دورِ جدید میں، کیا سیاست کی نظریاتی تشکیل ممکن ہے؟
چلی میں ایک نوجوان نے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی جس کا تعلق بائیں بازو سے ہے۔ بعض لوگ یہ خیال کررہے ہیں کہ اس کی صدائے بازگشت پاکستان میں بھی سنی جائے گی۔ لاطینی امریکہ سے ایشیا تک زمین انقلابی نعروں سے گونج اٹھے گی۔ سرمایہ دارانہ نظام سے تنگ خلقِ خدا، یہاں بھی سرخ پھریرا لے کر نکلے گی اورپھر راج کرے گی۔ اس سے پہلے بھارت میں جب کسان اپنے مطالبات منوانے میں کسی حد تک کامیاب رہے تواس وقت بھی اسی طرح کی پُرامیدی کا اظہار کیا گیا تھا۔
پاکستان میں یہ خیال کس حد تک امرِ واقعہ بن سکتاہے، یہ سمجھنے کیلئے ہمیں چند سوالات کی گھاٹی سے گزرنا ہوگا۔ ایک سوال تو وہی ہے جو میں نے ابتدا میں اٹھایا ہے۔ کیا آج کا عہد کسی نظریاتی سیاست کیلئے سازگار ہے؟ اس سے میری مراد اس دور کا احیا ہے جب دنیا نظری بنیادوں پر منقسم تھی: دایاں بازو اور بایاں بازو۔ آج کے کالم میں ہم اس گھاٹی سے گزرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ موقع ملا تو دیگر سوالات کو بھی زیرِ بحث لائیں گے۔
بطور مقدمہ یہ بات بھی واضح رہنا چاہیے کہ کم و بیش گزشتہ پانچ صدیوں میں جن نظریاتی مباحث نے جنم لیا، ان سب کا مرکز مغرب تھا۔ بشمول مسلم دنیا، غیر مغربی دنیا میں کوئی نیا نظری قضیہ نہیں پیدا ہوا۔ دیگر معاشروں نے صرف اپنے ردِ عمل کا اظہار کیا۔ نظریاتی سیاست کی بحثیں بھی یورپ میں اٹھیں۔ اسی سے نظام ہائے علم (Epistemes) وجود میں آئے۔ جس عہد کو ہم جدیدیت کہتے ہیں، اس کی پیدائش، افزائش، تکمیل سب مغرب میں ہوئی۔ نظریہ اور نظریاتی سیاست، جدیدیت کے زیرِاثر پروان چڑھنے والے تصورات ہیں۔ جدیدیت نے ساختیاتی نظامِ فکر (Structuralism) کو فروغ دیا۔ یہ لسانیات اورمطالعہ متن کے پس منظر میں اٹھنے والی ایک فکری لہر ہے جس نے لسانی مباحث کو ایک ساخت کے تابع کیا۔ اسی سے پھر سماجی ساختیات نے جنم لیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سماج کی تشکیل حالات و واقعات کے ایک مربوط نظام کے تحت ہوتی ہے اوراسے ایک ضابطے کے تحت بیان کیا جا سکتا ہے۔ جدیدیت کا یہ دعویٰ تھاکہ سچائی کی تعریف ممکن ہے اوراس تک پہنچنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ سچائی تک پہنچنے کے اس عمل کوسائنسی اندازِ فکر کے تحت بیان کیا گیا جس نے مظاہرِ فطرت پر اس کا اطلاق کرتے ہوئے، یقینی نتائج دیئے۔ اسی سے یہ اخذ کیا گیا کہ سماج کی بھی ایک ساخت ہوتی ہے اور اسی سائنسی اندازِ فکر کے تحت اسے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
مارکس نے اس کا اطلاق کرتے ہوئے اپنے تئیں وہ اصول دریافت کرلیا جس سے سماج کی ساخت کو سمجھا جا سکتا تھا۔ یہ اصول طبقاتی کشمکش ہے۔ اسی سے ایک سیاسی فکر نے جنم لیا اورسیاست کونظریے کے تابع کیا۔ جدیدیت ہی کے زیرِاثر ایک اور نظامِ فکر بھی موجود تھا جسے سرمایہ دارانہ نظام کہتے ہیں۔ اس نے سرمایے کو اصل الاصول قرار دے کر معاشی و سماجی عوامل کو سمجھا۔ یوں دنیاایک نظریاتی کشمکش سے دوچار ہوئی۔ اسی کے زیرِاثر پھر مسلم مفکرین نے بھی اسلام کو ایک نظریے کے طورپر پیش کیا۔ اس کی بنیاد وہ سچائی تھی جو مذہب کی دریافت تھی اورمطلق تھی۔ اشتراکیت کی ساخت سماجی تھی اور مذہب کی مابعد الطبیعیاتی۔ سرمایہ داری، اشتراکیت، اسلام ازم، سب ساختیاتی نظام ہائے فکر ہیں اورکہا جا سکتا ہے کہ جدیدیت کی پیداوار ہیں۔
آج مغرب ایک نئے فکری دور میں داخل ہوچکا جسے پسِ جدیدیت (Post Modernism) کہتے ہیں۔ اسی کی ایک فرع پسِ ساختیات (Post Structuralism) ہے۔ اس کے تحت سچائی نہ تو مطلق ہوتی ہے اور نہ دنیا میں ساخت نام کی کوئی شے پائی جاتی ہے۔ مابعد جدیدیت کسی بیانیے پر یقین نہیں رکھتی۔ یہ مہا بیانیے (Grand Narrative) کے تصور کی نفی ہے۔ اس میں کوئی سچائی مطلق نہیں۔ یہ جن عوامل کے زیرِاثر مرتب ہوتی ہے، وہ بھی بدلتے رہتے ہیں‘ لہٰذا پوسٹ ماڈرن ازم یا پس ساختیات میں نظریے کا کوئی وجود نہیں۔
اس کا مطلب فکری انارکی نہیں بلکہ پوسٹ ماڈرن ازم مختلف بیانیوں کو ملاکر ایک بیانیے کے وجود کو تسلیم کرتا ہے جو بظاہر متصادم یا متضاد ہیں؛ تاہم یہ بھی سیال ہے۔ یوں سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکیت کا جزوی ملاپ ممکن ہے۔ اسلام اور سرمایہ داری کا ملن امکان سے دور نہیں۔ اس فکری ارتقا کو اگر قبول کر لیا جائے تو اشتراکیت یا کسی نظریاتی سیاست کیلئے اب کوئی جگہ نہیں۔ انسانی تجربات کی روشنی میں اب نئے نظام ہائے فکر وجود میں آئیں گے جو لازم نہیں کہ کسی ساخت کے تابع ہوں۔ یہ مختلف متضاد نظریات کا مجموعہ ہو سکتے ہیں اور اس کے علاوہ کچھ نیا بھی ہو سکتا ہے جو متفرق اجزائے ترکیبی سے مرتب ہو۔
میرا احساس ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے پوسٹ ماڈرن ازم میں قدم رکھ دیا ہے۔ اس نے متضاد بیانیوں کو اپنے مہا بیانیے (Grand Narrative) کے تابع آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے ہیں۔ مثال کے طور پر اس نے اشتراکیت سے فلاحی مملکت کا تصور لے لیا اورمسلمانوں کی طرف سے اگر غیر سودی معاشی نظام کی بات ہوئی تو اسے جگہ دینے پر بھی آمادگی ظاہرکی۔ اس وقت مغرب میں بلا سود بینکنگ کے تجربات ہورہے ہیں اور یہاں بھی بینکوں نے علما کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ساتھ وابستہ کررکھا ہے۔ سرمایہ داری کی کامیابی کا راز ہی یہی ہے۔ اشتراکیت نے اس کے برخلاف اپنے تجزیے کو ساختیاتی رکھا اور کسی ارتقا کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس سے پوسٹ ماڈرن عہد میں اس کی بقا کے سامنے سوالیہ نشان ہیں۔ ایک اہم سوال البتہ یہ ہے کہ پوسٹ ماڈرن ازم میں سرمایہ داری بطور 'مہا بیانیہ‘ کیسے باقی رہے گی؟
نیو مارکس ازم (فرینکفرٹ سکول وغیرہ) اندازہ ہوتا ہے کہ مارکس ازم کوساختیاتی نظام سے نکالنے کی ایک کوشش تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دریدا جیسے پوسٹ سٹرکچرل مفکرین مارکس کو مستقبل کا حصہ سمجھتے اور اس کو متروک قرار نہیں دیتے؛ تاہم یہ روح ہے جو باقی رہے گی جس کا تعلق اخلاقیات کے ساتھ ہے۔ مارکس ازم کا بوسیدہ لباس، شاید اب انسانیت کا تن نہ ڈھانپ سکے۔
مغربی نظامِ فکر میں تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے: قدیم، جدید اور پسِ جدید۔ پس جدیدیت کو جدیدیت کے حوالے کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ فکرِ انسانی کا ارتقائی مرحلہ ہے۔ پاکستانی سماج کا مسئلہ یہ ہے کہ دیگر مسلم معاشروں کی طرح یہ ابھی تک قدیم اور جدید کی کشمکش سے نہیں نکلا۔ اس میں ابھی یہ صلاحیت پیدا نہیں ہوئی کہ پوسٹ ماڈرن ازم کے مباحث کا متحمل ہو سکے۔ اسی وجہ سے یہاں اب بھی نظریاتی سیاست کی باتیں ہوتی ہیں۔ بائیں بازو کی سیاست یہاں عوامی سطح پر ظہور نہیں کر سکی جب نظریاتی سیاست کا غلغلہ تھا۔ بھٹو صاحب کے زیرِ اثر اس کا امکان پیدا ہوا تھا لیکن انہوں نے خود ہی اس کا گلا گھونٹ دیا۔ اس کے بعد تو دنیا ہی بدل گئی۔
مذہب بھی ایک ساخت رکھتا ہے۔ پوسٹ ماڈرن دور میں اس کا مستقبل کیا ہے؟ میں اس سوال کو کسی اگلی نشست کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔ فی الحال یہی کہہ سکتا ہوں کہ مسلم معاشروں میں اسے کوئی فوری خطرہ لاحق نہیں۔ اگر ہم نے مغرب کی فکری تقلید ہی جاری رکھنی ہے توپھر ہمیں بھی پوسٹ ماڈرن ازم کے چیلنج کا سامنا ہوگا؛ تاہم اس وقت دنیا شاید کسی نئے فکری عہد میں داخل ہو چکی ہو۔