سیاسی جماعتوں کا دور، کیا اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے؟ کیا ایک جماعتی نظام، ہمارا مستقبل ہے؟
سیاسی جماعتوں کی ساکھ اور تنظیم دونوں معرضِ خطر میں ہیں۔ ایک طرف ڈیل کی خبریں ہیں اوردوسری طرف اِن جماعتوں کوداخلی سطح پر بغاوتوں کا سامنا ہے۔ ڈیل کی ہر خبر، سچی ہو یا جھوٹی، ان جماعتوں کی ساکھ پر ایک داغ لگا کر گزر جاتی ہے۔ اب یہ دامن پوری طرح داغدار ہو چکا۔ دوسری طرف داخلی اضطراب ہے۔ نون لیگ میں اقتدار سے دوری لوگوں کو بے چین کررہی ہے اور حکمران جماعت کو مہنگائی، جس کا کوئی علاج دریافت نہیں ہو پایا۔ سیاسی جماعتوں کے سر پر کریشن اور نااہلی کی تلواریں لٹک رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب سیاسی جماعتیں اپنی ساکھ کھو بیٹھیں تو پھر کیا ہوتا ہے؟
پہلے مارشل لا آتا تھا۔ اب نہیں آسکتا کہ اس کا فیشن نہیں رہا۔ اب متبادل راستے دستیاب ہیں۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ چہرہ جمہوریت کا ہواور دھڑ مارشل لا کا۔ جیسے کوئی سیاسی سرکس ہو۔ مغربی جمہوریت نے یہی حربہ اپنایا تو اقبال نے اس کی اصلیت بتائی: 'چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر‘۔ پاپولزم کو بھی جمہوریت کے لبادے میں پیش کیا جاتا رہا ہے جس نے انسانی تاریخ میں بدترین فسطائیت کو جنم دیا۔
موجود عمارت کی جگہ نئی عمارت اٹھانے کیلئے لازم ہے کہ پرانی کو گرانے کا جواز فراہم کیا جائے۔ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ یہ ازکارِ رفتہ ہوچکی یااپنے مکینوں کیلئے خطرے کا باعث ہے کہ اپنی کمزور بنیادوں کے سبب ان کی جان لے سکتی ہے تواس کے گرانے کا کام آسان ہوجاتا ہے۔ پھر مکین بھی احتجاج نہیں کر سکتے اورآثارِ قدیمہ والے بھی خاموش ہو جاتے ہیں۔ اگرکوئی اس کے گرانے میں رکاوٹ بنے تو اسے آسانی سے عوام دشمن قرار دیا جا سکتا ہے۔
ڈیل اور داخلی بغاوتوں کی خبروں سے ایک ہی مقدمہ مضبوط ہوتا ہے اور وہ یہ کہ سیاسی جماعتوں کی عمارت فرسودہ ہے۔ یہ کسی وقت گر سکتی اور مکینوں کی جان لے سکتی ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اسے اپنے ہاتھوں سے گرا دیا جائے اور یہاں ایک شاندار رہائشی پلازہ کھڑا کیا جائے۔ اس سے پہلے اس پلازے کی مارکیٹنگ کی جائے کہ کیسی کیسی نایاب سہولتیں یہاں میسر ہوں گی اور زندگی کتنی آسودہ ہوگی۔ اس سیاسی پلازے کا نام، کہتے ہیں کہ صدارتی نظام ہے۔
معلوم یہ ہوتا ہے کہ ایک نئے سیاسی نظام کی بنیادیں رکھی جارہی ہیں۔ ایسا نظام جواپنی روح میں یک جماعتی ہو۔ اس نظام میں پہلے سے موجود سیاسی راہنماؤں کا کوئی کردار نہ ہو۔ اگر ہوبھی توایک بے ضرر معاون کا۔ ان میں یہ صلاحیت نہ ہوکہ وہ اس نظام پراپنے اثرات ڈال سکیں۔ کہا یہ جائے کہ یہ روایتی سیاستدانوں کی بلیک میلنگ سے بچنے کی ایک کوشش ہے جنہوں نے خود کو مافیاز کی صورت میں منظم کرلیا ہے۔ ڈیل اور کرپشن کی داستانوں سے چونکہ سیاستدان اپنی ساکھ کھو چکے ہوں گے، اس لیے اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ اس نظام کے خلاف کوئی بڑا ردِ عمل جنم لے سکے۔ ایسا ردِ عمل جو اس نظام کو کسی مشکل میں ڈال دے۔
کیا سیاسی جماعتیں اتنی اخلاقی سکت رکھتی ہیں کہ اس مجوزہ یا مفروضہ نظام کا راستہ روک سکیں؟ میں زیادہ پُرامید نہیں ہوں۔ اس کے دو بڑے اسباب ہیں۔ ایک تو یہ کہ سیاسی جماعتوں کو اس بات کا کوئی شعور ہی نہیں۔ یہ شعور تب ہو جب ان جماعتوں میں غوروفکر کا کوئی نظام ہو۔ کارکن اور قیادت کے مابین کوئی ربط ہو۔ مشاورت ہو یا ذہن سازی کا کوئی اہتمام ہو۔ تین بڑی پارلیمانی جماعتوں میں تو مجھے ایسا کوئی نظام دکھائی نہیں دیتا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت اس نظام کا حصہ بننے کیلئے تیار ہے جو ان کے وجود کے درپے ہے۔ اس قیادت کو جمہوریت سے زیادہ اقتدار عزیز ہے۔ اس کی سعی و جہد اس لیے ہے کہ اسے قبول کرلیا جائے اور یہ نظام انہیں اپنی فرزندی میں لے لے۔ ان دواسباب کی بنا پر اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ نئے مفروضہ یا مجوزہ نظام کو نافذ نہ کیا جا سکے۔ اگر نظامِ عدل بھی حسبِ سابق ملک وقوم کے مفاد میں ساتھ دیتا رہا تو عدالتی چیلنج کا ممکنہ خطرہ بھی ٹل سکتا ہے۔ نوازشریف صاحب مزاحمت کر سکتے تھے مگرانہوں نے اپنی جماعت کی باگ شہبازشریف صاحب کے ہاتھ میں دے دی ہے۔ اس کے بعد مزاحمت کا امکان ختم ہو گیا۔
کیا اس کا انجام سیاسی جماعتوں کا خاتمہ ہے؟ یہ بہت خطرناک انجام ہوگا اگرایسا ہوا۔ سیاسی جماعتیں اختلافِ رائے کو منظم کرتی ہیں۔ اختلافِ رائے ایک فطری عمل ہے۔ اظہارِ رائے کا عمل اگر غیرمنظم ہوتو فکری پراگندگی کو جنم دیتا ہے۔ سیاسی جماعتیں ہی وہ فورم ہیں جو سماج کے مختلف طبقات کویہ موقع دیتی ہیں کہ وہ ایک نظم کے تابع رہ کر اپنے سیاسی خیالات کا اظہار کریں۔ جہاں سیاسی جماعتیں نہیں ہوتیں وہاں انتہا پسند گروہ وجود میں آتے ہیں جو بندوق کی زبان سے کلام کرتے ہیں۔ اس لیے اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود سیاسی جماعتوں ایک جمہوری معاشرے کی ضرورت ہیں۔
صدارتی نظام کا لازمی نتیجہ سیاسی جماعتوں کا خاتمہ نہیں ہے لیکن پاکستان میں اس نظام کو جس طرح آزمایا گیا، اس سے یہی نتیجہ برآمد کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایوب خان صاحب نے اس نظام کواپنی شخصی آمریت کیلئے استعمال کیا۔ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں جوکسی نجات دہندہ کے انتظار میں رہتے ہیں۔ ہمارا قومی مزاج یہی ہے کہ ہم آج بھی کسی صلاح الدین ایوبی کی راہ دیکھتے ہیں۔ اقبال جب عوامی جذبات کواپنی شاعری کا پیرہن عطا کرتے ہیں تو یہی فرماتے ہیں: 'کیا نہیں اور غزنوی کارگہ حیات میں؟‘۔
کیا آج بھی صدارتی نظام کی کوکھ سے کسی ہیرو کا جنم مطلوب ہے؟ اس سوال پرسب سے زیادہ غور سیاسی جماعتوں کوکرنا چاہیے۔ وہ دبے لفظوں میں صدارتی نظام کی طرف مراجعت کا ذکر توکرتی ہیں لیکن انہیں اس کے مضمرات کا پوری طرح اندازہ نہیں۔ ان کیلئے اہم تر سوال یہ ہے کہ ا قتدار میں ان کا حصہ کتنا ہے اوراس میں اضافہ کیسے ممکن ہوگا۔ ایک دور تھا کہ پاکستان میں جماعت اسلامی، پیپلزپارٹی اور قوم پرست سیاسی جماعتوں کا کارکن بھی سیاست کا اچھا شعور رکھتا تھا۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ قیادت بھی سیاست کو صرف اقتدار کا کھیل سمجھتی ہے۔
سیاسی جماعتوں میں جان ہوتی تو پارلیمنٹ میں اس پربات ہوتی۔ پارلیمانی نظام کو چونکہ آئینی تحفظ حاصل ہے، اس لیے پارلیمنٹ اس کے دفاع میں کھڑی ہوتی۔ جو جماعتیں صدارتی نظام کے خلاف ہیں، وہ پارلیمانی نظام کے حق میں قرارداد لاتیں۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ سوال یہ ہے کہ اگرسیاسی جماعتیں ہی اپنی بقا کی جنگ نہیں لڑیں گی تو پھر ان کا وجود تحلیل کردیا جا ئے گا۔
پاکستان کا سیاسی نظام بازیچۂ اطفال بن چکا۔ ہم بنیادی غلطی کی اصلاح پر آمادہ نہیں، صرف وہ حل تلاش کرتے ہیں جو اس غلطی کے نتائج سے ہمیں محفوظ رکھ سکے۔ تاریخ کا سبق مگر یہ ہے کہ انسان تمام تر ترقی کے باوجود اپنی غلطی کا کوئی حل، توبہ کے علاوہ تلاش نہیں کر سکا۔ توبہ کا مطلب ہے رجوع۔ غلطی کا اعتراف اوراسے نہ دھرانے کا عزم۔ یہ اصلاح کا واحد راستہ ہے جوہم اختیار نہیں کرتے۔ یوں ہماری غلطیوں کا پہاڑ بلند سے بلند تر ہوتا جا رہا ہے۔