لتامنگیشکر اس طرح رخصت ہوئیں کہ برصغیر کی فضا پر سوگ کی ایک چادر تن گئی۔کیا دلّی اور کیا لاہور‘ دلوں کی افسردگی ہر طرف پھیلتی گئی۔جسے صوت وآہنگ کا کچھ ذوق ارزاں ہوا ہے‘اسے ایک شخصی نقصان کا احساس ہوا‘جیسے اس سے کچھ چھن گیاہو۔لتا بھارت کی شہری تھیں مگر ان کی موت سے معلوم ہوا کہ ان کے فن کی کوئی شہریت نہ تھی۔جیسے بارش اور بہار کی کوئی شہریت نہیں ہوتی۔جیسے بلبل اور کوئل کی آواز کو کوئی سرحد قید نہیں کر سکتی۔ان سب کا تعلق زمینی سرحد وں سے نہیں‘فطرت سے ہے اور فطرت کی نوازشیں سب کے لیے یکساں ہوتی ہیں۔
الفاظ کے استعمال میں لوگ بہت سخی ہوتے ہیں۔شاعروں کی بات الگ ہے کہ مبالغہ ا ور شعر کا ازل سے ساتھ ہے‘ نثر میں کلام کرنے والوں کی سخاوت بھی شاعروں سے کم نہیں۔جسے چاہتے ہیں نابغہ(legend) کہہ دیتے ہیں ورنہ واقعہ یہ ہے کہ یہ لتا جیسے قدرت کے کرشمے ہیں جن کے لیے اہلِ لغت کو لیجنڈ‘ عبقری اور نابغہ جیسے الفاظ تراشنا پڑے۔یہ کرشمے کبھی کبھی رونما ہوتے ہیں۔صدی میں ایک یاپھر دو بار۔
یہ صلاحیت صرف فنونِ لطیفہ میں ہے کہ انسان کو اس کے وجود سے بے نیاز کر دے۔کبھی لمحہ بھرکبھی تادیر۔وہ لذتِ آشنائی جو دو عالم سے بیگانہ کردے‘یہیں پائی جاتی ہے۔کوئی 'سہ آتشہ‘ کا مفہوم جاننا چاہے تو اچھی شاعری‘اچھی موسیقی اوراچھی آواز کے کسی مجموعے کو دیکھ لے۔یہ اجتماع ایسا سحر طاری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ انسان ہوش و خرد سے بے گانہ ہوجائے ۔ بر صغیر کی تاریخ میں ایسا دور شاید ہی لوٹ کر آئے جب ان تینوں فنون کے اعلیٰ ترین مظاہر کو قدرت نے ایک ساتھ جمع کر دیا ہو جیسے بیسویں صدی میں کیا گیا۔لتااس سحر انگیز تکون کا ناگزیرحصہ تھیں۔اللہ تعالیٰ نے انسان کے مقدر میں تو موت لکھی ہے مگر اس کے فن کو اس سے مستثنیٰ کر دیا ہے۔ لتا کا معاملہ بھی یہی ہے۔موت اس کے فن کو کبھی چھو نہیں پائے گی۔
ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ کسی فن کار کے فن نے برصغیر کے مکینوں کو پاک بھارت سرحد کی موجودگی سے بے نیاز کر دیا ہو۔ یہ صلاحیت فنون کے ساتھ علم‘افکاراورنظریات کو بھی حاصل ہے کہ وہ جغرافیائی سرحدوں کو بے معنی بنادیں۔میں خود کو برصغیر تک محدود رکھوں تو اس سے پہلے یہ کرشمہ علامہ اقبال‘مولانا مودودی‘ مولاناسید ابوالحسن علی ندوی‘ دلیپ کمارا ور محمدرفیع جیسی شخصیات اوران کا علم اورفن دکھاچکا۔
دو اڑھائی ماہ پہلے‘ نومبر میں علی گڑھ یونیوسٹی کی ایک سوسائٹی نے علامہ اقبال کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے آن لائن کانفرنس کا انعقاد کیا۔محترم جاوید احمد صاحب غامدی کو اس بار مہمان مقرر کے طور پر خطاب کی دعوت دی گئی۔ یہ ریکارڈنگ یو ٹیوب پر موجود ہے۔میں اس پروگرام کو دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ کیسے علامہ اقبال کی عظمت کے اعتراف کو وہ سرحد بھی نہیں روک سکی جو منسوب ہی اُن سے ہے۔یہ کسی جغرافیائی سرحد کے بس میں کہاں کہ علامہ اقبال کے علم و فضل اور شخصی وجاہت کوقید کر سکے۔
اسی سے یہ خیال پختہ ہوتا ہے کہ علم اور فنون‘ انسانوں کی سوچ اور احساسات پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان اقدار کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں جو انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہیں۔فنونِ لطیفہ انسان کے لطیف جذبات کی آبیاری کرتے ہیں۔وہ اسے زندگی کے حسن و جمال کی طرف متوجہ کرتے اور اس کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ موسیقی‘ خوشبو اورآواز کی طرح فطرت کے حسن میں اضافے کا ایک ذریعہ بن جائے۔ جو کام خوش پوش پودے‘خوش رنگ پھول اور خوش آوازپرندے سر انجام دے رہے ہیں‘اپنے حسنِ کردار اور حسنِ اخلاق سے وہ بھی یہی کام کرے۔وہ مسرت اور خوشبو بانٹنے والا ہو۔اس کی مہک انسانی بستیوں میں اس طرح پھیل جائے جیسے گلاب کی خوشبو کسی گلستاں کو معطر کر دیتی ہے۔اسے دیکھ کر اور اس سے مل کرجینے کو دل چاہے۔
لتا جیسے لوگ یہی کام کرتے ہیں۔قدرت انہیں کوئی نعمت عطیہ کرتی ہے اور وہ پھر وہ اس سے انسان کے لطیف جذبات کے فروغ کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔لتا نے اپنی آواز سے‘ نہیں معلوم کتنے انسانوں کو زندگی کی لطافت سے آشنا کیا۔ان میں محبت کے جذبات کو زندہ کیا جنہیں زندگی کی تلخیوں نے مار ڈالا تھا۔ان کی جذباتی آسودگی کا اہتمام کیا اورانہیں جرم کی دنیاسے دور رکھا۔
سیاسی تلخیاں اور مفادات کا تصادم‘ زندگی کے حقائق ہیں جن سے مفر محال ہے۔سیاست جذبات سے بے نیاز ہوتی ہے۔یہ سیاسی مفادات ہی ہوتے ہیں جو قوموں کو جنگوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ انسانی لہو کا دریا صدیوں سے بہہ رہاہے اوراس کے بہاؤ میں کمی نہیں آ رہی۔یہ اس بات کا اظہار ہے کہ مفادات انسانی جذبات اور اقدار پر غالب ہیں۔غلبے اور طاقت کی خواہش نے انسان کے لطیف جذبات کو مار ڈالا ہے۔اس ماحول میں اس بات کی شدت سے ضرورت رہی ہے کہ ان لطیف جذبات کو زندہ کیا جائے جو ظلم سے نفرت پیدا کریں اور انسانیت کی قدر وقیمت کو نمایاں کریں کہ یہی اس کی اصل فطرت ہے۔
عالم‘فنکارا ور ادب کے لوگ‘انفرادی اوراجتماعی صورت میں یہ کوشش کرتے رہے ہیں۔کچھ بالواسطہ اور کچھ براہ راست۔ لتا کی آواز بالواسطہ یہ خدمت سر انجام دیتی رہی ہے۔ارون دھتی رائے براہ راست یہی کام اپنے قلم سے کر رہی ہیں۔وہ سماج کے لطیف احساسات کو جگاتی ہیں جوبیدار ہوں تو اپنی ریاست کو اہلِ کشمیرپر ظلم کی اجازت نہ دیں۔(میرا دل چاہتا تھا کہ میں پاکستان سے بھی کوئی مثال پیش کروں لیکن کسی نام کی تلاش میںاس وقت میری یادداشت ساتھ نہیں دے رہی)۔
جغرافیائی سرحدیں اس کا اظہار نہیں ہوتیں کہ ان کے دونوں اطراف آباد قومیں ایک دوسرے کی دشمن ہیں۔ان سرحدوں کا جوازہو سکتاہے اور اسے عالمی سطح پر قبول کیا گیا ہے۔کبھی گزرا وقت خود ایک جواز بن جاتا ہے۔ شناخت بھی ایک جوازہے جسے تسلیم کیا گیا ہے۔یہ جوازاجتماعی مفاد بھی ہو سکتا ہے۔کہیں مفادات کا اختلاف تصادم میں بدل جانے کا ا مکان ہوتا ہے۔اس کو روکنے کے لیے بھی درمیان میں ایک دیوار کھڑی کر دی جاتی ہے۔برصغیر میں بھی ایسے ہی اسباب کے تحت سرحد قائم کی گی۔یہ سرحد امرِ واقعہ ہے۔ اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا؛ تاہم یہ ہم پر ہے کہ ہم قائد اعظم کی خواہش کے مطابق اسے امریکہ اور کینیڈا کی سرحد جیسی سر حد بنانا چاہتے ہیں یااسرائیل اور فلسطین کے مابین موجود خوف اور بے اعتباری کی دیوار جیسی۔
یہ سیدابو الحسن علی ندوی ہوں یالتا منگیشکر‘ان شخصیات کا علم اور فن ہمیں صلائے عام دے رہاہے کہ ہمیں کیسا ہونا چاہیے۔مولاناعلی میاں کا علم سرحد کے دونوں اطراف روشنی بکھیر رہا ہے اور لتا کا فن پورے برصغیر میں صوت وآہنگ کا ذوق رکھنے والوں کے لیے آسودگی کا سامان کر رہا ہے۔کاش وہ اپنی خواہش کے مطابق لاہور آ سکتیں۔ یقینا ان کی آمد‘اس خطے کے لیے امن کا پیغام ہوتی۔بھارت اس خطے کا بڑا ملک ہے اور سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ رکھتا ہے۔ بھارت کے عوام کے لیے بھی لتا ایک اہم سوال چھوڑ گئی ہیں۔اس ملک کے عوام کیا چاہیں گے‘عالمی سطح پر ان کا تعارف لتا منگیشکر کی محبت بانٹتی آواز ہو یا نریندر مودی کی نفرت پھیلاتی سیاست؟