پنجاب اسمبلی کے ایک حلقہ انتخاب کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ تین بڑی سیاسی جماعتوں نے اکانوے اور مذہبی جماعتوں نے نو فیصد ووٹ لیے۔ نون لیگ کے45، پی ٹی آئی کے 32، پیپلزپارٹی کے 14 اور تحریکِ لبیک کے 9 فیصد ووٹ تھے جسے جماعت اسلامی کی حمایت بھی حاصل تھی۔
ایک صوبائی حلقہ انتخاب کا نتیجہ اس کیلئے کفایت نہیں کرتا کہ اس سے ملک بھر کے ووٹرز کے رجحان کو جانا جائے تاہم اس سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک کتنا ہوگا۔ بالخصوص تحریکِ لبیک کے بارے میں ایک رائے قائم کی جا سکتی ہے، جسے سیاسی مبصرین کا ایک طبقہ، ایک ابھرتی ہوئی سیاسی قوت قرار دے رہا ہے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ یہ جماعت انتخابی نتائج پر حیران کن اثرات مرتب کرسکتی ہے۔
تاریخ یہ ہے کہ پاکستان میں مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک مایوس کن ہے۔ جمعیت علمائے اسلام، کے پی اور بلوچستان کی پختون آبادی میں ایک ایک حلقہ اثر رکھتی ہے۔ اسی طرح اندرونِ سندھ میں بعض علاقے ایسے ہیں جہاں وہ ایک موثر سیاسی قوت ہے۔ اس کے علاوہ کہیں کسی مذہبی جماعت کی کوئی قابلِ ذکر نمائندگی نہیں۔ جماعت اسلامی کے بارے میں ایک تاثر تھا کہ وہ ہر حلقہ انتخاب میں اتنے ووٹ ضرور رکھتی ہے جو جیت ہار میں فیصلہ کن ہو سکتے ہیں۔ 1993ء کے انتخابات میں جماعت کا یہ بھرم ایسا ٹوٹا کہ پھر جڑنہ سکا۔
متحدہ مجلس عمل خیبر پختونخوا میں ایک بار حکومت بنانے میں کامیاب رہی مگر شاید یہ واقعہ بھی پہلی اور آخری بار ہواکہ مذہبی جماعتوں کے اتحاد نے ایک قابلِ ذکر کامیابی حاصل کی۔ اس کامیابی کا اگر دقتِ نظر سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ووٹرز کے رجحان میں کسی مستحکم تبدیلی کا اظہار نہیں تھا بلکہ بعض ایسے عوامل کا نتیجہ تھا جو وقتی تھے۔ یہ وقتی عوامل چاہیں تو ق لیگ کو کامیاب بنا دیں۔ سوال یہ ہے کہ اب ہمارے سیاسی کلچر میں، کیا کوئی ایسی جوہر تبدیلی آئی ہے جس کی بنیاد پریہ دعویٰ کیا جا سکے کہ آئندہ انتخابات میں یہ مذہبی جماعتیں انتخابی نتائج پراثر انداز ہوسکتی ہیں؟
میرا جواب نہ صرف نفی میں ہے بلکہ میرا تجزیہ یہ ہے کہ رائے عامہ بالکل دوسری سمت میں آگے بڑھی ہے۔ تازہ ترین ابھرنے والی جماعت کی دکان میں کوئی ایک چیز ایسی نہیں جو بازارِ سیاست میں کوئی قیمت رکھتی ہو۔ کوئی جماعت عوام کے مذہبی جذبات کو ابھارنا چاہے تو وہ کسی لمحے اس کا مظاہرہ کر سکتی ہے، مگر سیاست کے اپنے مطالبات ہیں۔ عوام اس بات سے پوری طرح واقف ہیں کہ کون سی سیاسی جماعت یہ مطالبات پورا کر سکتی ہے۔ وہ کوئی مذہبی جماعت ہرگز نہیں۔
جماعت اسلامی، پاکستان کی واحد مذہبی قوت ہے جو سیاسی مطالبات کو پورا کر سکتی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نظری سطح پر مذہب کو بھی سیاست کی نظر سے دیکھتی ہے۔
اس لیے اس نے مذہب کو ایک نظام کی صورت میں پیش کیا جو ایک ریاست کی سیاسی، معاشی اور دیگر ضروریات کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا گیا تھا۔ جماعت اسلامی نے عملاً اس بات کے شواہد پیش کیے کہ وہ جدید ریاست کے مطالبات کو سمجھتی ہے اور اپنے تئیں ان کو پورا بھی کر سکتی ہے۔
جب ذوالفقار علی بھٹو سیاسی افق پر چھائے ہوئے تھے تو جماعت اسلامی واحد سیاسی قوت تھی جس نے ان کا ایک جوابی بیانیہ پیش کیا جو کہیں زیادہ مضبوط علمی بنیادیں رکھتا تھا اور جسے ابلاغی سطح پر کہیں زیادہ موثر طور پر پیش کیا گیا۔ اس کے باوصف عوام نے اسے قبول نہیں کیا۔ اب تو جماعت اسلامی کا دورِ عروج بھی قصہ پارینہ ہوا۔ اس کے بعد تادمِ تحریر کوئی ایسی جماعت نہیں ابھری جو مذہبی تعلیمات کی روشنی میں کوئی موثر سیاسی بیانیہ دے سکتی۔ اس میں شبہ نہیں کہ جمعیت علمائے اسلام ایک موثر سیاسی قوت ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس کے پاس کوئی سیاسی بیانیہ موجود نہیں جو اسے ممتاز بناتا ہو۔ ایک سیاسی مزاج، البتہ موجود ہے جو جمعیت علمائے ہند کی روایت کا تسلسل ہے۔
مذہبی سیاسی جماعتوں کے غیر موثر ہونے کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ مذہب کے نام پرجو سیاسی فوائد کشید کیے جا سکتے تھے، وہ کیے جا چکے۔ بھٹو صاحب، ضیاالحق صاحب اور مذہبی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے حصے کے مفادات سمیٹ چکیں۔ اب ان تلوں میں مزید تیل باقی نہیں۔ لوگ بھی جان چکے کہ جس طرح یہاں سیاسی مفادات کیلئے لسانی اور علاقائی عصبیتوں کو استعمال کیا جاتا ہے، اسی طرح مذہبی عصبیت کو بھی بازارِ سیاست کی ایک جنس بنا دیا گیا ہے۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ عام آدمی اب سیاست کو سیاست کی نظر سے دیکھتا ہے نہ کہ مذہب کی نگاہ سے۔
رہی تحریکِ لبیک تو اس نے اب تک اس بات کی کوئی شہادت فراہم نہیں کی کہ اس کے پاس اس ملک کو درپیش معاشی اور سیاسی مسائل کا کوئی حل موجود ہے۔ عام آدمی کو ضرورت سے زیادہ سادہ (oversimplified) حل متاثر کرتا ہے لیکن پے درپے تجربات سے گزرنے کے بعد، اب عوام کی بڑی تعداد باشعور ہوچلی ہے۔ عوام کو اس بات کا ادراک ہوتا جا رہا ہے کہ سیاست بچوں کا کھیل نہیں اور قومی مسائل کا کوئی سادہ حل موجود نہیں ہے۔ مذہبی جذبات سے کھیلنا اور ہے ا ور درپیش مسائل کا سنجیدہ حل پیش کرنا اور۔ 'اسلامی نظام‘ کو جیسا شعوری اور عملی مقدمہ جماعت اسلامی نے بنایا ہے، کوئی دوسرا نہیں بنا سکے گا۔ اس کے لیے سید ابوالاعلیٰ مودودی جیسا عالی دماغ چاہیے۔ اگر وہ اس کو عوامی مقدمہ بنانے میں کامیاب نہ ہو سکے تو کوئی دوسرا کیا ہوگا۔ طاہرالقاری صاحب بھی اپنی تقدیر آزما چکے۔ ان کا انجام بھی یہ بات سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ اس نعرے میں اب جان نہیں رہی۔
بطورِ خاص تحریکِ لبیک کا معاملہ یہ ہے کہ سیالکوٹ کے واقعے نے اس کی ساکھ کو سخت دھچکا پہنچایا ہے۔ جماعت کے ترجمان نے اگرچہ اس واقعے کی مذمت کی تھی لیکن یہ حادثہ جس فضا کا نتیجہ ہے، اس کے بنانے میں، لوگ اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ تحریکِ لبیک کا کردار ہے۔ عام آدمی یہ سوچنا شروع ہو گیا ہے کہ ستانوے فی صدی مسلمانوں کے اس ملک میں، ایسے مذہبی معاملات پر انتہا پسندی کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔
خانیوال کے ضمنی انتخابات کے نتائج سے اس مقدمے کی تائید ہوتی ہے کہ پاکستان میں مذہبی سیاست کا مستقبل زیادہ روشن نہیں ہے۔ عام ووٹر آج بھی یہ سمجھتا ہے کہ اس کے سیاسی واجتماعی مسائل کا حل قومی سیاسی جماعتوں ہی کے پاس ہوسکتا ہے۔ عام آدمی ان جماعتوں کی کمزوریوں سے واقف ہونے کے باوجود اگر یہ سمجھتا ہے تو یہ اس کے سیاسی طور پر بالغ نظر ہونے کی دلیل ہے۔ کم از کم اسے یہ تو معلوم ہے کہ کس مسئلے کے حل کیلئے کس سے رجوع کرنا چاہیے۔ اس مریض کی صحت یابی کا امکان باقی رہتا ہے جو یہ جانتا ہے کہ اسے کسی طبیب کے پاس جانا چاہیے، چاہے وہ کسی نااہل ہی کے پاس کیوں نہ جائے۔ اس مریض کی صحت یابی کا تو سرے سے کوئی امکان نہیں ہوتا جو اپنے علاج کے لیے کسی مستری کے پاس جائے، چاہے وہ اپنے فن کا امام ہی کیوں نہ ہو۔
قومی سیاسی جماعتیں اگر اُس خوف سے نکل آئیں جو ان مذہبی گروہوں نے پیدا کیا ہے تو عوام ان کا ساتھ دینے کو تیار ہیں۔