خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام کی کامیابی، کیا مذہبی سیاست کا احیا ہے؟ کیا یہ اس تجزیے کی نفی ہے کہ مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک مندی کی طرف مائل ہے؟
مولانا فضل الرحمن اوّل و آخر سیاستدان ہیں۔ ان کے نزدیک دیوبند اصلاً ایک سیاسی روایت ہے، کوئی مذہبی مسلک نہیں۔ یہ بات ان کی سیاسی حکمتِ عملی سے بھی واضح ہے۔ وہ سیاست کو ایک سیکولر عمل سمجھتے ہیں۔ سیکولر ہونا، غیرمذہبی یا غیراخلاقی ہونا نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سیاست کو ایک ایسے عمل کے طور پر دیکھتے ہیں جس کے اپنے آداب اور مطالبات ہیں۔ وہ سیاست دین کی دعوت کیلئے نہیں، اقتدار کیلئے کرتے اور یہ جانتے ہیں کہ سیاست جہاں بھی ہوتی ہے، اقتدار ہی کیلئے ہوتی ہے۔ کوئی سادہ لوح اس کا انکار کر سکتا ہے یا ضرورت سے زیادہ چالاک۔
دعوت کیلئے تبلیغی جماعت موجود تھی۔ اس کے ہوتے ہوئے اس کام کیلئے جمعیت علمائے اسلام کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ سیاست کے مطالبات دعوت سے مختلف ہیں اور اس کی حکمتِ عملی بھی۔ مولانا اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اس لیے انہوں نے دعوت اور سیاست کو کبھی جمع کرنے کی کوشش نہیں کی۔ سیاست میں وہ انہی اہداف کیلئے کھڑے ہوئے جو فی نفسہٖ سیاسی ہیں‘ جیسے منصفانہ انتخابات، جمہوریت، آئین کی بالادستی۔ جن موضوعات کو ہم مذہبی کہتے ہیں ان کیلئے دینی مدارس ہیں اور علما۔ مولانا ان کے دائرہ کار میں دخل نہیں دیتے۔
کے پی کے بلدیاتی انتخابات میں انہوں نے ویسے ہی حصہ لیا جیسے کسی دوسری سیاسی جماعت نے۔ وہی ایجنڈا اور وہی حکمتِ عملی۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کو ان معنوں میں مذہبی جماعت نہیں قرار دیا جا سکتا جن معنوں میں جماعت اسلامی، کم ازکم نظری سطح پر، ایک مذہبی جماعت ہے‘ یا تحریک لبیک کو بھی ہم مذہبی جماعت کہہ سکتے ہیں۔
یہ فرق ممکن ہے بعض لوگوں کے لیے اچنبھے کا باعث ہو۔ جماعت اسلامی کی ایک فکری تاریخ ہے۔ یہ قائم ہی اقامتِ دین کیلئے ہوئی تھی، جس کا ایک پہلو سیاسی غلبہ ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اس کا ایک فکری نظام تشکیل دیا۔ اس کے بعد اس کی تنظیم سازی کی۔ حکمتِ عملی کے باب میں بھی ان کا نقطہ نظر یہ تھاکہ یہ منصوص ہے یعنی سیرت پیغمبرﷺ سے ماخوذ ہے۔ مولانا مودودی نے سیاست کوایک دینی فریضے کے طور پر متعارف کرایا۔ یہی وجہ تھی کہ جب جماعت جب قائم ہوئی تو وہ جمعیت علمائے ہند اور مسلم لیگ دونوں سے الگ تھی اور دونوں کی ناقد بھی۔ یہ دونوں جماعتیں وطن کی آزادی کی تحریکیں تھیں۔ مسلم لیگ نے اپنا دائرہ کار مسلمانوں کے سیاسی و اقتصادی مفادات کو قرار دیا۔ جمعیت کا مقصد استخلاصِ وطن تھا، کوئی اسلامی ریاست قائم کرنا نہیں۔
جمعیت علمائے اسلام دراصل اسی جمعیت علمائے ہند کی وارث ہے۔ دارالعلوم دیوبند سے اٹھنے والی تحریکِ احیا نے برصغیر میں اپنی سرگرمیوں کو تین دائروں میں منظم کیا۔ علمی سرمایے اور روایت کے تحفظ کیلئے مدارس۔ دعوت و تبلیغ کیلئے تبلیغی جماعت اور سیاست کیلئے جمعیت علمائے ہند۔ متحدہ ہندوستان میں جمعیت علمائے ہند کی سیاست سیکولر تھی۔ یہ بات اس وقت واضح ہوگئی جب مسئلہ قومیت پرمولانا حسین احمد مدنی اور علامہ اقبال کے مابین ایک مکالمہ ہوا۔ اس حوالے سے مولانا کا استدلال سیاسی و سماجی تعامل پر مبنی تھا جواس جملے میں متشکل ہوا کہ اس دور میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں، مذہب سے نہیں۔ مولانا کے نزدیک یہ تصور دین کی تعلیمات سے متصادم بھی نہیں تھا۔ علامہ اقبال اور مولانا مودودی، البتہ اسے دینی تعلیمات کے خلاف سمجھتے تھے۔
مولانا فضل الرحمن جس جمعیت علمائے اسلام کے راہنما ہیں، وہ اسی روایت کی امین ہے۔ 1970ء کے انتخابات میں بھی ان کے والد گرامی مولانا مفتی محمود اور مولانا غلام غوث ہزاری نے جماعت اسلامی کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا تھا۔ گویا انہوں نے بھی سیاسی عمل کو خالصتاً سیاسی نظر سے دیکھا۔ سیاسی نظر سے دیکھنے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ لازماً دین کے خلاف ہو۔ اس سے مراد سیاسی ایجنڈا ہو سکتا ہے اورگروہی مفادات بھی۔ تاہم ایک زیرک سیاستدان کے طور پر مولانا فضل الرحمن یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ دارالعلوم دیوبند سے اٹھنے والی جس تحریک کے سیاسی ایجنڈے کے وارث ہیں، اس کے معاشرے میں فکری اور دعوتی اثرات بھی ہیں‘ اس لیے وہ اس عصبیت کو جہاں ضروری سمجھتے ہیں، سیاسی مقاصد کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر اس کا مذہبی تشخص نمایاں ہو جاتا ہے۔ اس کا تعلق نظریہ ضرورت سے ہے۔ مولانا طارق جمیل کے بارے میں جمعیت علمائے اسلام کے کارکنوں کے رویے سے اس بات کو بہتر سمجھا جا سکتا ہے۔
اس سیاسی رویے کی ایک اور مثال پیپلزپارٹی ہے۔ پیپلزپارٹی ایک قومی سیاسی جماعت ہے۔ اس کی جڑیں چونکہ سندھ میں ہیں، اس لیے جہاں سیاسی ضرورت ہوتی ہے، وہ سندھی چادر اوڑھ لیتی ہے اور سندھی عصبیت کی علمبردار بن جاتی ہے۔ اس کا تعلق اسی نظریہ ضرورت سے ہے۔ نون لیگ نے بھی ایک دور میں پنجابی عصبیت کو استعمال کرنے کی کوشش کی، درآں حالیکہ وہ بھی قومی سیاسی جماعت ہے جو صوبائی یا علاقائی سیاست کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
ا س پس منظر کے ساتھ، یہ بات بھی اہم ہے کہ گزشتہ تین برسوں میں، جے یو آئی حقیقی معنوں میں ایک اپوزیشن کی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ ایسے شواہد سامنے نہیں آئے جس سے یہ معلوم ہوکہ انہوں نے اس دوران اپنے بنیادی سیاسی موقف پر ملک کے حقیقی حکمرانوں سے کوئی ساز باز کی ہو۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ دونوں، اس الزام سے اپنا دامن نہیں بچا سکیں۔ اس حکومت کو گرانے کیلئے مولانا کے بس میں جو تھا، انہوں نے کر ڈالا۔ میں اس موقف کے غلط یا صحیح ہونے کی بات نہیں کر رہا بلکہ اس تشخص کی بات کر رہا ہوں جو قائم ہوا۔ کے پی کے عوام نے، لگتا ہے کہ اس کا ادراک کیا۔ جب انہوں نے متبادل کے طور پر دیکھا تو ان کی نظر جے یو آئی پر پڑی۔ وہ جمعیت جس نے خود کومذہبی نہیں، ایک سیاسی متبادل کے طور پرپیش کیا۔یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ کے پی اور بلوچستان کے مخصوص تہذیبی پس منظر میں جے یو آئی کی ایک عصبیت موجود ہے۔ ماضی میں دو مرتبہ، انتخابی اتحاد کے نتیجے میں، اس صوبے کی وزارتِ اعلیٰ اس جماعت کے پاس رہی۔ ایک بار 1970ء میں اور دوسری مرتبہ 2003ء میں؛ تاہم یہ عصبیت کبھی ملک گیر حیثیت حاصل نہیں کر سکی۔ آج بھی نہیں۔
جمعیت علمائے اسلام کی اس کامیابی کا افغانستان کی صورتحال سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ جمعیت گزشتہ ماہ وسال میں طالبان کی سرگرم حامی نہیں رہی؛ تاہم چونکہ دونوں کا تعلق ایک ہی مذہبی عصبیت سے ہے، اس لیے اس بات کا پورا امکان ہے کہ دونوں اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ سیاست امکانات کو بروئے کار لانے کا نام ہے اور ہمارے اہلِ سیاست میں مولانا سے بہتر اس بات کو کوئی نہیں سمجھتا۔
ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج کیا صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات میں بھی دھرائے جائیں گے؟ اگر جمعیت علمائے اسلام نے اسی طرح خود کوحقیقی اپوزیشن کے منصب پر فائز کیے رکھا تو اس سوال کا جواب کے پی اور بلوچستان کی سطح پر اثبات میں بھی ہو سکتا ہے؛ تاہم اس کا سبب مذہبی نہیں، سیاسی ہوگا۔ اسی وجہ سے میرا تجزیہ ہے کہ ان نتائج سے یہ منعکس نہیں ہوتا کہ پاکستان میں مذہبی سیاست توانا ہو رہی ہے۔