"KNC" (space) message & send to 7575

نئی سیاست

سیاست تبدیل ہو رہی ہے۔ اب یہ اختلاف اور سیاسی مفاد نہیں، نفرت اور انتقام کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ اس کی صرف ایک منزل ہے: بربادی۔ خدا کرے کہ اس راستے پر بڑھتے قدم کسی طرح رک جائیں۔
سیاست دو چیزوں سے عبارت ہے: اختلاف اور مفاد۔ اختلاف کی بنیاد کچھ بھی ہو سکتی ہے: نقطہ نظر، نظریہ اور حکمتِ عملی۔ مفاد بھی قابلِ فہم ہے کہ سیاست ہمیشہ اقتدار کے لیے ہوتی ہے۔ اس سے مفادات کا ٹکراؤ ناگزیر ہو جاتا ہے۔ دنیا میں سیاست ہمیشہ اسی طرح ہوتی آئی ہے۔ قبائلی معاشرت میں اختلاف اور مفاد کے ساتھ نفرت اور انتقام بھی سیاست کا حصہ تھے۔ انا قبائلی شخصیت کے اجزائے ترکیبی میں سرِفہرست ہے۔ انا ہی نفرت اور انتقام کو جنم دیتی ہے۔
نظریے نے سیاست کورومانوی بنادیا۔ اس سے سیاست غلط اور صحیح میں تقسیم ہوگئی۔ درمیان کا راستہ باقی نہیں رہا۔ جو ایک نظریے کو مانتا ہے وہ سر تا پا خیر ہے اورنظریاتی وابستگی کے بعد، اسے سات خون معاف ہیں۔ جو اس نظریے کا مخالف ہے، وہ سراپا شر ہے جس کی کوئی نیکی قبول نہیں۔ اگر کوئی مارکس کی بتائی ہوئی سماجی تقسیم پر ایمان نہیں لاتا تو اس کی غریب پروری قابلِ قبول نہیں۔ اگر کوئی اسلامی انقلاب کے لیے جدوجہد نہیں کرتا تو اس کے نماز روزے کس کام کے؟ رومان اگر محبت پیدا کرتا ہے تو ساتھ ہی نفرت کو بھی جنم دیتا ہے۔ جان دینا اور لینا نظریاتی سیاست کا حصہ بن جاتا ہے جسے انقلاب کی ناگزیر ضرورت بتا کر، جواز فراہم کیا جاتا ہے۔ نظریے کا رومان سیاسی معرکہ آرائی میں کام آنے والے کو شہادت کا مرتبہ عطا کر دیتا ہے۔
جدیدیت کے زیرِاثر جب سیاسی اداروں کی تشکیل ہوئی تو ان کی اساس جمہوریت پر رکھی گئی۔ جمہوریت محض اس کا نام نہیں کہ اقتدار اکثریت کو سونپ دیا جائے۔ یہ دراصل اختلاف اور مفاد کے تصادم کو کچھ آداب میں ڈھالنے کا نام ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاست میں نفرت اور انتقام کا کردار کم ہو گیا۔ بیسویں صدی میں نظریاتی سیاست کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ اس کے بعد سیاست کو فنِ اقتدار (Art of Governance) کے طور پر دیکھا گیا۔
نفرت اور انتقام اگر انسانی شخصیت کی اساس بن جائیں تو اس کے لیے زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ وہ بظاہر کامیاب ہو یا ناکام، اضطراب اور خوف سے کبھی آزاد نہیں ہو سکتا۔ یہی معاملہ سماج کا بھی ہے۔ جو معاشرہ اس بنیاد پر گروہوں میں بٹ جائے وہاں صرف عدم استحکام اور فساد کی فصل اگ سکتی ہے۔ جدیدیت نے جب عقل کی بنیاد پر انسان کی فکری تشکیل کی تو اس نے سوچنا شروع کیا کہ کیا اس کے مفاد میں ہے اورکیا نہیں۔ اس نے سیاست میں نفرت اور انتقام کو مسترد کردیا اوریوں امن اور استحکام اس کا مقدر بن گئے۔
جن کے ہاں عقل کے بجائے روایت اور نظریات سیاست کی اساس بنے، وہاں سیاست نفرت اور انتقام کی اسیر ہوکر رہ گئی۔ وہاں ابھی تک عدم استحکام اور فساد کا راج ہے۔ یہ لبنان اور افغانستان ہوں یا افریقہ کے ممالک، مسلسل حالتِ اضطراب میں رہتے ہیں۔ یہاں قبائلی عصبیتیں غالب ہیں یا نظریاتی معرکہ آرائیاں۔ انسان کے وہ مفادات کہیں زیرِ بحث نہیں جنہوں نے ریاست کو جنم دیا تھا۔ یہاں عقل کا استعمال شجرِ ممنوعہ ہے۔
جمہوریت نے سیاست کی عقلی تشکیل کی۔ اس نے اختلاف اورمفاد کو ایک عقلی نظام کے تابع کر دیا۔ جمہوری معاشروں میں اختلاف ہوتا ہے مگر یہ دوسروں کے خلاف نفرت میں تبدیل نہیں ہوتا۔ مفادات کا تصادم ہوتا ہے مگر اس کا مقابلہ سیاسی چالوں سے ہوتا ہے۔ عقل نے انسان کو ایسے راستے دکھا دیے ہیں جس سے وہ عوام کے جان و مال کو کسی بڑے خطرے میں مبتلا کیے بغیر اپنا مفاد حاصل کرلیتا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی مہم اس طرح چلاتی ہیں کہ معاشرے کا مفاد اورارتقا متاثر نہیں ہوتے۔ یہ جمہوریت کا سماج کے کردار میں وہ مثبت کردار ہے جو اسے دیگر سیاسی نظریات سے ممتاز کرتا ہے۔
پاکستان میں سیاسی عمل بدقسمتی سے قبائلی معاشرت کی طرف لوٹ رہا ہے یا پھر نظریاتی دور کی طرف۔ نظریاتی ان معنوں میں نہیں کہ لوگ نظریاتی ہوگئے ہیں مگراس مفہوم میں کہ عوام کو واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم کردیا گیاہے جیسے نظریاتی تقسیم میں ہوتا ہے: حزب اللہ اور حزب الشیطان۔ عمران خان صاحب کا موقف ہے کہ وہ قائد حزبِ اختلاف کے ساتھ کیسے ہاتھ ملا سکتے ہیں جو ان کے خیال میں سراپا برائی ہیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ قومی سلامتی کے امور پر بھی قومی قیادت ایک ساتھ بیٹھنے کی روادار نہیں۔
یہ تقسیم خلافِ واقعہ ہے۔ تمام قومی سیاسی جماعتیں اس معاشرے کی نمائندہ ہیں۔ سب میں خیر اور شر کے عناصر یکساں طور پر پائے جاتے ہیں۔ یہ کہنا کہ ایک جماعت صالحین کی ہے اور دوسری غیرصالحین کی، عقلی طورپر قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ تاریخ بھی اسی کی تائید کرتی ہے۔ ترجیح دی جا سکتی ہے کہ فلاں نسبتاً بہتر ہے اوراس کے دلائل ہوسکتے ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ کہنا مبالغہ ہوگا، اس لیے غیرحقیقی۔ اس تقسیم پر اصرارکا مطلب ہے کہ ہم دوبارہ قبائلی معاشرت کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلسل اضطراب اب اس سماج کا مقدر بن چکا ہے۔
اسی تقسیم سے جڑا ہوا یہ تصور بھی ہے کہ اس قوم کو ایک مسیحا چاہیے۔ ایک فردِ واحد جو چھڑی گھمائے گا اور سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ جمہوریت نے اس خیال کو بھی رد کرتے ہوئے، اجتماعی دانش کا تصوردیا ہے۔ اس میں فرد کے مقابلے میں اجتماع کی رائے زیادہ صائب شمار ہوتی ہے۔ پاکستان میں لوگ اب بھی یہی خیال کرتے ہیں کہ نظام نہیں، افراد اہم ہیں۔ وہ تجربات کے بعد بھی نہیں سمجھ پائے کہ آج نظام نے شخصی اقتدارکا تصوربدل ڈالا ہے۔ اب کوئی مطلق العنان نہیں ہوسکتا۔ مسیحا کا تصوراب قصہ پارینہ ہے۔
آج معلوم یہ ہوتا ہے کہ ریاست، حکومت اورسیاسی جماعتیں، سب انسانی تہذیب کے اس ارتقا کے برخلاف ماضی کی طرف لوٹ جانا چاہتے ہیں۔ نئی سیاست کی تشکیل اسی طرح قبائلی معاشرت کی طرزپر کی جارہی ہے اورقوم میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہورہی۔ حقیر سیاسی فائدوں کی خاطر ملک کو مسلسل اضطراب میں رکھا جارہا ہے۔ حالات ایک بار پھر سیاسی بے یقینی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ آنے والے دن مزید عدم استحکام کی خبردے رہے ہیں۔
اس سیاسی عدم استحکام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عسکری گروہ پھر سے سر اٹھانے لگے ہیں۔ بلوچستان کا امن برباد کرنے والے متحرک ہیں۔ ہمار جوان شہید ہورہے ہیں۔ کسی کواس کا احساس نہیں کہ اس طرح کی سیاسی بے چینی کو عسکری قوت سے نہیں، سیاسی بصیرت سے دورکیا جا سکتا ہے۔ یہ قوم کو تقسیم کرنے کا نہیں جوڑنے کا وقت ہے۔ یہاں پارسائی کے ہر دعویدار سے وہی سوال کرنا چاہیے جو سیدنا مسیحؑ نے ہیجان میں مبتلا ہجوم سے کیا تھا کہ بدکار کو پہلا پتھر وہ مارے جس نے کبھی بدکاری نہ کی ہو۔
سوال یہ ہے کہ میری ان باتیں کا مخاطب کون ہے؟ ریاست؟ حکومت؟ سیاسی جماعتوں کی قیادت؟ ان میں سے کون ہے جو سننے پر آمادہ ہے؟ کوئی نہیں۔ یہ دراصل خود کلامی ہے یا اپنے بچوں کا مستقبل بچانے کی اپنی سی کوشش۔ میں سوچتا ہوں کہ جس قوم کووقت اور زمانہ، دونوں سمجھانے میں ناکام رہے ہوں، انہیں مجھ جیسا عامی کیا سمجھا سکتا ہے؟ اس لیے ہم سب کو انتظار کرنا چاہیے، یہاں تک کہ وقت ایک بار پھراپنا فیصلہ سنا دے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں