مولانا طارق جمیل نے گانے کا ایک بول کیا گنگنا دیا، یار لوگوں نے آسمان سر پہ اٹھا لیا۔
مولانا کو جوانی میں موسیقی سے بہت شغف رہاہے۔ جب مذہب کی طرف مائل ہوئے اور تبلیغی جماعت میں شمولیت اختیارکی تواُس ماضی کو خیرباد کہہ دیا جس میں موسیقی بھی شامل تھی۔ کچھ دن پہلے، مولانا ایک تعلیمی ادارے کی تقریب میں مہمان تھے۔ وہاں انہوں نے ایک معروف بھارتی گانے کا مکھڑا گنگنایا۔ 'طلعت محمود گائے تو ناجائز، طارق جمیل گائے تو جائز۔ کیا یہی تمہارا اسلام ہے؟‘ اس طرح کے اعتراضات کے ساتھ مذہب بیزار حلقے نے ان پر تاخت کی اور اپنے تئیں اہلِ مذہب کے قول وفعل کے تضاد کوثابت کرنا چاہا۔ مولانا کا فضائی بوسہ بھی بحث کا موضوع بنا رہا۔یہ اعتراض بچگانہ اور سطحی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ روایتی مذہبی فکر میں بھی گنگنانے کو کسی نے ناجائز نہیں کہا۔ دوسری بات یہ کہ جو موسیقی کو ناجائز کہتے ہیں، وہ آلاتِ موسیقی کی بات کرتے ہیں۔ مولانا نے محض گنگنایا‘ کہیں کوئی آلہ موسیقی استعمال نہیں ہوا۔ طلعت محمود نے جب گایا تو پیشہ ورانہ انداز میں تمام آلاتِ موسیقی کے ساتھ۔ اس لیے دونوں کو ایک قرار دینا، اعتراض برائے اعتراض سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس سے کسی تضاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یہ محض ایک واقعہ ہے۔ آج کل لوگ جو تنقید کرتے ہیں، وہ نوے فیصد اسی طرح کی ہوتی ہے۔ پہلے دوسرے کے منہ میں اپنی بات ڈالتے ہیں۔ اس کے کسی قول یا فعل کی ایک من پسند تعبیر کرتے ہیں اور پھر اپنی اس تعبیر کو دوسرے کا موقف قرار دے کر اس پر تنقید کے تیر چلا تے ہیں۔ یوں وہ اپنے سجائے ہوئے میدانِ جنگ میں فتح کا جھنڈا گاڑتے اور 'فاتح‘ کالقب اختیار کرتے ہیں۔ اس طرح کے فاتحین کے اشتہارات سے فصیلِ شہر بھری رہتی ہے۔
افراد کی بات تو ایک طرف، تصورات بھی اس طرح کی تنقید کی زد میں رہتے ہیں۔ ایسا ہی ایک تصور جمہوریت ہے۔ ایک دلچسپ تبصرہ، پچھلے دنوں نظر سے گزرا جس میں سیالکوٹ کے واقعے کی ذمہ داری جمہوریت کے سرڈالی گئی ہے۔ استدلال یہ تھاکہ جمہوریت کا مطلب ہے 'جو لوگ چاہیں‘۔ سیالکوٹ میں جولوگوں نے چاہا وہی ہوا‘ اس پر اب شور کیوں ہے؟ جب جمہوریت ہو گی تو پھر یہی کچھ ہو گا۔
اس تبصرے میں جمہوریت کے ساتھ وہی سلوک کیا گیاہے جو ناقدین نے مولانا طارق جمیل کے ساتھ کیا۔ پہلے خود ہی جمہوریت کی ایک تعریف کی اور پھر خود ہی الفاظ کے لاؤ لشکرکے ساتھ اس پر چڑھ دوڑے اوراپنے تئیں قصرِ جمہوریت کومسمار کرنے کے بعد، اپنی فتح کااعلان کردیا۔ یہ جمہوریت کا بہت سطحی تعارف ہے۔ یہاں جمہوریت سے وہ بات منسوب کی جا رہی جس کا کبھی دعویٰ نہیں کیا گیا۔
جمہوریت ایک نظامِ اقدار کے تحت روبعمل ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ جمہوری نظامِ سیاست میں قانون سازی کا آخری ادارہ ہے جس پرکوئی قدغن نہیں لیکن پارلیمنٹ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف کوئی قانون منظور نہیں کرسکتی۔ مثال کے طورپر جان کا تحفظ بنیادی انسانی حق ہے۔ کسی جمہوری ریاست میں اگرسو فیصد عوام چاہیں توبھی کسی انسان کی جان نہیں لی جا سکتی الا یہ کہ خود قانون نے اسے کسی معاملے میں روا رکھا ہو جیسے قتل کی سزا۔ پاکستان کے آئین میں بھی چند بنیادی اصول دیے گئے ہیں جن کے خلاف قانون سازی نہیں ہو سکتی۔ یہی معاملہ ان جمہوریتوں کا ہے جہاں آئین موجود ہے۔
فسادِ انبوہ کو جمہوریت سے وہی منسوب کرسکتا ہے جو جمہوریت کوجانتا نہیں یا دانستہ غلط فہمیوں کا بیج بوناچاہتا ہے۔ جمہوریت میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے اور اکثریت کوکسی طرح بھی یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ ان کے بارے میں جو چاہے قانون بنائے۔ جمہوریت کا کمال یہ ہے کہ اس میں اقلیت کیلئے یہ امکان موجودہوتا ہے کہ وہ کسی وقت بھی اکثریت میں بدل سکتی ہے۔ بطور نظامِ حکومت جمہوریت میں اپوزیشن کومتبادل حکومت تصورکیا جاتا ہے۔ آج تک اقلیتوں کے حقوق کا جتنا تحفظ جمہوریت نے کیا ہے،کسی نظامِ حکومت نے نہیں کیا۔ اسے اکثریت کا جبر قرار دینا ایک مفروضہ ہے۔
ایک جمہوری معاشرے میں سیالکوٹ جیسے حادثات کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ حادثات وہاں ہوتے ہیں جہاں مذہب، روایت اوررسم و رواج کے نام پر انسانی جذبات کو بے لگام چھوٹ دی جاتی ہے اور پھر ان کی وکالت کی جاتی ہے۔ جہاں قانون شکن ہیرو بن جاتے ہیں اور اہلِ قلم ان کے قصیدے لکھتے ہیں۔ قانون کی حکمرانی کے بغیر کوئی نظمِ اجتماعی جمہوری نہیں کہلا سکتا۔
یہ محض جمہوریت کا قصہ نہیں۔ مسلکی اور سیاسی تفرقہ بازی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کے بارے میں خود ساختہ آرا کے اسیر بن جاتے یا بنا دیے جاتے ہیں۔ جمہوریت کی طرح خود ہی دوسروں کی ایک تصویر بناتے ہیں۔ ان میں اپنے جذبات کا رنگ بھرتے ہیں اور پھر اس تصویر کواپنی مرضی سے ایک نام دے دیتے ہیں۔ ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ دوسروں کی بات خود ان کی زبان سے جانیں۔ ان سے پوچھیں کہ وہ اسے اپنی تصویر مانتے ہیں یا نہیں۔
میں نے اپنے استاذِ گرامی جاوید احمد غامدی صاحب سے جو باتیں سیکھیں، ان میں ایک اہم بات تنقید کے آداب ہیں۔ تنقید کے لیے لازم ہے کہ پہلے دوسرے کے موقف کو دیانتداری کے ساتھ، خوداسی سے جانا جائے اوراسے ہمدردی کے ساتھ سمجھا جائے۔ اس کے بعد ہی آپ کوتنقید کا حق حاصل ہوسکتا ہے۔ اس سے پہلے میں نے بریلوی مسلک کو دیوبندی علما کی کتب سے جانا اور اہلِ تشیع کے افکار کوان پر لکھی گئی تنقیدی کتب سے سمجھا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ میں مقدور بھر اصل ماخذ تک رسائی کی کوشش کرتا ہوں، محض ایک ناقد کی روایت پر انحصار نہیں کرتا۔
تاریخی شخصیات اور افکارتو ایک طرف، میں یہ دیکھتا ہوں کہ معاصر شخصیات اور افکار کے بارے میں بھی لوگ تساہل کا شکار ہوتے اور محض سنی سنائی باتوں پر اعتماد کرتے ہوئے، دوسروں کے کفر‘ اسلام کا فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ اکثر اوقات یہ شخصیات ہم سے ایک فون کال یا ای میل کے فاصلے پر ہوتی ہیں۔ ایک زیادتی تو وہ لوگ کرتے ہیں جو ایک حلقہ اثر رکھتے اور اس میں دوسروں کے بارے میں جھوٹی اور بے بنیاد باتیں پھیلاتے ہیں۔ دوسری زیادتی وہ کرتے ہیں جو بلا تحقیق ان پر ایمان لے آتے ہیں۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے طبقے کا عذر بھی قیامت کے روز قابلِ قبول نہیں ہو گا، اگر اس نے اپنے مذہبی یا سیاسی راہنماؤں کی روایت پر کوئی غلط عقیدہ یا رویہ اپنا لیا۔ پہلے طبقے کا معاملہ تو اس سے سنگین تر ہے۔
اگر ہم اتنی احتیاط ہی ملحوظ رکھ لیں کہ دوسروں سے کوئی بے بنیاد اور بلا تحقیق بات منسوب نہ کریں تو بہت سی سماجی تلخیوں کو ختم کرسکتے ہیں۔ اگر ہم دوسروں کے نظریات کو ویسا ہی بیان کریں جیسے وہ خودبیان کرتے ہیں توان کے بارے میں ہمارے تصورات بدل جائیں۔ بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو۔ حسنِ ظن تواس سے اگلا مرحلہ ہے جس کے بعد معاشرہ جنت نظیر بن سکتا ہے۔ لیکن اگر ہم اتنا ہی کرلیں کہ دوسروں کے منہ میں اپنی بات نہ ڈالیں تواس سے بھی ایک پُرامن معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے۔ مولانا طارق جمیل ہوں یا جمہوریت، آپ کو اعتراض کا پورا حق ہے لیکن اتنی احتیاط ضرور کریں کہ ان سے غلط بات منسوب نہ کریں یا ان کی من مانی تعبیر نہ کریں۔