کیا اسلام ایک آئیڈیالوجی ہے؟
یہ سوال کیوں پیدا ہوا؟ علم کی دنیا میں خلطِ مبحث اور انتشارِ فکر کا ایک بڑا محرک اصطلاحیں ہیں۔اصطلاح سازی ایک ایسا عمل ہے جو زمان ومکان کا پابند ہے۔ کوئی اصطلاح سیاق و سباق کے بغیر نہیں سمجھی جا سکتی۔جب ہم اس اہم بات کو نظر انداز کرتے اور ایک اصطلاح کو کسی اجنبی زمان و مکان کے پس منظر میں بیان کرتے ہیں تو اس سے خلطِ مبحث کا پیدا ہونایقینی ہے۔اسی کی ایک فرع ‘کسی اصطلاح کا ترجمہ ہے۔جب اصطلاحات کا ترجمہ کیا جا تا ہے تو اس مقصد کے لیے اختیار کیا گیالفظ اپنا ایک لسانی پس منظر رکھتا ہے۔ ایک اجنبی اصطلاح کے ترجمے سے‘ جب ہم اسے ایک نیا مفہوم دینے کی کوشش کرتے ہیں تو ایک لفظ کا حقیقی معنی دو مفاہیم میں الجھ کر رہ جا تا ہے۔ایک وہ مفہوم جو زبان میں پہلے سے موجود ہے۔دوسر ا وہ ہے جو کسی اجنبی اصطلاح کے لیے اختیار کیا گیا۔
اس طرح لفظ‘اصطلاح وضع کرنے والے سے غیر متعلق ہوکر‘ پڑھنے والے کے رحم و کرم پر ہوتاہے۔وہ جو چاہے‘اس کو مفہوم دے۔نیا یا پرانا۔ہر متن کو پڑھتے وقت لازم ہے کہ یہ مسئلہ پیدا ہو۔اب اس باب میں مختلف نقطہ ہائے نظر ہیں جن کے بیان کایہ موقع نہیں۔یہاں صرف اس بات کی نشا ندہی مطلوب ہے کہ خلطِ مبحث کیسے جنم لیتا ہے۔ میں اس بات کو ایک مثال سے مزید واضح کرتا ہوں۔
قرآن مجید کے ترجمے یا تفسیر میں اختلاف کیوں پیدا ہوتا ہے؟میں تین نقطہ ہائے نظر کا ذکر کرتا ہوں۔ایک نقطہ نظر وہ ہے جو روایتی ہے ‘جسے تفسیر ماثورکہتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی لفظ کا وہی مفہوم معتبر ہے جو ہمارے اسلاف یا اہلِ تفسیرنے سمجھا۔ہم قرآن مجید کے الفاظ کا وہی مفہوم لیں گے جو آثار سے ملا۔تفسیر ابن کثیر اس کی سب سے اہم مثال ہے۔اردو میں مفتی محمد شفیع صاحب کی ''معارف القرآن‘‘۔
دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ قرآن مجیدچونکہ ہمارے لیے بھی ہے اور ہمیں اس پر عمل کر نا ہے‘اس لیے ہم اسے اپنے علمی و لسانی پس منظر میں سمجھیں گے۔اس کے لیے ہم لغت اور اپنے عہد کے علم کو معیار بنائیں گے۔اس مکتبِ فکر کے بڑے مفسر سر سید احمد خان ہیں اور پھر ان کے تتبع میں غلام احمد صاحب پرویز۔تیسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ تفہیمِ کلام سے مراد‘ مخاطِب کا مدعا متعین کرنا ہے کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے؟اس کے لیے یہ دیکھا جائے گا کہ نزولِ قرآن کے وقت لفظ کے معروف معنی کیا تھے اور اس عہد میں زبان و بیان کے نمائندہ لوگ اس لفظ کو کن معانی میں استعمال کرتے تھے۔اس نقطہ نظر کی نمائندگی مکتبِ فراہی کر تا ہے۔
یہ تینوں مکاتبِ فکر لفظ کے مفہوم کے تعین میں دوسری باتوں کو نظر اندازنہیں کرتے۔ میں نے صرف امتیازی پہلو کا ذکر کیا جو ان کی تفاسیر میں جاری و ساری نظر آتا ہے اور جن کی بنا پر وہ الفاظ کے مختلف معانی میں سے کسی ایک معنی کوترجیح دیتے ہیں۔یہ فرق اس وقت بڑھ جاتا ہے جب لفظ کے مفہوم کا تمام تر انحصار مخاطِب کے بجائے مخاطَب پر ہو تا ہے۔یعنی کہنے والے کے بجائے سننے والے پر۔اب سننے والا ایک نہیں‘ کئی ہوتے ہیں۔ہر کوئی اپنے پس منظر میں بات کو سمجھتا ہے۔اگر اس سے بنیادی مقدمہ واضح ہوگیاہو تو میں بات کو آگے بڑھاتا ہوں۔
ہم اس وقت جس نظامِ علم کو قبول کیے ہوئے ہیں‘اس نے مغرب میں جنم لیا ہے۔انیسویں صدی میں اس نظام نے مختلف علوم (Disciplines) کی صورت میں ظہور کیا۔جب علم کسی خاص مضمون (subject) کی صورت اختیار کرتاہے تو اپنے بیان کے لیے اصطلاحیں بھی وضع کر تا ہے۔یہ اصطلاحیں ظاہر ہے کہ وہی لوگ تخلیق کرتے ہیں جو اس مضمون کی بنیاد رکھتے ہیں۔اس وقت سماجی علوم میں جو اصطلاحیں مستعمل ہیں‘ وہ سب کی سب مغربی نظامِ علم کی دین ہیں۔
یہ نظامِ علم اوریہ علوم جب مسلم معاشروں تک پہنچے تو مسلمان اہلِ علم نے یہ چاہا کہ اسلام کوبھی اسی علمی لبادے میں پیش کریں۔مثال کے طور پر اگر مغرب کا علمِ سیاسیات ہے تو ایک مسلم علمِ سیاست بھی ہونا چاہیے۔اگر عمرانیات کو وہاں ایک مضمون کا درجہ حاصل ہے تو ہمارے فہمِ اسلام سے جو عمرانی تصورات سامنے آتے ہیں‘وہ ان کوبھی بیان کریں۔اب علم کی دنیا میں جسے تقدم حاصل ہو‘امامت بھی اسی کے پاس ہوتی ہے۔اس لیے مسلمان اہلِ علم نے بھی انہی اصطلاحوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنا مدعا بیان کرنے کی کوشش کی جن کا خالق مغرب تھا۔
آئیڈیالوجی کی اصطلاح نے مغرب میں جنم لیا۔یہ اصطلاح انقلابِ فرانس کے تناظر میں سامنے آئی۔اسے تصورات (Ideas) اور اَمثال (Ideals) کا ایک مجموعہ قرار دیا گیا۔ ایک سیاسی یا سماجی فلسفہ جس کی ایک جہت علمی ہے اور دوسری عملی۔کہا جا تا ہے کہ اسے فرنچ فلاسفر ٹریسی نے پہلی بار برتا جو فرانسس بیکن سے متاثر تھا۔ بیکن کے ہاں سائنس کا وظیفہ صرف تخلیق ِعلم یا دریافت نہیں ہے بلکہ اس کا ایک کام معاشرے کو بہتربنانا بھی ہے۔ یہیں سے اس میں نظام کا مفہوم شامل ہو گیا۔
اس تفہیم کے زیرِ اثر جب مغرب کے سیاسی اداروں اورنظاموں کو بیان کیا گیا تو آئیڈیا لوجی کی اصطلاح وضع ہوئی۔مثال کے طور پراشتراکیت ایک آئیڈیالوجی تھی‘ جس کے تحت ایک سیاسی نظام کے خد وخال واضح کیے گئے۔اسی طرح سرمایہ داری بھی ایک آئیڈیا لوجی تھی۔مسلمان اہلِ علم نے جب اسلام کو ایک متبادل کے طور پر پیش کیاتو انہوں نے کہا کہ اسلام بھی ایک آئیڈیا لوجی ہے۔جب اس اصطلاح کو اردو میں ترجمہ کیا گیا تو اس کے لیے 'نظریہ‘ کا لفظ اختیار کیا گیا۔اب اسلام ایک آئیڈیالوجی کا مطلب ہے ‘اسلام ایک نظریہ ہے۔
'نظریہ‘ اردو میں پہلے سے مستعمل ایک لفظ ہے۔ جب اس کو ایک ایسی اصطلاح کے بیان کے لیے اپنا لیا گیا جو اپنا ایک خاص پس منظر اورمفہوم رکھتی تھی تو اس سے خلطِ مبحث پیدا ہوا۔یہ اسلام کو اشتراکیت ا ور سرمایہ داری کی سطح پر پیش کر نے ایک ناگزیر نتیجہ تھا۔یہ کام اُن اہلِ علم نے کیا جن کا ذہنی ڈھانچہ عصری علوم کے زیرِ اثر وجود میں آیا مگران کا خمیر مسلم تہذیب سے اٹھا تھا۔انہوں نے چاہا کہ اس تہذیب کو ایک نیا پیرہن دیا جائے۔انہوں نے اس بات کو نظر انداز کیا کہ اسلام کو جب ان اصطلاحوں کی زبان میں بیان کیا جا ئے گا جو ایک مختلف تہذیبی پس منظر رکھتی ہیں تو خلطِ مبحث کاپیدا ہونا ناگزیر ہے۔
آج مسلم سماج کے فکری انتشار کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے۔میں جب اسلام کو اس خلطِ مبحث سے جدا کر کے سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں تو اس نتیجے تک پہنچتا ہوں کہ اسلام کوئی آئیڈیالوجی نہیں ہے۔اسلام اللہ کی ہدایت ہے۔اس کو آئیڈیالوجی ثابت کرنا اس کی تصغیر وتخفیف ہے۔اسلام اس سے بہت ارفع ہے۔یہ آخرت کی مرکزیت پر مبنی‘ دائمی فلاح کا ایک پیغام ہے۔انسان جب اس پیغام کو جان کر اپنے اخلاقی وجودکی تطہیر کرتا ہے تواس سے جو کچھ صادر ہوتا ہے‘وہ علم ہو یا نظام‘وہ بھی انسانیت کے لیے ایک نعمت بن جا تا ہے۔یہ اسی وقت ممکن ہو تا ہے جب مصدر کی تطہیر پیشِ نظر ہو۔اس کے لیے یہ لازم نہیں کہ اسلام کو عصری علم کا پابند بنایا جا ئے۔