ہمارے مقدر میں اور کتنے اجتماعی قتل لکھے ہیں‘صرف عالم کے پروردگار کو خبر ہے جو دلوں کے بھید جانتاہے۔
سیالکوٹ کا واقعہ ہمارے لیے چشم کشا ثابت نہ ہو سکا۔علما سے لے کر ریاست تک‘بظاہر سب نے تشویش کا اظہار کیا۔گمان کیا گیا کہ اس واقعے سے سب کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔ سب نے جان لیاہے کہ یہ پاگل پن ہے جس کا مذہب سے کوئی واسطہ نہیں۔ایک مہمان کی جان تو گئی لیکن یہ اجتماعی توبہ کا دروازہ کھول گئی۔خانیوال کے واقعے نے مگر ہر گمان اور خیال کوجھٹلا دیا۔یہ خدا ہی جانتا ہے کہ 'خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد‘؟
یہ ذہن کیسے تشکیل پاتا ہے جو مذہب کو اخلاقی تطہیر کے ایک پیغام کے بجائے ‘گروہی عصبیت کی اساس سمجھتا ہے؟جو مذہبی معاملات میں بھی خدا کے سامنے جواب دہی کے احساس سے بے گانہ ہوجاتا ہے؟جو روز مرہ زندگی میں مذہبی تعلیمات سے لاپروا ہوتا ہے مگر کوئی مذہب کا نعرہ لگا دے تومذہب کی ہر حد پامال کرتے ہوئے اور عقل وخرد سے ہر ناتا توڑ کر‘مذہب کا علم اٹھا لیتا ہے؟جوحرام وحلال میں مذہب کے طے کردہ فرق کو روا نہیں رکھتا مگر مذہب کے نام پر دوسروں کی جان لینے کو جائز سمجھتا ہے؟ اور سب سے بڑھ کر‘وہ ذہن کون بنا تا ہے جسے کے لیے مذہب کا نام‘ ہر لطیف احساس کی موت بن جاتا ہے؟ وہ انسان کو بے دردی سے قتل کرتا ہے اور اس کے ہاتھوں میں جنبش ہوتی ہے نہ آنکھوں میں ندامت۔
صرف یہی نہیں‘ہر واقعے پر ہمارا اجتماعی ردِ عمل بہت منفرد ہوتا ہے۔کوئی مذہبی کتاب اس کی تائید کرتی ہے اور نہ کوئی عقلی پیمانہ۔ مسکان کے واقعے کو دیکھ لیجیے۔اس سے سب کچھ کشید کیا گیا مگر اسی بات کو نظر انداز کر دیا گیا جو پیش پا افتادہ تھی۔یہ افغانستان میں طالبان کی آمد ہو یامشرقِ وسطیٰ میں خانہ جنگی کا دھکتا الاؤ‘ہمارے نتائجِ فکر عقل کی کسوٹی پر پورا اترتے ہیں نہ مذہب کی تعلیمات پر۔کوئی ہے جو اس پر غو رکرے؟
یقینا ہوں گے مگر بہت کم۔میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہمارے اجتماعی اندازِ نظر میں کجی کیوں ہے؟ عقلِ عام کا تقاضا ہے کہ ایسے واقعات کو مذہب کے کسی مستند مآخذ سے سمجھنا چاہیے ‘اگر آپ مذہبی ذہن رکھتے ہیں۔یا پھر عقل کی مدد سے ‘اگر آپ منطقی انداز میں سوچتے ہیں۔جذبات ایک فیصلے یا مقدمے کی روح ہوتے ہیں مگر حکمتِ عملی کی دو ہی بنیادیں ہو سکتی ہیں: مذہبی یا عقلی۔اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ دونوں میں تصادم ہے۔یہ تو توام ہیں۔یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو محض عقل سے رہنمائی لیتے ہیں۔ان کے پاس اپنے کسی اقدام کی اخلاقی توجیہ اگر نہ ہو تو عقلی ضرور ہو تی ہے۔مجھے یہ لگتا ہے کہ ہمارے ردِ عمل کا کوئی عقلی جواز ہو تا ہے نہ اخلاقی۔
خانیوال میں ہجوم نے ایک انسان کو بے رحمی سے قتل کردیا جو ابتدائی خبر کے مطابق‘ فاتر العقل تھا۔اس سے حادثے کی سنگینی بڑھ جا تی ہے۔اسے صاحبِ عقل مان لیں تو بھی واقعے کی نوعیت تبدیل نہیں ہوتی۔اب یہ اقدام کسی اخلاقی و مذہبی پیمانے پر پورا اترتا ہے اورنہ عقلی معیار پر۔کسی مسلک کے عالمِ دین سے پوچھئے‘وہ اسے غلط کہے گا۔کسی غیر عالم سے جانیے ‘وہ اس کی مذمت کرے گا۔سوال یہ ہے کہ پھر اس طرزِ عمل کا محرک کیا ہے؟یہ ایک‘ آدھ واقعہ ہوتا توہم اسے چند افراد کا اقدام کہہ کر سماج کو بری الذمہ ٹھہرا سکتے تھے۔ پے درپے واقعات بتاتے ہیں کہ ہماری اجتماعی نفسیات ہی یہی ہے۔پھریہ کہ ان واقعات میں زیادہ تر نوجوان ملوث ہیں۔ایسا کیوں ہے؟
میرا خیال ہے کہ مسلمانوں کا بالعموم اور برصغیر کے مسلم سماج کا بالخصوص نفسیاتی تجزیہ ہونا چاہیے۔اس کے بغیر ان سوالات کے جواب نہیں مل سکتے۔یہ مسئلہ مذہبی نہیں‘ سماجی اور نفسیاتی ہے۔اس مزاج کی تشکیل میں مذہب کی تعبیرات کا لازماً ایک حصہ ہے مگریہ تعبیرات مقبول کیوں ہوئیں؟ مسلم نفسیات نے عام طور پر مصلحین(Reformers) کو قبول نہیں کیا۔ ریفارمرز اپنے معاشرے میں اجنبی رہے یا پھر ایک اقلیت ہی کو متاثر کر سکے‘ الا یہ کسی برسرِ اقتدار گروہ نے ان کے خیالات کو قبول کر لیا اور اسے اسے بالجبر سماج میں رائج کر دیا۔
اس کے ساتھ اب یہ تجزیہ بھی لازم ہو گیا ہے کہ دیگر مذاہب نے جو معاصر معاشرے تشکیل دیے‘وہ کیسے ہیں؟ وہ بھی ہم جیسے ہیں یا ہم سے مختلف؟ میرا محدود مطالعہ بتا تا ہے کہ تمام بڑے مذاہب بھی تشکیلِ نو کے عمل سے گزر رہے ہیں۔جیسے بدھ مت۔اس مذہب کی شناخت امن ہے مگر میانمار(برما) وغیرہ میں اس مذہب کے ماننے والوں نے مسلم اقلیت کے خلاف ظلم کی ایسی داستانیں رقم کی ہیں کہ معاصر دنیا میں اس کی مثال تلاش کرنا مشکل ہے۔اس مذہب میں ویراتھو جیسے رہنما نمودار ہوئے جسے 'ٹائم میگزین‘ نے یکم جولائی2013 ء کی اشاعت میں'بدھ دہشت کا چہرہ‘(The Face of Buddhist Terror) قرار دیا۔ اسی طرح بھارت میں'ہندو توا‘ کا نظریہ ہندو مت کا تعارف بن کر سامنے آیا۔ ہندو دھرم بھی دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لیے دہشت کی علامت بن چکا۔ مسیحیوں کے اندر بھی امریکہ میں ایسے ہی جذبات ابھر رہے ہیں حالانکہ مسیحیت کو امن کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یہودیت کے اندر صیہونیت کی تحریک تو معروف ہے۔ مذاہبِ عالم کے یہ سب چہرے دہشت اور خوف کی علامت بن چکے۔یہ مطالعہ بھی ضروری ہے کہ ان مذاہب میں یہ انتہا پسندانہ رجحانات کیسے شامل ہوئے اور مسلم سماج میں پیدا ہونے والی انتہا پسندی کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے؟
یورپ اور مغربی ممالک میں مذہب کا کردار مختلف ہے۔وہاں یہ خوف اور دہشت کی علامت نہیں ہے۔ اس کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مشرق ومغرب کے ان معاشروں میں یہ فرق کیوں ہے؟ایک جواب ‘عام طور پر یہ دیا جاتا ہے کہ اس کا سبب سیکولرازم ہے۔یہ جواب اہم ہے مگر سوال یہ ہے کہ سیکولرازم بھارت میں وہ نتائج کیوں نہ دکھا سکا جو یورپ یا امریکہ میںسامنے آئے؟
میری بنیادی دلچسپی تو اپنے سماج سے ہے۔خانیوال اور سیالکوٹ جیسے واقعات کاعالمی سیاست یا معاشرت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔نتائج کا تعلق ضرور ہے مگر اسباب کا نہیں۔یہ واقعات کسی تہذیبی تصادم کا نتیجہ ہیں ا ور نہ ہی یہ مفادات کا ٹکراؤ ہیں۔ ان کاکوئی تعلق کسی تاریخی واقعے سے بھی نہیں ہے‘ جیسے بھارت میں کہاجا تاہے کہ مسلمان مادرِوطن کی تقسیم کا باعث بنے ۔توکیا اس کے اسباب تمام تر مقامی ہیں؟
یہ سب سوالات غور و فکر کے متقاضی ہیں۔خانیوال کا واقعہ بتا رہا ہے کہ اب تک ریاست اور معاشرہ اس وحشت کے جو علاج دریافت کر پائے ہیں‘وہ اس مرض کی شدت کو کم نہیں کر سکا۔سوچنا پڑے گا کہ یہ علاج غیر مؤثر کیوں ہے؟علاج درست نہیں یا معالج کو مریض سے کوئی ہمدردی نہیں؟ان واقعات پردنیاکیا کہے گی‘یہ ایک ضمنی سوال ہے۔اصل سوال یہ ہے کہ یہ رویہ خود ہمارے لیے کس قدر تباہ کن ہے؟ایسا کیوں ہے کہ اس نوعیت کے واقعات پر ہمارا ردِ عمل مذہبی تعلیمات کے مطابق ہے نہ عقلی معیار پر پورا اترتا ہے؟ بطور سماج ہمیں ان سوالات پر غور کرنا ہے۔مسلم سماج کی نفسیاتی تحلیل ناگزیر ہے۔