سقوطِ ڈھاکہ سے بچناممکن تھا اگر ...یہ کالم اسی جملے کو مکمل کر تا ہے۔
وہ کون سی قوت ہے جو کسی ملک کو متحد رکھ سکتی ہے؟مذہب؟ فوج؟ یا عوام؟ہم نے پہلی دو قوتوں پر انحصار کیا۔ہمارا خیال تھا کہ پاکستان ایک بدن ہے اور اسلام روحِ بدن۔جب تک یہ روح اس بدن میں دوڑتی رہے گی‘ملک کا کوئی حصہ الگ نہیں ہو سکتا۔تاریخ نے اس مقدمے کو قبول نہیں کیا۔اسلام کی روح موجود تھی۔ بنگال میں اسلام‘ایک سماجی قوت کے طور پر توانا تھا اور آج بھی ہے۔بدن کے مگر حصے بخرے ہو گئے۔
فوج بھی موجود تھی۔جوانوں کی بہادری بھی اساطیری تھی۔محاذِ جنگ پر کھڑا ہر سپاہی ارضِ وطن کی سلامتی کے لیے نقدِ جان کا نذرانہ پیش کرنے کو بے چین تھا ۔جنرل نیازی نے جنرل یحییٰ خان کی ترجمانی کی‘ ایک عام سپاہی کی نہیں ۔کوئی ایک سپاہی ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں تھا۔ اس کے باوجود ہونی ہو کر رہی۔
مذہب ہمیں کیوں نہ بچا سکا؟اس کاایک سطری جواب یہ ہے کہ مذہب کا یہ کام ہی نہیں تھا۔مذہب روحانی وحدت پیدا کرتاہے ‘ جو لازم نہیں کہ سیاسی وحدت پر بھی منتج ہو۔ تاریخ میں کسی تصور کا ایک دوبار واقعہ بننا‘اس بات کو لازم نہیں کر تا کہ اس کو اصول مان لیا جائے۔ تاریخ میں ایک بار اسلام نے سیاسی وحدت پیدا کی لیکن یہ دراصل ایک الٰہی فیصلے کا ظہور تھا۔رسالت مآب ﷺ کا مقصدِ بعثت قرآن مجید نے یہی بتایا تھا کہ وہ اسلام کو ادیانِ عرب پر غالب کر دیں۔یہ خد اکا فیصلہ تھا جو نافذ ہوا۔صحابہ یا خلافتِ راشدہ کا ابتدائی عہد اسی کی توسیع تھا۔
تیس سال بعد‘ سیاست اپنی فطری ڈگرپر چل نکلی۔سیاست کے باب میں وہی عوامل بروئے کار آئے جو ہمیشہ سے کسی سیاسی نظام کی تشکیل میں روبعمل رہے۔ عصبیت‘ مادی قوت‘سیاسی بصیرت...جس نے ان قوتوں کو جمع کر لیا‘اقتدار اس کی دہلیز پر سجدہ ریز ہو گیا۔سیدنا عمرؓ‘ سیدناعثمانؓ اور سیدنا علیؓ اپنی شخصی حفاظت کے معاملے میں بے پروا رہے۔ قاتلوں نے ان کی جان لے لی۔سیدنا معاویہؓ نے اس خطرے کا بروقت ادراک کیا اور خود کو محفوظ بنا لیا۔یہی بقا کا قانون ہے۔
مسلمانوں کی تاریخ اقوام ِ عالم کی تاریخ سے مختلف نہیں۔بنو عباس اور اقتدار کے کھیل میں شریک دوسرے گروہوں نے مذہب کو حسبِ ضرورت استعمال کیا۔مذہب ان کے مابین سیاسی وحدت کی بنیادنہ بن سکا۔ روحانی وحدت کی علامت البتہ وہ اس وقت بھی تھا جب وہ سیاست کے میدان میں‘ایک دوسرے سے برسرِ پیکار تھے۔یہ سیدنا علیؓ کی جماعت ہو‘شیعانِ معاویہؓ ہوں یا خوارج کا گروہ‘ سب کی جبینیں ایک خدائے وحدہ لاشریک کے حضور میں جھکتی تھیں اور سب دینی راہنمائی کے لیے اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کی ذاتِ والا صفات کی طرف رجوع کر تے تھے۔
یہ روحانی وحدت1970 ء میں بھی موجود تھی‘لیکن یہ سیاسی وحدت کی ضمانت نہیں بن سکی۔اگرمنصبِ اقتدار پر فائز لوگ تاریخ کا فہم رکھتے تو جان پاتے کہ ریاست کی سلامتی اور بقا کے اسباب کہیں اورہیں۔انہیں وہاں تلاش کیا جا نا چاہیے۔مذہب ایک اخلاقی اور روحانی قوت ہے۔یہ مذہب کا جوہر ہے جو ہر صورت میں موجود ہو گا لیکن لازم نہیں کہ وہ سیاسی وحدت بھی فراہم کرے۔مسلمان روحانی مفہوم میں امتِ واحدہ ہیں نہ کہ سیاسی مفہوم میں۔1947ء میں بھی اسلام سیاسی وحدت کی بنیاد بنا لیکن پاکستا ن کوجنم دینے کے بعد‘اس کا یہ کردار باقی نہیں رہا۔
مذہب کی طرح فوج بھی ملک کو متحد نہ رکھ سکی۔فوج ایک ریاست کی ناگزیردفاعی ضرورت ہے۔یہ خارجی دشمنوں سے حفاظت کے لیے منظم ہوتی اور اس کی تربیت بھی انہی خطوط پر کی جا تی ہے۔امورِ جہاں بانی اس کی تربیت کا حصہ نہیں ہوتے۔ ریاست کو چلانا ‘ایک فن ہے جو ایک مختلف مزاج اور تربیت کا متقاضی ہے۔فوج سے ریاستی امور یا اس کو یک جا رکھنے کا مطالبہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے مذہب سے سیاسی وحدت پیدا کرنے کی کوشش کرنا۔مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے والا اضطراب سیاسی تھا۔وہاں ریاست کا پالاکسی خارجی دشمن سے نہیں تھا۔خارجی دشمن کی مداخلت تو اس بد امنی کا نتیجہ تھی جس کے اسباب سیاسی تھے۔مشرقی پاکستان میں ہم نے فوج سے وہ کام لینا چاہا‘وہ جس کے لیے بنی نہیں تھی۔اس کا نتیجہ بھی وہی نکلا جو متوقع تھا۔وہ ریاست کی سیاسی وحدت کو یقینی نہیں بنا سکی۔
ریاست کو متحد رکھنے والی واحد قوت عوام تھے اور یہی قوت بروئے کارنہیں آئی۔عوام کی نمائندگی سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔اگر اس وقت ملک میں کوئی ایسی جماعت ہوتی جس کی قابلِ ذکرنمائندگی مغربی اور مشرقی پاکستان میں ہوتی تو انتخابی عمل ریاست کی سیاسی وحدت کا سبب بن جاتا۔ جب انتخابات کا اعلان ہوا تو جماعت اسلامی کے سوا کوئی سیاسی جماعت ایسی نہ تھی جو دونوں جگہوں پر متحرک تھی یا جس کے امیدوار دونوں حصوں میں انتخابی عمل میں شریک تھے۔جماعت اسلامی کی یہ موجودگی مگر اتنی نہ تھی کہ وہ کوئی فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی۔ پیپلز پارٹی مغربی اور عوامی لیگ مشرقی پاکستان میں مقبول تھی۔پیپلزپارٹی کا مشرقی پاکستان میں غالباً کوئی امیدوار ہی نہ تھا۔ یہی معاملہ عوامی لیگ کا تھا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے بروقت خبردار کر دیا تھا کہ اگر انتخابات میں یہ علاقائی جماعتیں کامیاب ہوئیں تو ملک کو متحد رکھنا مشکل ہو جا ئے گا۔
اس سے پہلے ایسا نہیں تھا۔مسلم لیگ ملک کے تمام حصوں میں موجود تھی۔ مشرقی پاکستان تو اس کی جنم بھومی تھی۔اس نے صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں بھی کامیابی حاصل کی اور یہاں کی اکثریت نے مطالبہ پاکستان میں اس کا ساتھ دیا۔ مشرقی پاکستان کے عوام کی شکایات کو سیاسی زبان دینے کے لیے جب حسین شہید سہروردی نے عوامی لیگ بنائی تو یہ دراصل 'آل پاکستان عوامی مسلم لیگ‘ تھی۔گویا اسے ایک صوبے تک محدود نہیں رکھا گیا۔اس میں صوبہ سرحد سے پیر آف مانکی شریف اور خان غلام محمد خان بھی شامل ہوئے۔ بعد میں پنجاب سے افتخار ممدوٹ کی جناح لیگ اور یہ دونوں مل کر ایک جماعت'جناح عوامی مسلم لیگ‘ بن گئیں۔ جناح کا نام بتا رہا ہے کہ پاکستان کی وحدت کوئی اختلافی مسئلہ نہ تھا۔
پاکستان میں جب وہ لوگ برسرِ اقتدار آئے جو امورِ جہاں بانی کی تربیت رکھتے تھے نہ ذوق تو وہ اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکے کہ یہ عوامی قوت ہے جو ریاستوں کو متحد رکھتی ہے اورسیاسی جماعتوں کی اہمیت یہ ہے کہ وہ عوام کی نمائندگی کرتی ہیں۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے اقتدار کے بنا ؤاور بگاڑ سے دور رکھا۔ملک کے فیصلے عوامی ایوانوں کے بجائے کہیں اور ہونے لگے۔جب عوام کو اس عمل سے لاتعلق کر دیا گیا تو ہمارے پاس کوئی ایسی قوت موجود نہ تھی جو ملک کو متحد رکھ سکتی۔ اس بات کا ادراک لیکن اقتدار پر قابض گروہ کو نہ ہو سکا۔
یہ ادراک آج بھی موجود نہیں۔عوام کو آج بھی حیلوں بہانوں سے اقتدار سے دور رکھا جاتا ہے۔بالفاظ ِدیگر قومی سیاسی جماعتوں کو کمزور کیا جاتا ہے۔انتخابات کے نتائج کو عوام کے بجائے اپنی خواہشات کے تابع رکھا جاتا ہے۔کاش یہ لوگ جان سکتے کہ پیپلزپارٹی جب لاہور کے ضمنی انتخابات میں بتیس ہزار ووٹ لیتی ہے تو یہ وحدتِ پاکستان کی طرف ایک قدم ہوتا ہے۔
کالم یہاں تمام ہوا۔سقوطِ ڈھاکہ سے بچناممکن تھا اگراس وقت فیصلے کا حق عوام کے پاس ہوتا۔کوئی قومی جماعت برسرِ اقتدار ہوتی یا ملک کے تمام حصوں میں مقبول ہوتی تو ملک ایک رہ سکتاتھا۔