"KNC" (space) message & send to 7575

سماجی اخلاقیات اور مذہب

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کا سب سے اہم حصہ ہماری نظروں سے اوجھل رہا۔ہم حسبِ روایت فروعات میں الجھے رہے۔
یہ رپورٹ صرف ریاستوں کی نہیں‘ معاشروں کی تصویر ہے۔دنیا کے شفاف ترین ممالک میں کسی مسلمان ملک کا شمار نہیں۔پاکستان کا حال تو آپ پڑھ چکے کہ اس کا ایک سو چالیسواں نمبر ہے۔ڈنمارک‘فن لینڈ اور سویڈن کو شفاف ترین قرار دیا گیا ہے۔ کیا سبب ہے کہ اسلام کے ساتھ ہماری والہانہ وابستگی‘ اجتماعی اخلاقیات پر اثر انداز نہ ہو سکی؟یوں تو ہم غیرتِ ایمانی سے اتنے مملو ہیں کہ کسی گستاخِ مذہب کے وجودکو اس زمین پر گوارا نہیں کرتے مگر کیا سبب ہے کہ مذہب سے ہماری یہ عقیدت‘ ہمارے اجتماعی اخلاق کوپاکیزہ نہ بنا سکی؟ایک صاف ستھرے معاشرے کی تشکیل میں‘کیا یہ مذہب کی ناکامی کی دلیل ہے؟
آخری سوال پہلے۔تین شفاف ترین معاشرے غیر مسلم تو ہیں مگر غیر مذہبی نہیں۔ان کی اکثریت مسیحیت کو ماننے والوں کی ہے۔ڈنمارک کے آئین کے مطابق 'ایوانجیلیکل لوتھرن‘(Evangelical Lutheran) وہاں کا سرکاری مذہب ہے اور آبادی کا85 فیصدحصہ‘ مسیحیت کے اس فرقے سے وابستہ ہے۔ تین فیصدرومن کیتھولک اور پانچ فیصد مسلمان ہیں۔ 74.3 فیصد تو 'چرچ آف ڈنمارک‘ کے باقاعدہ رکن ہیں۔ فن لینڈ کے ستر فیصد شہری بھی اسی فرقے سے وابستہ ہیں اور67.8 فیصد آبادی 'چرچ آف فن لینڈ‘ کے رکن ہیں۔ 2018 ء کی مردم شماری کے مطابق‘نیوزی لینڈ کی 37فیصد آبادی خود کو مسیحی کہتی ہے۔48فیصد بے مذہب ہے۔
یہ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ مذہب فی الجملہ اجتماعی اخلاقیات کی تشکیل میں ناکام نہیں ہے۔مغرب میں کلیسا سیاسی و ریاستی معاملات سے تو الگ کر دیا گیا لیکن مسیحیت‘ انفرادی اور سماجی اخلاقیات سے الگ نہیں ہوئی۔آج بھی مذہب اخلاقی تعمیر میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔سیکولرازم کے علما اعتراف کرتے ہیں کہ سیکولر اخلاقیات کی تشکیل میں بھی لاطینی مسیحیت کاکردار بنیادی ہے۔
اخلاقیات اور مذہب کا رشتہ ازلی ہے۔ اکثریت اس مقدمے کو تسلیم کرتی ہے اور میں بھی ان میں شامل ہوں کہ انسانی تہذیب کو اخلاقیات کا تصور مذہب نے دیا۔ اخلاقیات اپنی اساس میں مابعد الطبیعیات کا تصور ہے اوریہ مذہب تھا جس نے انسان کوسب سے پہلے اس طرف متوجہ کیا ہے۔مذہب انسان کے اخلاقی وجود کی تطہیر کو اپنا اصل وظیفہ قرار دیتا ہے۔اُس کا کہنا ہے کہ اخلاقی شعور انسان کی فطرت میں رکھ دیا گیاہے اوروہ خیر و شر کے تصور سے بے نیازو بے خبر نہیں ہے۔یہ تصور عالم گیر ہے اور اپنی اساس میں موضوعی(relative) نہیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی رپورٹ یہ بتا رہی ہے کہ جن معاشروں نے شفاف ترین ہو نے کا اعزازحاصل کیا ہے‘انہیں اس کے لیے مذہب سے نجات کی ضرورت محسوس نہیں ہو ئی۔ بلکہ اس کے برخلاف یہ کہا جاسکتاہے کہ مذہب نے ان کی اخلاقی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کیا۔ پہلے دوشفاف ترین ممالک میں لوگوں کا مذہب سے باضابطہ تعلق ہے اور اس کا ثبوت چرچ سے وابستگی ہے۔سوال یہ ہے کہ مسلم معاشروں میں مذہب سے وابستگی یہ کردار کیوں ادا نہیں کر سکی؟
اس کا ذمہ دار مذہب نہیں‘اس کے علم بر دار اورمروجہ تعبیرات ہیں جنہوں نے مسلم معاشروں میں مذہب کا اساسی وظیفہ ہی تبدیل کر دیا۔ہمارے لیے مذہب‘ دنیاوی وجاہت ومفاد کا ایک ذریعہ ہے یا پھر سیاسی نظریہ۔جب مقتدر طبقے نے مذہب کو اقتدار کی حرکیات سے وابستہ کیا تویہ طاقت کے حصول کا ایک ذریعہ بنا۔جو مسلمان بادشاہ عالمی سطح پر خود کو عالمِ اسلام کا نمائندہ ثابت کرنا چاہتے تھے‘انہوں نے دنیا بھر میں اپنے ہم مسلک گروہوں کو وسائل فراہم کیے۔یوں مسلم معاشروں میں ایک بڑے مذہبی طبقے نے خود کو طاقت کے کھیل سے وابستہ کر لیا اورمذہب کواس کی خدمت میں لگا دیا۔دوسرے مسلک کی مذہبی پیشوایت نے یہی کام کیا جب انہیں اقتدار ملا۔
یہ کام مسلمان حکمران طبقے نے مقامی سطح پر بھی کیا۔جن کے اقتدار کی کوئی اخلاقی اساس موجود نہیں تھی اور جنہوں نے جبر سے حکومت پر قبضہ کیا‘انہوں نے اقتدار کے جواز اور استحکام کے لیے مذہب کو استعمال کیا اور اس کے لیے مذہبی طبقات کو اپنے اقتدار میں شریک کیا تاکہ جواباً وہ ان کے اقتدار کو دینی سند فراہم کریں۔یوں دینی طبقہ پاور پالیٹکس کا کھلاڑی بن کر ایک 'انٹرسٹ گروپ‘ میں ڈھل گیا۔
جنہوں نے مذہب کو ایک سیاسی نظریے کے طور پر متعارف کرایا‘ ان کے پیشِ نظر مسلمانوں کی عظمت ِ رفتہ کی بازیافت تھی۔ یہ فی نفسہٖ ایک نیک کام تھا جس کی تحسین ہونی چاہیے لیکن مذہب اس کام کے لیے نہیں تھا کہ وہ کسی گروہ کو اقتدار تک پہنچا دے یا اس سے محروم کر دے۔یہ کام جتنے اخلاص کے ساتھ بھی کیا گیاہو‘لازم تھا کہ اس کے اثرات مرتب ہوتے۔اس سے مذہب کا نصب العین ہی تبدیل ہو گیا۔اب مسلمانوں کی تمام توانائیاں اس کے لیے صرف ہونے لگیں کہ کسی طرح سے کھویا ہوا اقتدار انہیں مل جائے اور مذہب کو بھی انہوں نے اس خدمت میں لگا دیا۔بطورِ دلیل کہا گیا کہ دین کا مطلوب اسلام کا سیاسی غلبہ ہے۔
یہ تصور کہ اسلام انسان کو اخلاقی طور پرپاکیزہ بناناچاہتا ہے ا ور اس کے لیے انفرادی اوراجتماعی اخلاقیات کی تعمیر اس کا حقیقی ہدف ہے‘پس منظر میں چلا گیا۔یہاں تک کہ نظروںہی سے اوجھل ہو گیا۔اس کا ہمیں احساس نہیں ہو تا لیکن آئے دن ایسے مظاہر سامنے آتے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مذہب اور اخلاق کے راستے جدا ہو چکے۔دو دن پہلے مجھے ایک مذہبی دانشور کی وڈیو دیکھنے کا موقع ملا جس میں وہ ایک مرحوم مذہبی پیشوا کی تائید سے یہ خیال پیش کر رہے تھے کہ ہمیں غیر ملکی قرض پر سود کی ادائیگی سے انکار کر دینا چاہیے۔دلیل یہ ہے کہ سود اسلام میں حرام ہے۔ان کو اس بات کا کوئی احساس نہیں تھا کہ اسلام معاہدوں اور عہدکی پاسداری کے باب میں کیا حکم دیتا ہے؟
جب دین کو اس طرح پیش کیا جائے گاتو اخلاقیات کے ساتھ مذہب کا تعلق کمزور سے کمزور تر ہوتا جائے گا یہاں تک کہ اسے بطور نعرہ اپنانے کے لیے تحریک اٹھاد ی جائے گیا اوریہ خیال کیا جائے گا کہ مسلمانوں کی خدمت ہو رہی ہے۔گویا مسلمان انگریزوں اور فرانسیسیوں کی طرح ایک قوم ہیں جن کا اسلامی اخلاقیات کے ساتھ تعلق لازم نہیں۔
مسیحی معاشروں میں اگر مذہب‘سماجی اخلاقیات کی تعمیر میں کردار ادا کر رہا ہے تو اس کی بڑی وجہ کلیسا کا سیاست سے الگ ہو نا ہے۔اب چرچ کی ساری توجہ اخلاقیات پر ہے اوریوں اس میں وہ 'انٹرسٹ گروپ‘ وجود میں نہیں آتے جو مسلمانوں میں پیدا ہو گئے ہیں۔ یہودیت میں صیہونیت پیدا ہوئی تو یہودیوں کا اخلاقیات سے تعلق کمزور ہو گیا۔ امریکہ میں کچھ لوگ مسیحیت کو سیاست سے جوڑ نا چاہتے ہیں۔وہ بھی مذہب اور اخلاقیات میں دوری کا سبب بن رہے ہیں۔
مذہب اپنے اندر بے پناہ اخلاقی قوت رکھتا ہے۔اگر تزکیہ فرد اور سماج کا طمح نظر بن جائے تو سیاست سمیت ہر شعبے کی اصلاح ہوجائے گی۔ بصورتِ دیگر مذہب سے ہماری جذبات وابستگی میں تومسلسل اضافہ دکھائی دے گا مگر سماجی اخلاقیات کے معاملے میں ہم کمزور ہی رہیں گے اورہماراشمارشفاف معاشروں میں نہیں ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں