"KNC" (space) message & send to 7575

جنگ اور اخلاقیات

عراق پر امریکی اور یوکرین پر روسی حملے میں ‘کیا کوئی جوہری فرق ہے؟اس سوال کا جواب دیتے وقت کیاپیشِ نظر ہونا چاہیے؟ سچ‘عصبیت یا قومی مفاد ؟
عراق پر امریکی حملے کا کوئی جواز نہیں تھا۔یہ بات امریکی میڈیا نے بتا دی کہ مہلک ہتھیاروں کا مقدمہ خود ساختہ تھا۔عراق پر حملے کے لیے بطور جواز ایک جھوٹ تراشا گیا۔مزید یہ کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی اس حملے کے لیے منظوری نہیں لی گئی۔ روس نے تو خیر جوازکے تکلف میں پڑنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔اس کا دل چاہا اور وہ ایک خود مختار ملک پر چڑھ دوڑا۔
امریکہ سے ہمیں نفرت ہے۔جوا ز کی بحث نہیں ‘صرف امرِ واقعہ کا بیان مقصود ہے۔ایسی ہی نفرت ہمیں کبھی سوویت یونین سے بھی تھی۔سوویت یونین کا جانشین روس ہے اور صدر پوتن کی قیادت میں ‘روس کے عزائم سوویت یونین سے ہم آہنگ ہیں۔یہ حالات ہیں جو ان عزائم کی راہ میں حائل ہیں۔یوکرین کے معاملے میں تو حالات کو بھی صدرپوتن خاطر میں نہیں لائے۔
سوویت یونین کا خاتمہ ہوا توہماری نفرت بھی ختم ہو گئی۔اب اس نفرت کا ہدف امریکہ ہے۔یہ نفرت روز افزوں ہے۔اسی کے زیرِ اثر روس کی جارحیت کے لیے ایک طبقہ جواز ڈھونڈ رہا ہے۔اسی طرح کا جوازافغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے لیے بھی تلاش کیاجا تا رہا۔سوال یہ ہے کہ یہ نفرت امریکہ کے خلاف ہو یا روس کے‘اس کی بنیاد کیا ہے؟سچ‘عصبیت یا قومی مفاد؟ایک مسلمان کا زاویہ نظر کیا ہو نا چاہیے؟
بیسویں صدی میں جب سلطنتوں کا دور تمام ہوا اور دنیا نے قومی ریاستوں کی صورت میں نئی سیاسی تنظیم کو اختیار کیا تو قومیت اجتماعیت کی اساس بنی۔ رنگ ونسل اور جغرافیہ کو قوم کی بنیاد مانا گیا۔اس تصور نے نئی سیاسی اخلاقیات کو جنم دیا۔'قومی مفاد‘ کو ایک اخلاقی قدر مانا گیا۔ اخلاقیات کے قدیم معیارات کو اس تصور نے متروک ٹھہرایا۔ وطن سے محبت کا تصوراگرچہ پہلے سے ہی موجود تھا اور وطن کے لیے قربانی دینے کو ایک بڑی قدر مانا جاتا تھا۔یہ تصورمگر اب نئی تشکیل سے گزرا اور اس میں وطن کی جگہ ریاست کو دی گئی۔وطن اور ریاست دو الگ تصورات ہیں۔وطن سے محبت فطری ہے اور ریاست سے اختیاری۔
مذہب اخلاقیات کا جوتصور دیتا ہے‘وہ انسان ساختہ پیمانوں کو قبول نہیں کر تا۔اس کی بنیاداس کی فطرت میں ہے جوخالق نے بنائی ہے اور اس میں خیر وشر کا شعور رکھ دیا گیا۔اسی کو بیدار کرنے کے لیے انبیاء کرام کو بھیجا جاتا رہا ہے۔الٰہی ہدایت مکمل ہوئی تو نبوت کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا۔بیسویں صدی میں جب قوم سے وابستگی کو خیر وشر کا پیمانہ بنایا گیا توان اہلِ علم نے ‘جو الہامی ہدایت سے تصورِ اخلاقیات اخذ کرتے تھے‘اس تصور کو چیلنج کیا۔علامہ اقبال کا مشہور شعر ہے:
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے‘ وہ مذہب کا کفن ہے
خدا کی عبادت کی جا تی ہے۔اس کی اطاعت کی جاتی ہے اوراس کو حق و باطل کا معیار مانا جاتا ہے۔قومیت کے تحت ‘جب یورپ وغیرہ میںیہ تمام اوصاف وطن سے وابستہ ہوگئے تو اقبال نے متنبہ کیا کہ وطن کو یہ حیثیت دینا گویا اس کو خدا بنانا ہے۔اخلاقی معیارات کا تعین الہامی ہدایت سے ہوگا نہ کہ قومی مفاد سے۔میں اس کا مفہوم یہ سمجھا ہوں کہ کہیں قومی مفاد ا ور الہامی ہدایت میں تصادم ہو تو ایک مسلمان کو بہر حال اسی حکم کو ترجیح دینی ہے جو الہامی ہدایت سے ماخوذ ہے۔
مذہب اس باب میں اتنا حساس ہے کہ وہ دشمنی میں بھی اس اصول کی پامالی کو گوار انہیں کرتا۔قرآن مجید نے بتایا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں وہاں تک نہ لے جائے کہ تم انصاف کے راستے کو چھوڑ دو۔انصاف قومی مفاد پر مقدم ہے۔اس پہلو سے دیکھیے تو نفرت مذہب کی نظر میں غلط و صحیح قرار دینے کا نہ صرف یہ کہ پیمانہ نہیں ہو سکتی بلکہ ایک مذموم عمل ہے۔ ہمیں جو رائے قائم کر نی ہے ‘اس میں سچ ہی کو بنیاد بنانا چاہیے۔
تاہم ‘یہ ایک مشکل کام ہے۔قومی مفاد اور سچ کے مابین انتخاب کرنا آسان نہیں ہو تا۔ایک حکومت جب کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اس کے سامنے کروڑوں شہریوں کا مفاد ہو تا ہے۔ان کے جان و مال کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔دنیا کا یہ نظام مفاد کے اصول پر کھڑا ہے‘حق اور سچ کی بنیاد پرنہیں۔جب دونوں میں انتخاب کرنا پڑے توفیصلہ کرنا مشکل ہو جا تا ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کو‘ جن کو سیاست ومعیشت میں بڑی قوتوں پر انحصارکرنا پڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر کیا کیا جائے؟ ترجیح کس کو حاصل ہو گی۔ سچ کو یا قومی مفاد کو؟
میرا خیال ہے کہ ایک فیصلہ فرد کو کرنا ہو تا ہے اور ایک اجتماع کو۔اجتماعی معاملات میں فرد ایک موقف رکھ سکتا ہے مگر وہ اجتماعی فیصلوں کا پابند ہو تا ہے اوراسے 'الجماعت‘ کے ساتھ ہی کھڑا ہو ناچاہیے۔تاہم اہلِ دانش کا معاملہ مختلف ہے۔ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ فرد اور معاشرے کو سچ کی بنیاد پر کھڑا رہنے کی تلقین کریں۔انہیں ہر صورت میں سچ کی بات کرنی چاہیے اور اس بات کی شعوری کوشش کرنی چاہیے کہ شہری اور ریاست‘دونوں کوئی موقف اختیار کرتے وقت سچ کو پیشِ نظر رکھیں۔
ریاست اور حکومت کا فرض ہے کہ اپنے فیصلوں اور اقدامات میں بین الاقوامی معاہدوں اور اخلاقی اقدار کی پاسداری کریں۔دنیا میں حسبِ توفیق خیر کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔تمام فیصلے اجتماعی طور پر کئے جائیں ۔ موجودہ سیاسی نظم کو سامنے رکھیں توایسے تمام فیصلے پارلیمنٹ میں ہونے چاہئیں۔ عام آدمی کا کام یہی ہے کہ وہ ان فیصلوں کو قبول کرے کہ اجتماعی نظم اسی سے باقی رہ سکتا ہے۔
یوکرین پرروسی حملہ عراق پر امریکی حملے سے کسی طرح مختلف نہیں۔یہ ایک آزاد ملک کی خود مختاری پر حملہ ہے ا ور بین الاقوامی اصولوں اور معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔ بد قسمتی سے خود عالمی قوتوں نے ان معاہدوں کو پامال کیا۔امریکہ روس کو کسی اخلاقی قدر یا معاہدے کا حوالہ نہیں دے سکتا کہ وہ خود ان کی خلاف ورزی کا مرتکب رہا ہے۔اس رویے کے خلاف عالمی سطح پر انسانی ضمیر کو بیدارہونا ہوگا۔
آج دنیا کو سارتر‘نوم چومسکی اور ارون دھتی رائے جیسے دانشوروں کی ضرورت ہے جو قومی مفاد اور سچ کے درمیان تمیز کرتے اور اپنی دانست میں سچ کا ساتھ دیتے ہیں۔ کاش مسلمان معاشروں میں بھی ایسے کرداروں کی نشا ندہی کی جا سکے جو علامہ اقبال کی طرح یہ درس دیں کہ سیاسی اخلاقیات کو کیسے الہامی ہدایت کے تابع ہو نا چاہیے۔اگر ہر معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہوں تو وہ اپنی اپنی حکومتوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں کہ و ہ ظلم پر مبنی فیصلے نہ کریں۔
یہ صرف جمہوری معاشروں میں ممکن ہے۔ہمیں معلوم ہے کہ عراق پر امریکی حملے کے خلاف امریکہ اور یورپ میں لاکھوں افراد سڑکوں پر نکلے۔روس میں لیکن یہ ممکن نہیں۔یوکرین پر روسی حملے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں اقتدار اور قوت کا مزاج تبدیل نہیں ہوا۔انسان کااجتماعی ضمیر ہی آخری امید ہے‘اگر بیدار ہو جائے۔اہلِ دانش کی ایک عالمگیر تحریک جو اپنی اپنی ریاستوں کوانصاف کی تلقین کریں اور ظلم سے روکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں