علمِ دین اور تصوف و اخلاق کی شہرت رکھنے والے بھی، اگر الزام تراشی میں سہل پسند ہو جائیں تو سماج کا اخلاقی حصار کیسے قائم رہے گا؟
مسلم روایت نے دو اداروں کو جنم دیا: مدرسہ اور خانقاہ۔ ایک کا مقصد معاشرے کو علم کے باب میں توانا بنانا تھا اور دوسرے کا اخلاق میں۔ یہ علم و اخلاق ہیں جو فرد اور اجتماع کو بناتے اور بگاڑتے ہیں۔ ان میں فساد در آئے تو انسان اور معاشرے برباد ہو جاتے ہیں۔ یہی ادارے ہیں جو غزالی و ابن رشد اور جنید و بایزید پیدا کرتے ہیں۔ اگریہ دو ادارے، اللہ کے آخری رسولﷺ کی لائی ہوئی ہدایت اورسیرت کے حصار میں قائم رہیں تو مسلم سماج کبھی زوال آشنا نہ ہو۔
عالم کا جو کردار قرآن مجید نے بیان کیا، وہ انذار ہے۔ وہ معاشرے میں کھڑا ہوتا اور ابن آدم کو یاددہانی کراتا ہے کہ اس کا مقصدِ حیات کیاہے اور اسے ایک دن خدا کی عدالت میں جوابدہ ہونا ہے۔ یہ آسان راستہ نہیں۔ اس میں افکارو نظریات اور تشکیک و ترغیب کے کانٹے بکھرے ہوئے ہیں۔ عالم ان کو چنتا اور صراطِ مستقیم کو صاف کرتا چلا جاتا ہے۔ وہ اس راستے پر چلنا سہل بنا دیتا ہے اگر کوئی اس منزل کا سچا مسافر ہو۔ ہماری روایت میں مدرسہ اس طبقۂ علما کی نمائندگی کرتا ہے۔ مدرسے کوآپ عصری تصور کے تحت نہ دیکھیے۔ تاریخی اعتبار سے یہ علم کی ہر جہت کو محیط ہے۔
خانقاہ، اخلاق کو درپیش امراض کا شفاخانہ ہے۔ یہ انسان کی فطرت میں روشن، خیر کے چراغ کو روغن فراہم کرتا اور وہ رذائل کی ان ہواؤں سے محفوظ رکھتا ہے جو اسے بجھانے کے درپے ہوتی ہیں۔ خانقاہ میں بیٹھا ایک آدمی لطیف انسانی جذبات کو زندہ رکھتا ہے جو محبت، ایثاراور رحم کی صورت میں ظہور کرتے اور انسانوں کو دیگر مخلوقات سے ممتاز بنا دیتے ہیں۔
سہل انگاری نے جب ان اداروں کو اپنی گرفت میں لیا توعلم اوراخلاق کے محافظ اپنی میراث سے دور ہوتے گئے‘ یہاں تک کہ ان کی ہیئت ہی تبدیل ہوگئی۔ تبھی علامہ اقبال کو یہ کہنا پڑاکہ وجودی تصوف اسلام کی سرزمین پر اُگنے والا ایک اجنبی پودا ہے۔ علم کا معاملہ یہ ہواکہ خود اپنی روایت سے باخبر ہونے کیلئے ہمیں دوسروں پر انحصار کرنا پڑا۔ منصور حلاج کو جاننے کیلئے فرانس کے محقق لوئی ماسینوں اور دیوبند کو جاننے کیلئے امریکہ کی باربرا مٹکاف کی خوشہ چینی کرنا پڑی۔ ہم خود توفضائل ہی مرتب کرپائے۔
سب سے زیادہ زد تو اخلاق پر پڑی۔ اقبال کے مطابق خانقاہ پر مجاور کا قبضہ ہوگیا۔ تربیت اور تعمیرِاخلاق کے تصورات اجنبی ہوگئے۔ وظائف و تسبیحات کو زادِ راہ کے بجائے منزل سمجھ لیا گیا۔ جدید دور نے خانقاہ کی تشکیلِ نوکی توصوفی کا حلیہ ہی نہیں، اس کی خانقاہ بھی جدید فیشن کا نمونہ بن گئی۔ اس میں کوئی حرج نہیں تھااگر اس کی روح باقی رہتی۔ مدرسہ و خانقاہ، قدیم ہوں یاجدید، ان کا حاصل ایک ہی رہا:
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک
نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ
مدرسہ وخانقاہ کی اگر الگ الگ تنظیم ہوئی تواس کا مطلب یہ نہیں تھاکہ دونوں ایک دوسرے سے بیگانہ تھے۔ علم اخلاق سے اور اخلاق علم سے جدا نہ تھے۔ عالم اخلاق کا پیکر تھا۔ صوفی دین کے علم کو جانتا تھا۔ قرآن مجید نے بتایاکہ یہ دراصل علما ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں۔ گویا جوعالم اس سے بے نیاز ہے، اس کا تعلق اس روایت سے نہیں جو اسلام نے پیدا کی۔ اسی طرح تزکیہ علم کے بغیر تزکیہ نفس ممکن نہیں۔ اس لیے جو اس روایت سے وابستہ تھے وہ قرآن و سنت کے علم سے متصف تھے؛ تاہم انسانی علم کبھی غلطی سے محفوظ نہیں رہا۔ ہماری روایت بھی اس سے کل محفوظ تھی نہ آج ہے۔
عالم و صوفی جب سہل پسند ہوئے توروایت سے کٹتے چلے گئے۔ علم خوفِ خدا سے اورتصوف تزکیے سے بے نیاز ہوتا گیا، الا ما شا اللہ۔ علم کی سہل پسندی یہ ہے کہ تحقیق کا حق ادا کیے بغیر فتویٰ جاری کردیا جائے۔ اخلاق کے باب میں سہل پسندی یہ ہے کہ دوسروں کے بارے میں بدگمانی کی جائے۔ سنی سنائی باتوں کوپھیلایا جائے اوراس تنبیہ کو نظرانداز کردیا جائے جو اللہ کے آخری رسولﷺ فرما چکے۔
مجھے پہلی بار اس رویے کو جاننے کا موقع اُس وقت ملا جب مذہبی طبقے کی طرف سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی پر ہونے والی تنقید پڑھی۔ یہ خوش بختی تھی کہ اس تنقید کو پڑھنے سے پہلے، میں مولانا کی کتب کا مطالعہ کرچکا تھا۔ تنقید سے اندازہ ہواکہ مولانا مودودی پر جو الزامات لگائے جارہے ہیں، ان کی تحریروں یا زندگی میں اس کی کوئی شہادت موجود نہیں۔ جیسے صحابہ کا گستاخ یا امریکی ایجنٹ۔ بعض علما کی طرف سے کہا گیاکہ انہیں امریکہ سے پیسے ملتے ہیں۔ میں علما سے محبت رکھنے والا ایک آدمی ہوں اور میرے لیے یہ بات کسی صدمے سے کم نہیں تھی۔
چندروز پہلے میں پھر ایک ایسے ہی صدمے سے دوچار ہوا جب میں نے ایک صوفی کی زبان سے ایک معاصر صاحبِ علم کے بارے میں ایسی ہی گفتگو سنی۔ اسے سن کر میں پورے وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ تنقید بغیر پڑھے اور سمجھے کی گئی۔ پھرذاتی حملے جو سراسر بدگمانی پر مبنی تھے۔ آدمی حیرت سے سوچتا ہے کہ صوفیانہ روایت جو کھڑی ہی خوش گمانی کی اساس پر ہے، اس روایت کا کوئی آدمی ایسی غیرذمہ دارانہ گفتگو کرسکتا ہے؟ مولانا اشرف علی تھانوی کے سامنے کسی کا ایک جملہ نقل کیا گیا، جس پر صراحت سے کفرکا اطلاق ہوتاتھا۔ سچ یہ ہے کہ وہ جملہ اتنا واضح ہے کہ میں اس کی کوئی توجیہ نہیں کرسکتا۔ مولانا تھانوی نے مگر اس کی چھ توجیہات پیش کیں اوراسے دائرہ اسلام سے نکلنے نہیں دیا۔
علمی تنقید ایک دوسری چیز ہے۔ اس کے اپنے معیارات ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا وحیدالدین خان نے مولانا مودودی پرتنقید کی ہے۔ یہ تنقیدان کے افکار پر ہے، جس سے اتفاق اور عدم اتفاق دونوں ممکن ہیں لیکن دونوں نے ذاتی حملے کیے اورنہ ہی ان پر یہ الزام لگ سکتا ہے کہ انہوں نے بغیر پڑھے اورجانے تنقید کی۔ میں تو اس تنقید کی بات کر رہا ہوں جوسادہ لفظوں میں بے علمی اور الزام تراشی کے ذیل میں آتی ہے۔
ایک صاحبِ علم اپنی کتاب کاآغاز ان جملوں سے کرتا ہے: ''دین کا تنہا ماخذ اس زمین پر اب محمدﷺ کی ذات والا صفات ہے۔ یہ صرف انہی کی ہستی ہے کہ جس سے قیامت تک بنی آدم کو ان کے پروردگار کی ہدایت میسرآ سکتی اور یہ صرف انہی کا مقام ہے کہ اپنے قوم و فعل اور تقریرو تصویف سے، وہ جس چیز کو دین قرار دیں، وہی اب رہتی دنیا تک دینِ حق قرار پائے‘‘۔ یہی نہیں، وہ اپنی اسی کتاب میں کم و بیش بارہ سو احادیث سے استدلال کرتا ہے۔ اگر کوئی ایسے آدمی کو منکرِ حدیث کہے تو آپ کیا کہیں گے؟ اس پر یہ الزام صرف وہی دھر سکتا ہے جس نے اس کتاب کا پہلا صفحہ تک نہیں پڑھا۔
میں حیرت اور صدمے کے ساتھ سوچتا ہوں کہ علم اور تزکیے کی دنیا میں سانس لینے والا کوئی آدمی یہ سب کیسے کرسکتا ہے؟
اگر اس دنیا کے لوگ بھی اتنے سہل پسند ہو جائیں تو سماج کا اخلاقی حصار کیسے قائم رہ سکتا ہے؟