غالب کو شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا اور 'عورت مارچ‘ کو نعروں کے انتخاب نے۔ نعرے اصل پیغام تک رسائی میں حجاب بن گئے۔ یہ حجاب اگر اٹھ جاتا تو شاید وہ تکدر پیدا نہ ہوتا جس نے 'عورت مارچ‘ کو اتنا متنازع بنا دیا۔
نعرے اہم ہوتے ہیں جوتاریخ میں کسی تحریک کاعنوان بن جاتے ہیں۔ عوامی تحریکوں میں یہ احتمال موجود ہوتا ہے کہ شرکا اپنے طور پر اس کے مقاصد کی تعبیر کریں۔ کبھی کوئی تعبیر قبولیتِ عام حاصل کرتی اور پوری تحریک کا تعارف بن جا تی ہے۔ کچھ ایسا ہی عورت مارچ کے ساتھ ہوا۔ 'میرا جسم، میری مرضی‘ کا نعرہ اس کا تعارف بن گیا‘ جس سے یہ اخذ کیا گیا کہ یہ لبرل ازم کے فروغ کی کوئی تحریک ہے۔ اس کا منشور پسِ منظر میں چلا گیا۔
یہ وضاحت بھی نہ آئی کہ عورت مارچ کے باب میں کس کا فرمایا مستند ہوگا۔ یہ کالم لکھنے سے پہلے، میں نے حسبِ توفیق یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس بار عورت مارچ کا نعرہ کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ کراچی وا لوں نے عورت کیلئے 'اجرت، تحفظ اور سکون‘ کا نعرہ اپنایا ہے۔ لاہور سے ایک منشور جاری ہوا اور معاشرے کیلئے انصاف کا نیا تصور متعارف کرایا گیا ہے۔ لاہور کا نعرہ ہے: 'میرے اندر کی ہر عورت انصاف کی منتظر ہے‘۔ اگر عورت مارچ کے منتظمین ہر سال ملک بھر کے لیے ایک متفقہ نعرہ اپناتے جو ان کا تعارف بنتا تو ان کے بارے میں موجود ابہام کم ہو جاتا اور وہ سوالات نہ پیدا ہوتے جو دراصل اس ابہام کی پیداوار ہیں۔
اس سے قطع نظر، اگر کراچی کے نعرے کو دیکھا جائے یا اس منشور کا مطالعہ کیا جائے جو لاہور سے جاری ہوا تو اس میں فی الجملہ، کوئی بات ایسی نہیں جو مذہبی یا تہذیبی حوالے سے باعثِ اعتراض ہو۔ یہ دستاویز صرف عورت کے حقوق کی بات نہیں کر رہی‘ یہ سماجی تبدیلی کا ایک ہمہ گیر پروگرام ہے جس میں ریاست اور معاشرے، دونوں کو مخاطب بنایا گیا ہے۔ منشور میں سرمایہ دارانہ نظام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جو عورت کے استحصال میں شامل ہے۔
اس بات پر بہت زور دیا گیا ہے کہ سخت سزاؤں پر اصرار سے جرم کا خاتمہ نہیں ہو سکتا‘ اس کیلئے دیگر سیاسی، معاشی اور سماجی عوامل کو پیشِ نظر رکھنا ناگزیر ہیں۔ منشور میں سزائے موت پر بھی تحفظات کا اظہارکیا گیا ہے۔ اس کے مرتبین کی رائے یہ ہے کہ پاکستان میں آج تک جن لوگوں کو یہ سزا دی گئی، ان میں اکثریت نابالغ، ذہنی معذور، غریب افراد کی تھی‘ اور یہ کہ پاکستان میں سزائے موت کے مستحق قرار پانے والے قیدیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
منشور میں ایک اہم بات یہ بھی کہی گئی ہے کہ تشدد کے مرتکب افراد کو 'درندہ‘ اور 'حیوان‘ قرار دے کر ہم، چند افراد کو اپنے غم وغصے کا ہدف بناتے ہیں۔ ان سے وہ سماجی، سیاسی اور معاشی عوامل نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں جو اس تشدد کا اصل باعث ہوتے ہیں۔ یوں ہم فرد کو سزا ملنے پر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ جرم ختم ہو گیا۔ درحقیقت ایسا نہیں ہوتا۔ یہ منشور ماحولیات اور مذہب کی جبری تبدیلی کو بھی موضوع بناتا ہے اور بطور خاص خواتین پر اس کے اثرات کا جائزہ لیتا ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایک پدرسرانہ نظام نافذ ہے جس کے اثرات قانون اور سماجی رویوں پر مرتب ہو رہے ہیں۔
کراچی کے حلقے نے ان خواتین کے حقوق کی بطورِ خاص بات کی ہے جن کا تعلق نرسنگ، گھریلو کام کاج اور سینیٹری کے شعبے سے ہے۔ انہیں نہ صرف سماجی سطح پر عزت نہیں دی جاتی بلکہ انہیں ان کے کام کا پورا معاوضہ بھی نہیں ملتا۔ کراچی مارچ کی منتظمین میں اقلیتوں کی خواتین بھی شامل ہیں۔ اس پہلو کو نمایاں کرنے سے عورت مارچ پر یہ اعتراض بڑی حد تک ختم ہو جاتا ہے کہ اس میں عورتوں کے حقیقی مسائل کو موضوع نہیں بنایا جاتا اور یہ چند آزادی پسند خواتین کا فیشن شو ہوتا ہے۔
'انصاف کا نیا تصور‘ کے عنوان سے عورت مارچ کے منتظمین کی طرف سے جو منشور سامنے آیا ہے، وہ ایک اہم دستاویز ہے۔ ممکن ہے اس کی ہر شق سے آپ کو اتفاق نہ ہو۔ مجھے بھی نہیں ہے۔ مثال کے طور پراس منشور میں 'کیئر کی معیشت‘ کا تصوردیا گیاہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ خواتین گھروں میں بچوں کی پرورش اوربزرگوں کی نگہداشت سمیت بہت سے امور سرانجام دیتی ہیں جن کا کوئی معاوضہ طے نہیں‘ نہ ہی اس کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ ریاست سے ان امور کو معاشی عمل کا حصہ بناتے ہوئے ان کا معاوضہ طے کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یہ ایک بہت خطرناک مطالبہ ہے جو مذہبی اور تہذیبی ہی نہیں، انسانی اقدار سے بھی متصادم ہے۔ سادہ لفظوں میں اس کا مطلب ہے کہ ماں کی ممتا، باپ کی شفقت، بیوی کی محبت، بچوں کی معصومیت، ہر شے کو جنسِ بازار بنا دیا جائے اور ان کی قیمت طے کر دی جائے۔ ماں بچے کو دودھ پلائے گی تو اس کا اتنا معاوضہ ہوگا۔ بہو اگر سسر کا خیال رکھے گی تو اس کی فی گھنٹہ یہ اجرت ہوگی۔
انسانی سماج کا حسن رشتوں سے قائم ہے۔ رشتے محبت، ایثار اور بے لوث تعلق سے وجود میں آتے ہیں۔ ان کی کوئی قیمت نہیں ہوسکتی۔ کیا ماں کی اس ایک رات کی کوئی قیمت ہو سکتی ہے جو وہ بچے کے آرام کے لیے جاگ کر گزارتی ہے؟ پھر 'عورت‘ بھی کبھی بچہ ہوتی ہے اور وہ بھی بوڑھی ہوتی ہے۔ جب بچہ ہوتی ہے تو والدین اس کا خیال رکھتے ہیں۔ جب وہ جوان ہوتی ہے تو وہ بچوں کا اور گھر کے بڑوں کا خیال رکھتی ہے۔ جب وہ بوڑھی ہوتی ہے تو وہی بچہ اس کے پاؤں کے نیچے ہاتھ رکھنے کے لیے موجود ہوتا ہے۔
ہمیں مکمل عورت کو سامنے رکھنا ہے، صرف جوان عورت کو نہیں۔ اگر ایک مکمل عورت کے حقوق کو محفوظ کرنا ہے تو لازم ہے کہ ان رشتوں کومضبوط بنایا جائے۔ مذہب اس لیے اہم ہے کہ وہ ان رشتوں کو توانا بناتا ہے۔ کیا اچھی ہدایت ہے اورکیا خوب دعا ہے جو قرآن مجید نے والدین کے بارے میں سکھائی: اور ان کے لیے نرمی سے، عاجزی کے بازو جھکائے رکھو‘ اور دعا کرتے رہو کہ پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے (رحمت و شفقت کے ساتھ) مجھے بچپن میں پالا تھا‘‘ (سورہ بنی اسرائیل: 24)۔ یہ دعا ہی نہیں، یاددہانی بھی ہے کہ اب اولاد کیلئے امتحان ہے کہ وہ احسان کا بدلہ چکانے کی کوشش کرے جو والدین نے اس پراس وقت کیا جب وہ محتاجِ مطلق تھی۔
بلاشبہ خاتون کے اس کردار کا اعتراف ہونا چاہیے جو ایک گھر کو چلانے کے لیے وہ ایک خاموش مجاہد کی طرح ادا کرتی ہے‘ اور جو کسی بھی طرح ایک جرنیل کے کردار سے کم نہیں۔ اس اعتراف کو لیکن مادی پیمانوں سے ماپنے کا مطلب، اس کردار کی قدر کو کم کرنا ہے۔ انسانی سماج رشتوں سے‘ رشتے ایثار و محبت سے توانا ہوتے ہیں۔
کہنایہ ہے کہ ہمیں اس منشورکے کسی ایک آدھ نکتے سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر عورت مارچ کا منشور، بحیثیت مجموعی، ایک اہم اورجامع دستاویزہے۔ اس کو بغیر مطالعہ اور تحقیق رد کرنا درست نہیں ہوگا۔ لازم ہے کہ اس پر مکالمہ ہو اوراس پر محاذآرائی کے بجائے، اسے زیادہ سے زیادہ متفقہ دستاویز بنانے کی کوشش کی جائے۔ اصولی طورپر اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح اگر نعروں کے انتخاب میں احتیاط برتی جائے تو غیرضروری اعتراضات سے بچا جا سکتا ہے۔