اقتدار کی سیاست اِسی طرح ہوتی آئی ہے۔ اسی طرح ہوتی رہے گی۔ لوگ یہاں اصول و ضوابط تلاش کرتے ہیں۔ بھائی! چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں؟
اگر میں یہ کہوں کہ اقتدار کی سیاست کے اپنے اصول ہوتے ہیں، اس کا اپنا نظامِ اخلاق ہے، اپنے اطوار ہیں، جو عمومی اخلاقیات سے مختلف ہیں تو اس سے شاید ہی اختلاف کیا جا سکے۔ اہلِ سیاست اور ان سے وابستہ سیاسی کارکن بلا ضرورت دوسروں کے تضادات کو نمایاں کرتے ہیں۔ بے وجہ ایک دوسرے کو طعنے دیتے ہیں۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ 'یہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں‘۔
مسلمانوں کے وہ اختلافات صدیوں سے حل نہیں ہو پائے جن کی بنیاد سیاست ہے۔ ہمارے ہاں فرقہ واریت کی اساس، تفہیمِ مذہب کا اختلاف نہیں، تفہیمِ سیاست کا اختلاف ہے۔ تفہیمِ مذہب کے اختلاف سے مسالک وجود میں آئے۔ مسلکی اختلاف کا فرقہ واریت سے کوئی تعلق نہیں، الا یہ کہ مسالک کی قیادت کم علموں کے ہاتھ لگ جائے۔ سیاسی اختلاف اس لیے سنگین ہوا کہ اسے مذہبی بنا دیا گیا اور سیاسی قضیوں کو بعض ایسے معیارات پر پرکھا گیا جو سیاست کیلئے وضع نہیں ہوئے تھے۔ اب ایک طرف تاریخی واقعات کو پیش کیا جاتا ہے اور دوسری طرف فضائل کو۔ سیاسی قضیوں کو برسرِ زمین طے ہوئے صدیاں بیت گئیں، ہمارا خطیب مگر آج بھی انہیں برسرِ منبر طے کرنا چاہتا ہے۔
سیاست میں ہار جیت کا فیصلہ فضائل نہیں، حالات کرتے ہیں۔ سیاست، امکانات کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا ہنر ہے۔ جو اس ہنر میں طاق ہے، وہی کامیاب ہے، باقی سب کہانیاں ہیں۔ 'پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کون ہے؟‘ اس سوال کا جواب لوٹے ہوئے مال کی قیمت نہیں، سیاسی ضرورت طے کرتی ہے۔ ہم اسے طعنے کا موضوع بنا دیتے ہیں۔ پھر جواب بھی طعنے کی زبان میں ملتا ہے۔ یوں ایک غیرضروری بحث شروع ہو جاتی ہے۔ اگر سیاسی رہنماؤں کے متاثرین خود کو اور دوسروں کو انسان اور اقتدار کے کھیل کا کھلاڑی مان لیں توسیاست میں وہ انتہا پسندی پیدا نہ ہو جو اب دکھائی دیتی ہے۔
'پاپولسٹ‘ سیاست کا معاملہ یہ ہے کہ وہ سیاست کو غلط اور صحیح اور پھر اس کی بنیاد پر، اہلِ سیاست کو فرشتوں اور شیطانوں میں تقسیم کرتی ہے۔ یہ ایک مصنوعی تقسیم ہے جو مصنوعی طریقوں سے پیدا کی جاتی ہے۔ میڈیا اس میں معاونت کرتا ہے۔ سادہ لوح اس تقسیم کو سچ سمجھ لیتے ہیں۔ یوں وہ اپنے تئیں یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ایک سراپا شر کے مقابلے میں کسی سراپا خیر کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پاپولر سیاست اسی سادہ دلی کے کندھوں پر پاؤں رکھتے ہوئے آگے بڑھتی ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ سیاست کو عام اخلاقیات کے تابع نہیں ہونا چاہیے۔ یقیناً ہونا چاہیے مگر جو اس کی طہارت و پاکیزگی کیلئے کام کرنا چاہتا ہے، اس کا میدان سماج ہے، اقتدار کی سیاست نہیں۔ جب ہم سماج کی بات کرتے ہیں تو اس میں سیاست بھی شامل ہوتی ہے۔ جب ہم سماجی سطح پر کسی نظامِ اقتدار کا غلبہ چاہتا ہیں تو لازم ہے کہ اس میں سیاست بھی شامل ہو۔ ہم اگر معاشرے میں ایفائے عہد کی قدر کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں تو اس کا اطلاق سیاسی رویوں پر بھی ہوگا۔ یہ کام لیکن عملی سیاست کا حصہ بن کر نہیں ہو سکتا۔ اس کی ترجیحات دوسری ہیں۔
جوایسا کرنا چاہتا ہے اسے مذہبی سیاست کا انجام اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ مذہب تو نام ہی تعمیرِ اخلاق کا ہے۔ مذہبی سیاست کے نتیجے میں یہ تو نہیں ہوا کہ سیاست مذہبی ہوگئی ہو، یہ البتہ ضرور ہوا کہ مذہب سیاسی ہو گیا ہے۔ سیاست کے مذہبی ہونے کا مطلب، اس کا مذہب کے تصورِ اخلاق کے تابع ہونا ہے۔ مذہبی سیاست دانوں کے علاوہ جو بھی اصلاح کا دعویدار سیاست میں آیا اس کا انجام آپ دیکھ سکتے ہیں۔ سیاست نے اس کے ذاتی اخلاق کو اگر بہتر نہیں بنایا تو یہ اس کی حتمی دلیل ہے کہ اقتدار کی سیاست، اصلاحِ اخلاق کیلئے موزوں میدان نہیں ہے۔ جو اس کی خواہش رکھتا ہے کہ سیاست اخلاق کے تابع ہو، اسے ایک صبر آزما کام کرنا ہے اوریہ کام سماج کے اخلاقی رویے کی تعمیر ہے۔ اس کا کوئی تعلق اقتدار سے نہیں ہے۔ اہلِ سیاست میں جنہوں نے اخلاقیات پر اصرار کیا، اقتدار کی دیوی ان پر مہربان نہیں ہوئی۔
نظریاتی سیاست اسی وجہ سے ناکام ہوئی۔ نظریہ پیچھے رہ گیا اور سیاست آگے نکل گئی۔ کیا کبھی یہ سوال ہمارے ہاں زیرِ غور آیا ہے کہ ترکی کے طیب اردوان نے اپنے فکری رہنما نجم الدین اربکان سے راستے کیوں جدا کیے؟ اگر نہ کرتے تو کیا ملک کے وزیر اعظم اور صدر بن سکتے تھے؟ میں مثالوں کی اس فہرست کو طویل کر سکتا اور پھیلا سکتا ہوں مگر میرا خیال ہے کہ صرف یہی مثال اس مقدمے میں سمجھنے کے لیے کفالت کرتی ہے۔
ہر معاشرے میں ایک ایسا طبقہ ضرور ہوتاہے جس کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ سماج کو بحیثیت مجموعی اس کی اخلاقی روایات اور نظامِ اقدار کی طرف متوجہ کرتا رہتا ہے۔ مسلم معاشرے میں یہ علما کا طبقہ ہے۔ دینی لغت میں یہ کام 'انذار‘ کہلاتا ہے۔ غیرمذہبی معاشروں میں یہ فریضہ اہلِ دانش سرانجام دیتے ہیں جو اہلِ سیاست سمیت سب کو متوجہ کرتے ہیں کہ ان کا رویہ کیسے سماج کے نظامِ اقدار کے تابع ہو۔ اس سے معاشرے کے اندر اخلاقیات کے باب میں ایک حساسیت پیدا ہوتی ہے اور وہ اہلِ سیاست عوام کی نظر میں غیرپسندیدہ ہوتے چلے جاتے ہیں جو اخلاقیات کے باب میں غیرسنجیدہ ہوتے ہیں۔ جمہوری معاشروں میں یہ کام آسان ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقتدار تک رسائی کیلئے عوام کا پسندیدہ ہونا ضروری ہوتا ہے۔ یوں ایک سیاستدان جانتا ہے کہ اس کی ایک غیراخلاقی حرکت اسے اقتدار سے دور کر سکتی ہے۔
اقتدار کی سیاست، خود اس معاملے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتی۔ اس میں سودوزیاں کا پیمانہ دوسرا ہوتا ہے۔ اہلِ سیاست کے فیصلے حق و باطل کی بنیاد پر نہیں، زمینی حقیقتوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اسی تحریکِ عدم اعتماد کو دیکھ لیں۔ اپوزیشن کو ایک خاص تعداد میں اراکینِ اسمبلی کی ضرورت ہے۔ وہ یہ کوشش کررہی ہے کہ کیسے ان کو ساتھ ملا سکے۔ ظاہر ہے کہ وہ ان کے مطالبات کو تسلیم کرے گی، تب ہی وہ اس کا ساتھ دیں گے۔ شہباز شریف صاحب کو بادلِ نخواستہ چوہدری پرویز الٰہی سے ملنا ہوگا۔ دوسری طرف حکومت کی خواہش ہے کہ وزیراعظم پر اعتمادکا اظہار کرنے والے زیادہ ہوں۔ اب وزیراعظم چاہیں یا نہ چاہیں، انہیں چوہدری شجاعت حسین صاحب سے ملنا ہوگا۔ علیم خان کے پیچھے اپنے گھوڑے دوڑانے ہوں گے۔ اب اس میں ایک دوسرے کو طعنہ کیسے دیا جا سکتا ہے؟
سیاست میں چندباتیں اہم ہیں جن کا لحاظ رکھا جانا چاہیے: موجود لوگوں میں کون ہے جو ملکی مسائل کا ایسا واضح حل تجویز کر رہا ہے جو درست تر ہے؟ کون ہے جومقصد کے ساتھ اپنی وابستگی کی قیمت ادا کر سکتاہے؟کون ہے جو معاصر اہلِ سیاست سے اخلاقی اعتبار سے بہتر ہے؟ کس میں جرات، بصیرت اور معاملہ فہمی جیسے اوصاف دوسروں سے زیادہ ہیں؟ کون ہے جو مشاورت اور جمہوریت پر زیادہ یقین رکھتا ہے؟ اگر ہم اس سے زیادہ کچھ تلاش کرنا چاہیں تو خود کو دھوکہ دیں گے اور دوسروں کو بھی۔
عدم اعتماد کی تحریک کا انجام انہی ضوابط کے تحت ہوگا جو سیاست میں اس وقت رائج ہیں۔ یہ اقتدار کا بے رحم کھیل ہے جس میں ہار جیت کا فیصلہ زمینی حقیقتوں کی بنیاد پر ہوگا۔ اسے حق و باطل کا معرکہ بنانا محض تکلف ہو گا۔