کیا صدارتی نظام کی بلی ایک بار پھر تھیلے سے باہر آگئی ہے؟
پہلے ایک دلچسپ واقعہ سنیے۔ جماعت اسلامی کی تاریخ کا سب سے بڑا تنظیمی حادثہ 1957ء میں پیش آیا جب مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا عبدالرحیم اشرف جیسی شخصیات جماعت سے الگ ہوگئیں۔ اس علیحدگی کے بعد مولانا مودودی اور مولانااصلاحی کے مابین خط و کتابت ہوئی۔ یہ دونوں شخصیات علم ِدین ہی نہیں‘ قدرت ِکلام کے اعتبار سے بھی بے مثل تھیں۔ مولانا مودودی کی ادبی حیثیت تو مسلمہ ہے۔ مولانا اصلاحی کو جنہوں نے پڑھاہے‘ جانتے ہیں کہ ان کی نثر بھی ادبِ عالیہ کا نمونہ ہے۔ ان کی تحریر کے سحر سے نکلنا آسان نہیں۔ تنقیدی ادب میں تو ان کا جواب نہیں۔ ان شخصیات کی اس خط و کتابت کا شمار بڑے ادبی معرکوں میں کیا جا سکتا ہے۔ دونوں نے اپنا نقطہ نظر جس شان سے پیش کیا‘وہ پڑھنے کے لائق ہے۔
اختلاف کا سبب یہ بنیادی سوال تھا کہ امیرِ جماعت کو شوریٰ کی رائے کا پابند ہو نا چاہیے یا نہیں؟مولانا مودودی کا خیال تھا کہ امیر مشورہ تو لے گا لیکن وہ شوریٰ کا پابند نہیں۔ مولانا اصلاحی کی رائے اس کے برخلاف تھی۔ ان خطوط میں مولانا مودودی اپنے اس نقطہ نظر کی تاریخ بیان کرتے ہوئے یہ لکھتے ہیں کہ ان کا موقف‘ کوئی ایسی بلی نہیں تھی جو وہ پہلی بار شیر کوٹ کے اجتماع میں اپنے تھیلے سے اچانک نکال لائے بلکہ یہ ان کا پرانا موقف ہے جو انہوں نے 1941ء میں جماعت کے پہلے اجتماع ہی میں بیان کر دیا تھا۔ اگر یہ کوئی بلی تھی تو ''اُسی وقت میں نے اسے تھیلے سے نکال کر سب کے سامنے رکھ دیا تھا۔‘‘
مولانااصلاحی نے اس کے جواب میں لکھا کہ آپ نے ناحق اپنی 'بلی‘ کی تاریخِ پیدا ئش بیان کی۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ بلی پہلے ہی دن سے آپ کے تھیلے میں موجود تھی۔ میں نے فلاں اجتماع میں اس کی گردن مروڑنے کوشش کی مگر یہ مر نہ سکی‘یہاں تک کہ تقسیم کے بعد جماعت کا جو دستور بنا‘اُس میں اس کی موت کا آخری فیصلہ ہوگیا۔ آپ نے پھرمسیحائی کاآخری ا فسوں پڑھا اور اسے زندہ کر دیا۔ اب آپ پھر مجھ دعوت دیتے ہیں کہ میں شوریٰ میں آؤں اوراسے مارنے کی کوشش کروں۔ ''اس کے معنی یہ ہیں کہ میں ساری زندگی اس 'گربہ کشی‘ ہی کی نذر کردوں‘آخر یہ کون سا شریفانہ پیشہ ہے‘‘۔
صدارتی نظام کا معاملہ بھی مولانا مودودی کی بلی جیسا ہے۔ یہ' بلی‘ بھی پہلے دن سے حقیقی نظام سازوں کے تھیلے میں موجود تھی‘جسے حسبِ توفیق لوگوں نے مارنے کی کوشش کی۔ نظام سازوں کے پاس مگر ایسا منتر تھا کہ جب پڑھتے‘یہ زندہ ہوجاتی۔ کبھی اسے قائد اعظم کے تھیلے سے برآمد کیا گیا کہ وہ صدارتی نظام چاہتے تھے۔ لوگوں نے اس کو رد کیا تو اسے کر اسلام کے نام پرپھر زندہ کر دیا گیا کہ صدارتی نظام اسلام کے نظامِ سیاست سے قریب ہے۔ جب اس کی غلطی واضح کی گئی تو سیاسی جماعتوں کی ناکامیوں کو پارلیمانی نظام کے سر ڈال کر‘یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ یہ نظام ناکام ہوچکا‘اس لیے اب متبادل چاہیے۔ اس پربھی کچھ لوگوں نے اپنے تئیں اس بلی کی گردن مروڑی مگر آج کل یہ پھر دندناتی پھر رہی ہے۔ لگتا ہے نظام سازوں کے پاس کوئی ایسا جادو ہے کہ جب چاہتے ہیں اس کے مولودِ سعید کی خوش خبری سنا دیتے ہیں۔
چندسال پہلے مجھے ایک صاحب نے بتایا کہ سیاسی نظاموں کے ایک ٹکسال سے ان کا گزر ہوا۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ اس 'بلی‘ کے خدوخال سنوارے جا رہے ہیں۔ میں نے حسبِ توفیق اس بلی کو اپنے کالم سے مارنے کی کوشش کی لیکن کیا میں اور کیامیرا کالم۔ اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑھا۔ کچھ رائے ساز اس کی رضاعت و پرورش بھی کر رہے تھے جیسے اب ہو رہا ہے۔ یوں یہ بلی آج بھی زندہ سلامت موجود ہے۔
پاکستان میں ایک عرصہ سے ایک منظم اور ہمہ جہتی کاوش جاری ہے‘ جس کا مقصود عوام کو یہ سمجھانا ہے کہ جمہوریت ناکام ہو چکی اور سیاسی جماعتیں دراصل مافیا ز ہیں جو ملک کی ترقی میں حائل ہیں اوران سے نجات ازبس ضروری ہے۔ 1973 ء کے آئین نے اگرچہ نظاموں کی اس بحث کا خاتمہ کر دیا تھا جب پوری قوم کے نمائندوں نے پارلیمانی نظام کے حق میں رائے دی تھی مگر جنرل ضیاء الحق صاحب نے اس 'بلی‘ کوپھر سے زندہ کر دیا۔ ضیاء الحق مرحوم سیاسی جماعتوں کو پاکستان کے لیے مضر سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ اسلام پسند ہونے کے باوجود‘وہ مذہبی جماعتوں کو بھی گوارا نہیں کر تے تھے۔ کراچی میں انہوں نے پیپلزپارٹی کے ساتھ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان کو ختم کرنے کے لیے جو کچھ کیا‘وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ انہوں نے اس کے لیے مذہب کو استعمال کیا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ اسلام میں سیاسی جماعتوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ ان کے وزیر مذہبی امور مولانا وصی مظہر ندوی نے ایک کتاب لکھی جس میں بتایا کہ اسلام کے نزدیک سیاسی جماعتوں کا قیام ناجائز ہے۔ جنرل صاحب نے غیر جماعتی انتخابات کے حربے سے بھی سیاسی جماعتوں کے وجود کو ختم کر نے سعیٔ نامسعود کی۔
ان کی شہادت ہوئی تو ملک کو متحد رکھنے کے لیے سیاسی جماعتوں‘بالخصوص پیپلزپارٹی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس دور کے نظام سازوں نے ضیاء الحق صاحب کے خیالات کو ایک طرف رکھا اور پیپلز پارٹی سے معاملہ کیا۔ جب مشرف صاحب کو موقع ملا توانہوں نے مارشل لا نافذ کر دیا۔ یوں سیاسی جماعتوں سے جان چھڑا لی؛ تاہم جلد ہی انہیں بھی اندازہ ہو کہ ان کے بغیر کام نہیں چلنے والا۔ تب انہوں نے بھی نون لیگ سے (ق) لیگ برآمدکی۔ ایم کیو ایم کو مضبوط کیا اور ایسی سیاسی جماعتوں کے تصور کو آگے بڑھا جو 'نظام فرینڈلی‘ ہوں۔ مشرف صاحب کا سیاسی انجام بھی ضیاء الحق صاحب کی طرح ہوا۔ بے نظیر کی شہادت سے ایک بار ثابت ہوا کہ حقیقی سیاسی جماعتوں کے بغیر ملک کو متحد نہیں رکھا جا سکتا۔ پھر نظام سازوں کو اپنی بے مائیگی کو اندازہ ہوا اور انہیں آصف زرداری صاحب کی منت کرنا پڑی کہ وہ صدرکا منصب قبول کرلیں۔ مشرف صاحب نہ صرف مطلق العنان نہ بن سکے بلکہ انہیں اپنے ہاتھوں سے اقتدار سیاسی جماعتوں کو سونپنا پڑا۔
ان پے در پے ناکام سیاسی تجربات کے بعد‘ہونا یہ چاہیے تھا کہ صدارتی نظام جیسی بلی ہمیشہ کے لیے مر جاتی اور اس بات کو تسلیم کر لیا جاتا کہ سیاسی جماعتوں کے بغیر کوئی سیاسی نظام نہیں چل سکتا۔ اس بات سے کسی احمق ہی کو انکار ہوگا کہ سیاسی جماعتوں کو اصلاح کی شدید ضرورت ہے لیکن یہ بات بھی ہوش و خرد سے بیگانگی کی دلیل ہے کہ سیاسی جماعتوں کے بغیر کوئی ایسا نظام چل سکتا ہے جسے عوامی تائید حاصل ہو۔ یہ دراصل جمہوریت سے جان چھڑانے کی کوشش ہے جس کا مقصدیک جماعتی نظام اور فسطائیت کے لیے راستہ نکالناہے۔
اچھا ہوا کہ تحریکِ انصاف سمیت تمام اہم سیاسی جماعتوں نے صدارتی نظام کو رد کر دیا ہے۔ اگر قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی قرارداد کی سب جماعتیں حمایت کر د یں تو امکان ہے کہ یہ بلی ہمیشہ کے لیے مر جائے۔ بصورتِ دیگر ہم کب تک اس بلی کو مارتے رہیں گے۔ بقول مولانا اصلاحی 'آخریہ کون سا شریفانہ پیشہ ہے۔‘