پہلے گردہ اور اب دل۔ ماہرینِ طب نے اطلاع دی ہے کہ انسانی جسم نے سور کے اعضا کو قبول کر لیا ہے۔ دنیا کے لیے تو یہ حیات آفریں پیغام ہے مگر کیا مسلمانوں کے لیے بھی؟
اہلِ فقہ اس طرح کے مسائل پر گفتگو کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ صرف سورکا گوشت (لحمِ خنزیر) حرام ہے یا اس کی کھال اور بال بھی؟ دیگر حرام جانوروں کی کھال اور بال استعمال کیے جا سکتے ہیں تو سور کے کیوں نہیں؟ یہ بحث پھر اعضا تک جائے گی اور حلت و حرمت کا باب کھلے گا۔ ہمارے ہاں تو ابھی تک انسانی اعضا کی پیوندکاری کا فیصلہ نہیں ہوا۔ میری دلچسپی ان فقہی سوالات سے زیادہ، ان اصولی مباحث سے ہے جن کا تعلق بدلتی دنیا میں مذہب کے کردار سے ہے۔
طب کے ماہرین بتاتے ہیں کہ یہ پیوند کاری سور کے دل میں جینیاتی تبدیلی سے ممکن ہوئی ہے۔ ایک حیوانی عضو کوانسانی وجود کیلئے قابلِ قبول بنایا گیا ہے۔ یہ دوطرفہ عمل ہے۔ ایک طرف سور کے دل میں ایسی تبدیلی لائی گئی ہے، جس کے بعد وہ انسانی جسم کو اپنے لیے اجنبی نہ سمجھے۔ دوسری طرف انسانی جسم کوادویات سے یہ باور کرایا گیا کہ وہ اس دل کو اپنا ہی دل سمجھے، کسی غیر کا نہیں۔ اس تجربے سے شاعروں کے دل پر کیا گزرے گی، یہ تو کوئی شاعر ہی بتا سکتا ہے، میرا مسئلہ، جس طرح عرض کیا گیا، دوسرا ہے۔
ایک عرصے سے مجھے یہ خیال ہوتا ہے کہ اجتہاد کے نام پر مذہب کو ہردور کے علم کا مقتدی تو نہیں بنادیا گیا ہے؟ ماہرینِ طبیعیات نے فطرت کے کسی راز سے پردہ اٹھایا تو اہلِ مذہب نے کان پر دھرا قلم اتاراکہ مذہبی متون کو اس سے ہم آہنگ ثابت کریں۔ ریاستی سطح پر نظام بنے تو 'اسلام کا نظامِ سیاست‘ اور 'اسلام کا نظامِ معیشت‘ جیسی تصنیفات سے کتب خانے اٹ گئے۔ سائنس نے کوئی انکشاف کیا توثابت کیا گیا کہ قرآن مجید کی فلاں آیت میں یہ راز برسوں پہلے بیان کردیا گیا تھا۔
ایک رویہ اورہے اوروہ بھی انفعالی ہے۔ پہلے انکار اورپھرخاموش اقرار۔ ہرنئی دریافت یا انکشاف پر پہلا ردِعمل اس کا انکارہے: انسان چاند پر کیسے اتر سکتا ہے؟ یہ سائنسدانوں کی شعبدہ بازی ہے۔ یہاں سے بات شروع ہوتی ہے اورپھر ایک وقت آتا ہے کہ ایسے واقعات کا انکار عقلاً محال ہوجاتا ہے۔ پھر خاموشی اور گریزکا رویہ اپنا لیا جاتا ہے۔ بالآخر قبولیت کا۔ جمہوریت پہلے مرحلے میں خلافِ اسلام اور دوسرے میں عین اسلام ہے یا پھر سکوت۔
ایسا کیوں ہے؟ اپنے عہد کے علمی پیمانے کومعیار مان کر، مذہب کی تاویل، کیا صحیح رویہ ہے؟ مذہب کو غیرمذہبی علمی روایت کے مطابق ثابت کرنا، کیا دین کی خدمت ہے؟ جسے ہم اجتہاد کہتے ہیں، وہ کیا ہے؟ کیا تفقہ فی الدین کا یہی مفہوم ہے؟ نئے علمِ کلام کی ضرورت پر میں بھی لکھتا رہا ہوں۔ نئے علمِ کلام کا مطلب کیا یہی ہے کہ دنیا علم بالحواس کو معیار مانتی ہے تو مذہب کو اس کے مطابق ثابت کر دیا جائے؟ کسی مذہب کے لیے یہ رویہ فی نفسہ غلط ہے یا یہ کسی نظامِ فکر کی بقا کیلئے ناگزیر ہے؟
قدیم دینی ادب کا مطالعہ کیجیے تومعلوم ہوتا ہے کہ ہردور کے دینی علما ان سوالات کو اپنی تحقیق کا موضوع بناتے رہے ہیں جو ان کے معاصر علم کی دریافت تھے۔ وہ اگر فلسفے کا رد کر ر ہے تھے تو اس کیلئے فلسفیانہ دلائل ہی کا سہارا لے رہے تھے۔ اس سے ایک بات البتہ ایسی سامنے آتی ہے جس کا اعتراف ضروری ہے۔ مذہب خود یہ مطالبہ کرتا ہو یا نہ کرتا ہو، یہ حالات کا جبر ہے جواہلِ مذہب کومجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے عہد کے علم کا سامنا کریں۔ اس سے گریز کسی صورت ممکن نہیں ہوتا۔
دوسری طرف ایک آفاقی نظامِ فکر کیلئے لازم ہے کہ وہ آفاقی اقدار کی بنیاد پر اپنا مقدمہ پیش کرے۔ وہی اس کا اصل مقدمہ ہے۔ دیگر مباحث کی نوعیت ضمنی ہے۔ یہ مباحث آج کیلئے اہم ہو سکتے ہیں لیکن آنے والے دور میں عین ممکن ہے کہ غیر متعلق ہوجائیں۔ اصل پیغام البتہ زندہ رہے گا‘ جو آفاقی اقدار سے جڑاہوا ہے۔ انسان کے تہذیبی سفر کو سامنے رکھیے تو اس قیاس کیلئے مضبوط بنیادیں موجود ہیں کہ یہ اخلاقیات ہیں جو آفاقی ہیں۔ انسانی تصوراتِ علم، سماجی ادارے، ٹیکنالوجی، یہ سب زمان و مکان سے وابستہ خیالات یا مظاہر ہیں۔ اپنے اپنے ادوار میں اُن کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ان کا جواب دینا بھی ضروری ہوتا ہے۔ تاریخ کے علمی مقدمات کا معاملہ لیکن دربارِ فرعون کے جادوگروں کی طرح ہے۔ ان کا سحردربار کے برخاست ہونے تک ہی باقی رہتا ہے۔
تاہم، زمان و مکان سے ماورا زندہ رہنے کیلئے بھی اپنے عہد میں جینا لازم ہوتا ہے۔ یہ زندگی تقاضا کرتی ہے کہ اپنے عہد کے علمی چیلنجوں کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ ان سوالات کو موضوع بنایا جائے جنہیں ایک عہد نے جنم دیا اورجو سریع الاثر ہیں، قطع نظر اس کے کہ ان کی زندگی کتنی مختصر ہے۔ سیدنا یوسفؑ کو اپنا آفاقی پیغام سنانے سے پہلے خوابوں کی تعبیر بتانا پڑتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمیں مسلم تاریخ میں ایک طرف ایسے صاحبانِ علم دکھائی دیتے ہیں جو اپنے عہد میں جنم لینے والے علمِ کلام سے ماورا، مذہب کے ماخذ میں جاں کاری کرتے اور اس کے آفاقی پیغام کو عصری علم کی کسی آمیزش کے بغیر اپنی اصل صورت میں لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں۔ ان کا مخاطب انسان کا وہ اخلاقی جوہر ہوتا ہے جو عقل، تجربے اور مشاہدے سے غذا تو لیتا ہے مگر ان کا قیدی نہیں ہوتا۔ وہ انسان اپنی فطری شخصیت کی سرحد سے باہر نہیں نکلتا جو اس کیلئے مقدر کی گئی ہے۔ اس کیلئے امام حمیدالدین فراہی کے کام کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے یا پھر وہ گروہ جس نے تزکیہ نفس یا تعمیرِ اخلاق کو اپنا موضوع بنایا، کسی فلسفیانہ ملاوٹ کے بغیر۔ ایسے لوگوں کی فہرست زیادہ طویل نہیں ہے۔
دوسری طرف ہماری روایت میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے اپنے عہد کے علمی چیلنج کا سامنا کیا اور مذہب کوایک ایسے نظامِ فکر کے طورپر پیش کرنے کی سعی کی جو ان کے معاصرعلم کے پیمانے پرپورا اترتاہو۔ اس کام کی قدرومنزلت بھی کم نہیں۔ ایسے صاحبانِ علم کی فہرست قدرے طویل ہے۔ اس میں شاہ ولی اللہ، سر سید احمد خان، علامہ اقبال اور مولانا مودودی جیسی شخصیات کے نام شامل ہیں۔
مسلمان معاشرے کو دونوں طرح کی شخصیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سماجی تنوع ہے۔ کچھ لوگ آفاقی سچائی کے تناظر میں زندگی کو دیکھتے ہیں اور کچھ اپنے دور کے علمی مقدمات سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ میرا کہنا یہ ہے کہ مذہب کوہمیشہ آفاقی قدروں ہی کی بنیاد پر اپنا مقدمہ پیش کرنا چاہیے کہ اس کا مخاطب وہ حقیقی انسان ہے جو اپنی فطرت کے زیرِ اثر اپنا اظہار کرتا ہے اورجوہری طور پر اخلاقی ہے۔
انسانی وجود میں اگر سور کا دل دھڑکے گا تولازم نہیں کہ اس کی فطری ساخت پر بھی اثر انداز ہو۔ یہ واقعہ مذہب کیلئے بڑا چیلنج نہیں ہے۔ یہ چیلنج اس وقت بنے گا جب کوئی پیوندکاری انسان کی فطرت کو بدل ڈالے۔ دوسرے الفاظ میں اس کی اخلاقی ساخت پر اثر انداز ہو۔ مذہب کیلئے وہی آزمائش کا لمحہ ہوگا۔ ویسے ہم نے ایسے انسان دیکھ رکھے ہیں جوکسی پیوند کاری کے بغیربھی جانور بن جاتے ہیں۔