مسلم عوام کا نوحہ پڑھا۔دہلی کی جامع مسجد کے میناروں نے سنا۔اس کی صدائے بازگشت آج تک گونج رہی ہے۔ ابوالکلام کہہ سکتے تھے، منوا نہیں سکتے تھے۔عوام کے کانوں میں مختلف آوازیں پڑ رہی تھیں۔اکثریت نے قائداعظم کی آواز پر لبیک کہا۔ یہ اس کا حق تھا اور اسی کی بنیاد پر فیصلہ ہو نا چاہیے تھا۔وہ نسل تو ختم ہوئی جس نے یہ فیصلہ کیا۔بعدمیں آنے والی نسلوں کی اکثریت اپنے باپ دادا کے فیصلے سے مطمئن ہے۔کوئی دانشور اگر اس کے برخلاف رائے رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے۔
مجھے اس بات پر اصرار کیوں ہے؟اس کے پس منظر میں انسانی تاریخ، مذہبی ہدایت و سماجی علوم کھڑے ہیں۔ایک ریاست کو استحکام اسی وقت میسر آتا ہے جب حکمرانوں کو اکثریت کا اعتماد حاصل ہو۔اس عمل کا حسنِ کردار سے اتنا ہی تعلق ہو سکتا ہے جتنا عوام کا۔سیاست کے معاملے میں اہلِ دانش کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ اس اصول کو مستحکم کریں۔ ایک نیک آدمی اگر عوامی تائید سے محروم ہے تو وہ ریاست کو عدم استحکام سے دوچار کردیتا ہے۔
سیاسی وسماجی اخلاقیات انفرادی اخلاقیات سے مختلف ہوتی ہے۔اس کا تعلق سماجی کردار سے ہے۔ایک امام مسجد کا تقرر اور ایک سیاسی راہنما کا انتخاب،دونوں کے لیے اخلاقیات کا کوئی نہ کوئی معیارہو گا مگر یہ لازم نہیں کہ وہ یکساں ہو۔یہ بات کہتے ہوئے، میں اس بات کو نظر انداز نہیں کر رہا کہ بعض اخلاقی تقاضے ہر کردار میں پیشِ نظر رہنے چاہئیں۔ جیسے دیانت۔ جیسے صدق ۔ گزارش محض اتنی ہے کہ یہ منصب کے تقاضے ہیں جن کی روشنی میںاخلاقی معیارات طے ہوتے ہیں۔
ریاست کے سربراہ کی کچھ بنیادی ذمہ داریاں ہیں۔جیسے عوام کے جان و مال کے حفاظت۔ بیرونی دشمن سے دفاع۔انہیں آگے بڑھنے کے لیے یکساں مواقع کی فراہمی۔ یہ ذمہ داریاں ادا کر نے کے لیے اسے اصلاًجو قوت درکار ہے، وہ ان لوگوں کا اعتماد ہے۔بالفاظ ِ دیگر،عوام کویہ یقین ہوکہ فلاں فرد، جماعت یا گروہ ہمارے لیے ایک بہتر سائبان ہو سکتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ عوام کسی خوش فہمی میں مبتلا ہوں۔جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ اگر عوام کسی ایسی خوش فہمی یا غلط فہمی کا شکار ہو جائیں تووہ انہیں یہ موقع دیتی ہے کہ وہ اپنی رائے پر نظر ثانی کرتے ہوئے،یہ حق کسی دوسرے کو تفویض کر دیں۔ فیصلہ بہر صورت عوام ہی کے ہاتھ میں رہے گا۔
اہلِ دانش کا کام لوگوں کو یہ بتاناہے کہ میسر سیاسی قیادت میں کون ان کے لیے بہتر ہو سکتا ہے۔ہمیں حال میں رہتے ہوئے فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور اس کے لیے موجود افراد ہی میں سے انتخاب کرنا ہوتا ہے۔آئیڈیل زندگی میں نہیںہوتے۔ماضی میں بھی لوگ یہی کرتے تھے۔ تاریخ کے نام پر ہم جو کچھ پڑھتے ہیں،وہ اکثر افسانوی ادب ہے۔ تاریخ کے لبادے میں ایک فطری تقدس ہے۔جو اوڑھتا ہے،مقدس ہو جاتا ہے۔
اہلِ دانش کایہ کام نہیں کہ وہ بنیادی اصول کو چیلنج کریں الا یہ کہ وہ اس کے لیے مضبوط دلائل رکھتے ہوں۔اگر ان کا خیال یہ ہے کہ میسر سیاسی راہنماؤں میں کوئی ایسا نہیں جو ریاست کی باگ ڈور سنبھال سکے تو وہ عوام کو کسی نئے سیاسی راہنما کی طرف متوجہ کر سکتے ہیں مگر یہ مشورہ نہیں دے سکتے کہ وہ سیاست دانوں کے بجائے کسی دوسرے طبقے کو حقِ اقتدار سونپ دیں۔اگر وہ ایسا سمجھتے ہیں تو پھر ان کے پاس الہامی کتب،سماجی علوم یا تاریخ کی کوئی شہادت ہو نی چاہیے۔میرا احساس یہ ہے کہ ایسے کسی ماخذِ علم میں عوام کے سوا کسی کے لیے یہ حق ثابت نہیں ۔نہ فرد نہ سماجی گروہ نہ ریاستی ادارہ۔
موجودہ حکومت اپنی مدت کے دوسرے نصف سے گزر رہی ہے۔متبادل کی بحث شروع ہو چکی ۔اس بحث کو روکا نہیں جا سکتا۔لازم ہے کہ یہ بحث عوام کے منتخب نمائندوں کے حقِ اقتدارہی کے گرد گھومتی رہے۔سیاسی جماعتوں کے بجائے،اگر یہ حق کسی اور کو دینے کی کوشش کی گئی تو ریاست بچے کھچے استحکام سے بھی محروم ہو جائے گی۔اس مقدمے میں یہ بات بدیہی طور پر شامل ہے کہ عوام کی رائے پر کسی عنوان سے کوئی ڈاکا نہ ڈالا جائے۔ انتخابی عمل اتنا شفاف ہو کہ کوئی اس پر انگلی نہ اٹھا سکے۔حکومت نے قانون تو منظور کرا لیا لیکن اس بات پر ضرور سوچنا چاہیے کہ کوئی ایسا انتخابی عمل جس پر آدھی پارلیمان دوسرا موقف رکھتی ہو، ابتدا ہی میں اس اعتماد سے محروم ہو جائے گا جو شفاف انتخابات کے لیے ضرورت ہے۔ اس کا مطلب ایک نئے بحران کو دعوت دینا ہوگا۔
انتخابی عمل کے حوالے سے بننے والا کوئی قانون چند ووٹوں کی اکثریت سے منظور کرایا جا سکتا ہے لیکن سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ اپوزیشن کو مشاورتی عمل میں پوری طرح شریک کیا جا ئے اور اسے مطمئن کیا جائے۔ حکومت کی نیت درست ہو گی لیکن نیت کی درستی کا تقاضا ہے کہ کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے۔اعتراض برائے اعتراض کا دروازہ تو کبھی بند نہیں ہو سکتامگر جائز شکایت کا مداوا ضروری ہے۔گزشتہ پارلیمان نے انتخابی اصلاحات کے ایک عمل کا آغاز کیا تھا جس پر اسی فیصد سے زائد اتفاق ہو چکا تھا۔اس میں تمام سیاسی جماعتیں شریک تھیں۔کیا یہ بہتر نہیں کہ اس عمل کو آگے بڑھایا جائے؟حکومتوں کو ایسے معاملات میں دل بڑا کرنا پڑتا ہے۔حکمران انا کی جنگ نہیں لڑتے۔
دوباتیں کلیدی ہیں۔ایک یہ کہ ریاست کاا ستحکام جمہوریت سے ہے۔دوسری یہ کہ جمہوری عمل کا مستقبل شفاف انتخابات سے جڑا ہوا ہے۔ عمران خان اگر ملک کو صاف ستھرے انتخابات کا تحفہ دے جائیں تو ان کا یہی عمل انہیں سیاسی تاریخ میں زندہ رکھنے کے لیے کفایت کرے گا۔ اتفاقِ رائے کا کام اگر تحریکِ انصاف کے ان راہنماؤں کو سونپا جائے جو سیاسی بصیرت میں ممتاز اور دوسری سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں کے ساتھ بہتر سماجی تعلقات رکھتے ہیں تو یہ معرکہ سر کیا جا سکتا ہے۔
اہلِ دانش کی ذمہ داری ہے کہ سماج کی فکری الجھنوں کو دور کریں۔وہ اصول اور اطلاق،دونوں میں راہ نمائی کریں۔ اصول کو برقرار رکھتے ہوئے، اطلاق میں اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ اصول میں طے ہے کہ حکمرانوں کا انتخاب عوام کریں گے۔اب اس میں اختلاف ہو سکتا ہے کہ کیسے؟ پارلیمانی نظام،صدارتی نظام، متناسب نمائندگی؟آج پاکستان کو صرف جمہوریت متحد رکھ سکتی ہے۔اس پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا اہلِ دانش کا قومی فریضہ ہے۔اس اصول پر اتفاق کے بعد،یہ سوال زیادہ اہم نہیں رہتا کہ کون سی جماعت؟ فیصلہ ظاہر ہے کہ موجود ہی میں سے کرنا ہو تا ہے۔ اس کے سوا کہی گئی ہر بات محض فساد ہے۔