قائد اعظم کوئی'مذہبی ریاست‘ نہیں چاہتے تھے۔ یہ بات انہوں نے واضح الفاظ میں کہہ رکھی ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس باب میں مغالطہ کیا ہے ا ور کیوں ہے؟
'قائداعظم کا تصورِ ریاست‘ ایک پامال موضوع ہے۔ اس پر جوکچھ لکھا جانا چاہیے تھا‘ میرا خیال ہے اس سے زیادہ لکھا جا چکا۔ اس کے باوصف‘ ہر سال‘11 اگست یا 25 دسمبر کو یہ بحث پھر زندہ ہو جاتی ہے۔ متعدد بار پیش کیے گئے دلائل کو ایک بار پھر دہرایا جاتا ہے لیکن اختلافِ رائے ختم نہیں ہوتا۔ اس سال بھی یہی ہوا۔ قائداعظم کی سالگرہ پر فواد چودھری صاحب نے ایک تقریر کی اور یہ بحث پھر زندہ ہو گئی۔ میں بھی اس موضوع پر شاید کوئی نئی بات نہ کہہ سکوں‘ تاہم مجھے خیال ہوتا ہے کہ اختلافِ رائے کی دو خاص وجوہات ہیں‘ اگر ان کو سمجھ لیا جائے تو یہ مغالطہ بڑی حد تک دور ہو سکتا ہے۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ 'مذہبی ریاست‘ اور 'اسلامی ریاست‘ کو باہم مترادف اصطلاحیں سمجھا جاتا ہے‘ در آں حالیکہ‘ یہ دو مختلف اصطلاحیں ہیں۔ 'مذہبی ریاست‘ انگریزی کے لفظ 'تھیوکریسی‘ (Theocracy) کا ترجمہ ہے۔ اس کا ایک معروف مطلب ہے: 'مذہبی طبقے کی حکومت‘۔ اس اصطلاح نے مغرب میں جنم لیا اور وہاں اس سے کلیسا کی حکومت مراد لی جاتی ہے۔ اردو میں اس کا ترجمہ 'پاپائیت‘ کیا گیا ہے۔ اگر ہم اسے مسلم معاشرے کے پس منظر میں سمجھیں تو اس سے مراد ہو گی 'علما یا مذہبی طبقے کی حکومت‘۔ قائداعظم نے ان معانی کو سامنے رکھتے ہوئے واضح لفظوں میں یہ کہا کہ پاکستان 'مذہبی ریاست‘ (Theocratic State) نہیں ہو گا۔
قائداعظم نے یہ بات بحیثیت گورنر جنرل کہی۔ فروری 1948ء میں امریکی عوام کے لیے انہوں نے ایک ریڈیو پیغام جاری کیا‘ جس میں انہوں نے ریاست سے متعلق مختلف امور پر اپنا نقطہ نظربیان کیا۔ آئین کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ آئین ساز اسمبلی کو ابھی یہ مرحلہ طے کرنا ہے مگر اس میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے کہ یہ جمہوری ہوگا اور اسلام کے اصولوں پر مبنی ہو گا۔ ''اسلام نے ہمیں وحدتِ آدم‘ مساوات اور انصاف کا درس دیا ہے... پاکستان کسی صورت میں بھی ایک مذہبی ریاست نہیں ہو گا‘ اِن معنوں میں کہ اس پر کوئی مذہبی طبقہ الٰہی مشن کے ساتھ حکمرانی کرے۔ یہاں وہ شہری بھی بستے ہیں جو مسلمان نہیں‘ جیسے ہندو‘ مسیحی اور پارسی۔ انہیں وہی حقوق حاصل ہوں گے جو دوسرے شہریوں کو میسر ہیں اور وہ پاکستان کے معاملات میں اپنا کردار ادا کریں گے‘‘۔
اسلام میں مذہبی طبقے کی حکمرانی کا کوئی تصور موجود نہیں۔ بیسویں صدی میں 'اسلامی ریاست‘ کا تصور پیش کرنے والے مفکر و عالم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی رائے بھی یہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ''اسلامی ریاست‘ جس کا قیام اور فروغ ہمارا نصب العین ہے‘ نہ تو مغربی اصطلاح کے مطابق مذہبی حکومت (Theocracy) ہے اور نہ جمہوری حکومت بلکہ وہ ان دونوں کے درمیان ایک الگ نوعیت کا نظامِ سیاست و تمدن ہے‘‘۔
مولانا اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ مغرب میں مذہبی حکومت دو بنیادی تصورات کا مجموعہ ہے: ایک خدا کی بادشاہی‘ قانونی حاکمیت کے معنوں میں اور دوسرا ''پادریوں اور مذہبی پیشواؤں کا ایک طبقہ جو خدا کا نمائندہ اور ترجمان بن کر خدا کی اس بادشاہی کو قانونی اور سیاسی حیثیت سے نافذکرے‘‘۔ مولانا مودودی کے نزدیک پہلا تصور یعنی خدا کی حاکمیت کا عقیدہ تو اسلام میں موجود ہے لیکن ''دوسرا جزو اسلام میں قطعاً نہیں ہے‘‘۔ اس کی شرح میں وہ لکھتے ہیں: ''اس (قرآن و سنت) کے سوا‘ کسی فقیہ‘ امام‘ ولی یا عالم کا یہ مرتبہ نہیں ہے کہ اس کے قول و فعل کو حکمِ خدا وندی کی حیثیت سے بے چون و چرا مان لیا جائے۔ اس صریح فرق کے ہوتے ہوئے‘ اسلامی ریاست کو مغربی اصطلاح میں 'مذہبی حکومت‘ کہنا قطعاً غلط ہے‘‘۔ (اسلامی ریاست‘ صفحہ‘ 479 تا 480)۔
مولانا مغربی جمہوریت کے تصور کو بھی پوری طرح درست نہیں سمجھتے۔ جمہوریت بھی ان کے نزدیک دو اجزا کا مجموعہ ہے۔ پہلا جزو ہے عوام کی قانونی اور سیاسی حاکمیت۔ اسلام چونکہ خدا کی حاکمیت کا قائل ہے لہٰذا جمہوریت کا یہ پہلو اس کیلئے قابلِ قبول نہیں۔ جمہوریت کا دوسرا جزو ہے: ''ریاست کا انتظام کرنے والی حکومت کا عوام کی آزادانہ خواہش سے بننا اور بدل سکنا‘‘۔ اس جزو کو مولانا کے نزدیک اسلام قبول کرتا ہے۔ اپنے اس تصور اسلامی ریاست کو وہ ایک اصطلاح 'تھیو ڈیمو کریسی‘ سے واضح کرتے ہیں۔ مولانا مودودی کے خیالات کو قدرے تفصیل سے بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس دور میں اسلامی ریاست کے نہ صرف سب سے بڑے فکری رہنما ہیں بلکہ انہوں نے اسے برپا کرنے کیلئے عمر بھر جدو جہد کی۔ وہ بھی مذہبی ریاست اور اسلامی ریاست میں فرق کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک 'اسلامی ریاست‘ سے مراد وہ ریاست ہے جس کا نظم ِاجتماعی اسلام کے اصولوں کی روشنی میں طے ہو گا لیکن حکمرانوں کا انتخاب عوام کریں گے۔
قائداعظم کے تصورِ ریاست کے باب میں ابہام کی دوسری وجہ یہ غلط فہمی ہے کہ دنیا میں 'اسلامی ریاست‘ کا کوئی ایک تصور پایا جاتا ہے۔ یہ خیال بھی درست نہیں۔ قائداعظم کا تصورِ ریاست وہ نہیں تھا جو مولانا مودودی کا تھا۔ قائداعظم اور مسلم لیگ اگر اسلام کے اصولوں کے مطابق ریاستی اداروں کی تشکیل کی بات کرتے تھے تو وہ اس تشکیل سے مختلف تھی جو مولانا مودودی چاہتے تھے۔ مولانا نے مسلم لیگ کے ساتھ اپنے اس اختلاف کو پوری شرح و وضاحت کے بیان کر دیا ہے۔ ''تحریکِ آزادیٔ ہند اور مسلمان‘‘ کے عنوان سے مولانا کی اس باب میں لکھی گئی اکثر تحریروں کو دو جلدوں میں جمع کر دیا گیا ہے۔ میری تفہیم یہ ہے کہ قائداعظم مسلمانوں کی قومی ریاست چاہتے تھے اور مولانا مودودی قومیت کے اس تصور کو درست نہیں سمجھتے تھے‘ جو قائداعظم اور مسلم لیگ پیش کر رہے تھے۔ مولانا نے اپنی کتاب ''مسئلۂ قومیت‘‘ میں اس پر بھرپور تنقید کی ہے۔
مغالطہ تب پیدا ہوتا ہے جب قائداعظم کے تصورِ ریاست کو مولانا مودودی کی تشریحات کی روشنی میں سمجھا جاتا ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ قائداعظم جب اسلامی اصولوں کے مطابق ریاستی اداروں کی تشکیل کی بات کرتے ہیں تو اسے اُن ہی کے بیانات کی روشنی میں سمجھا جائے۔ اس کی سب سے مستند شرح ان کی 11 اگست کی تقریر ہے اور ریاستی عہدے داروں کے انتخاب کے حوالے سے ان کے فیصلے ہیں۔
ابہام کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قائداعظم نے اس موضوع پر جو کچھ کہا‘ اکثر اجمال ہے‘ تفصیل نہیں۔ مسلم لیگ کے پاس ریاست کا کوئی مفصل خاکہ موجود ہی نہیں تھا۔ یہی وہ خلا تھا جس سے یہ موقع پیدا ہوا کہ لوگوں نے اپنی اپنی تعبیرات کو قائداعظم کے افکار بنا کر پیش کیا۔ کوئی اس کو سمجھنا چاہے تو غلام احمد پر ویز صاحب اور جماعت اسلامی کی دوسر ی نسل کے مفکرین کی تحریریں پڑھ لے۔ دونوں یہ ثابت کرتے ہیں کہ قائداعظم کے تصورِ ریاست کی درست تعبیر وہی ہے جو وہ پیش کر رہے ہیں۔ اب دونوں کے خیالات میں جو فرق ہے‘ اہلِ علم سے پوشیدہ نہیں۔
قائداعظم کے تصورِ ریاست کے باب میں موجود ابہام اور مغالطے کو‘ ان دو جوہات کا ادراک ختم کر سکتا ہے: ایک یہ کہ وہ اسلام کے ا صولوں کی روشنی میں ایک قومی ریاست کی تشکیل چاہتے تھے جو کسی طرح 'مذہبی ریاست‘ نہیں تھی۔ ان کے نزدیک‘ اسلامی تصورِ ریاست‘ جدید قومی ریاست کے تصور سے ہم آہنگ ہے۔ دوسرا یہ کہ قائداعظم کے تصورِ ریاست کی تفہیم زیادہ تر قیاسی اور خود ساختہ ہے۔ اس باب میں اگر کوئی سب سے مستند شرح ہو سکتی ہے تو وہ ان کی 11 اگست کی تقریر ہے۔ باقی سب قیاس آرائی ہے۔