تصادم کی طرف بڑھتے قدم کیا روکے جا سکتے ہیں؟
موضوعات بہت ہیں جو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں‘ جیسے اسرائیلی وزیر اعظم کا دورۂ ترکی‘ جیسے روس یوکرین لڑائی کے معاشی اثرات‘ مگر جب گھر میں آگ لگی ہو تو اڑوس پڑوس کا کسے ہوش۔ مارچ کے دنوں میں اسلام آباد پھولوں سے سج جاتا ہے۔ آج مگر ان پر شوخی نہیں، اداسی کا غلبہ ہے۔ رنگ ہیں مگر وہ منظر کہاں جو حسرت نے بیان کیا ہے 'دہکا ہوا ہے آتشِ گل سے چمن تمام‘۔ زبانِ قال نہیں ہے تو کیا ہوا، یہ گلاب و سمن زبانِ حال سے شہر کی کہانی سنا رہے ہیں۔
موضوع ایک ہی ہے: سکون اس شہر سے کیوں روٹھ گیا؟ یہاں اضطراب نے کیوں دھرنا دے رکھا ہے؟ یہ عام شہر نہیں، ملک کا دارالحکومت ہے۔ یہ پاکستان ہے۔ یہاں امن نہ ہو تو ملک میں کیسے سلامتی کی ہوائیں چل سکتی ہیں؟ ایک طرف مارچ کی تیاریاں ہیں جب قوم پاکستان کی سطوت و شکوہ اور کلچرل تنوع کو ایک میدان میں مشہود دیکھتی ہے۔ ایک ایسا منظر جس کا سال بھر انتظار ہوتا ہے۔ آج اس منظر پر ایک دوسرا منظر غالب ہے جو خوف نے تخلیق کیا ہے۔ وہ خوف جو اقتدار کے بے رحم کھیل کی عطا ہے۔ زبانیں شعلے اگل رہی ہیں اور ہر طرف نفرت کی حکمرانی ہے۔
یہ سیاست نہیں ہے۔ بلاشبہ یہ سیاست نہیں ہے۔ سیاست ہوش وخرد سے بیگانگی کا نام نہیں۔ یہ توفراست کا مترادف لفظ ہے۔ یہ سیاست ہے جو قوموں کو جنگوں سے بچاتی اور گفت و شنید سے معاملات حل کرنے کا راستہ دکھاتی ہے۔ فساد کی راہ روکتی ہے۔ سیاست کی لغت میں تصادم کا لفظ نہیں ہے۔ تصادم ایک دروازے سے داخل ہوتا ہے تو سیاست دوسرے دروازے سے نکل جاتی ہے۔ آدمی حیرت سے سوچتا ہے: سیاست ہے مگر فریقین میں مکالمہ نہیں۔ سیاسی جماعتیں موجود ہیں مگر چار برس ہو گئے، ان کی قیادت ایک میزکے گرد نہیں بیٹھ سکی۔ پارلیمان ہے مگر سیاسی رہنمائوں نے ایک دوسرے سے ہاتھ تک نہیں ملایا۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ سیاست کے نام پرجو کچھ ہورہا ہے، اسے کوئی اور نام تو دیا جا سکتا ہے، سیاست نہیں کہا جا سکتا۔
1977ء میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ قومی اتحاد اور بھٹو صاحب کی حکومت‘ دونوں تصادم کی راہ پر تھے۔ قومی اتحاد انتخابی دھاندلی کے خلاف سراپا احتجاج تھا۔ اس وقت کے سیاستدان آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ معاملہ فہم اور صاحبانِ بصیرت تھے۔ پروفیسر عبدالغفور، مولانا شاہ احمد نورانی، نوابزادہ نصراللہ خان... کس کس کا نام لیں کہ سب معتبر لوگ تھے۔ شدید اختلاف کے باوجود مسلسل مذاکرات ہورہے تھے۔ قومی اتحاد کے کارکن سڑکوں پر تھے لیکن مذاکرات کا راستہ بند نہیں تھا۔ بعد میں پروفیسر عبدالغفور صاحب نے بھی گواہی دی کہ اکتیس میں سے تیس نکات پر اتفاق ہوگیا تھا۔ بس ایک نکتے سے بات بگڑگئی۔ اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ وزیراعظم مستعفی ہوں اور نئے انتخابات کرائے جائیں۔ بھٹو صاحب نئے انتخابات کیلئے آمادہ تھے مگر استعفے پر نہیں۔ انہوں نے نوشتہ دیوار پڑھنے کے بجائے عوامی جذبات سے کھیلنا چاہا۔ یہ مقدمہ پیش کیا کہ امریکہ انہیں اقتدار سے ہٹانا چاہتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ ان کا یہ مقدمہ کتنا درست تھا مگر وہ چاہتے توخود کو ایسی کسی مبینہ سازش سے بچا سکتے تھے۔ انہوں نے مگر استعفے کواپنی انا کا مسئلہ بنا لیا۔
دوسری طرف اصغر خان جیسے سیاستدان بھی تھے جوعجلت میں تھے۔ ان کی نظریں امپائر کی انگلی پر تھیں۔ بھٹو صاحب حالات کا درست تجزیہ نہیں کر سکے اور پھر وہی ہوا، ایسے حالات میں جس کا ڈرہوتا ہے۔ نہ صرف امپائر کی انگلی اٹھی بلکہ اس نے خود آکر ٹیم کی قیادت سنبھال لی۔ اہلِ سیاست دیکھتے رہ گئے اور ملک گیارہ سال کیلئے مارشل لا کے حوالے ہوگیا۔
بھٹوصاحب بحران کے دنوں میں مولانا مودودی کے ہاں جا پہنچے۔ انہوں نے بھی ایک خیرخواہ کے طور پر انہیں یہ مشورہ دیا کہ مستعفی ہو جائیں اور نئے انتخابات کرائے جائیں۔ بھٹو صاحب نے ان کی بات بھی نہیں مانی۔ سیاسی حالات پر نظر رکھنے والوں کا خیال تھا کہ اگر بھٹو صاحب استعفیٰ دے دیتے تو وہ الیکشن جیت سکتے تھے‘ وہ مگر مان کر نہیں دیئے۔ نہ صرف اقتدار سے گئے بلکہ اس کے نتیجے میں جان سے بھی گئے۔
آج نہ بھٹو صاحب ہیں اور نہ نوابزادہ نصراللہ خاں۔ حکومت کو قائم ہوئے پونے چار سال ہونے کو ہیں مگر ایک بار بھی وزیراعظم اور اپوزیشن ایک میزپر نہیں بیٹھے۔ کسی مسئلے پر سنجیدہ مذاکرات نہیں ہوئے۔ آج کوئی مولانا مودودی بھی نہیں کہ وزیراعظم ان کے پاس جائیں اور مشورہ چاہیں۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ملک ایک بندگلی میں کھڑا ہے۔ حالات کی باگ جذبات ا ور ہیجان کے ہاتھ میں ہے۔ ہر کوئی دوسرے کو سنگین نتائج سے خبردار کررہا ہے مگر خود متنبہ ہونے کو تیار نہیں۔
اہلِ سیاست اگر قوم کو تصادم سے نہ بچا سکیں تو پھر سیاست کس کام کی؟ اس کا مطلب قبائلی دور کی طرف لوٹ جانا ہے جب اقتدار کے فیصلے طاقت سے ہوتے تھے۔ اگر پارلیمان میں طے ہونے والے معاملات سڑکوں پر طے ہوں اور سڑکوں پرنکلنے کا بھی کوئی ضابطہ اخلاق نہ ہو توپھر یہ اس بات کا اعلان ہے کہ اہلِ سیاست معاملات کو سیاسی طورپر حل کرنے میں ناکام ہیں۔ عقلِ عام کہتی ہے کہ ایسے حالات میں بڑی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے کہ وہ ملک کو تصادم کی طرف نہ جانے دے۔
اس وقت تو سب طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہیجان برپا کیا جا رہا ہے۔ القاب کے ساتھ پکارا جا رہا ہے۔ کوئی نصیحت کارگر نہیں۔ اقتدار کے کھیل کو حق و باطل کے معرکے میں بدلا جا رہا ہے۔ یہ غلطی 1977ء میں بھی کی گئی اور اس وقت بھی ایک سیاسی تحریک کو تحریکِ نظامِ مصطفی کا نام دے کرلوگوں کے جذبات کو ابھارا گیا اور ان کی جانوں سے کھیلا گیا۔ جب سیاست پر ہیجان کا غلبہ ہو تو پھر نوابزادہ نصراللہ خان اور مولانا شاہ احمد نورانی جیسے معاملہ فہم بھی اسے سنبھال نہیں سکتے۔ آج تو معاملہ ہی اور ہے۔
چوہدری شجاعت حسین صاحب نے کوشش کی ہے کہ سیاست کو ہیجان سے نکالا جائے۔ میرا خیال ہے کہ ان کی اس تجویز کو آگے بڑھایا جانا چاہیے کہ فریقین اس مرحلے پر عوامی جلسوں سے گریز کریں اور سب سے پہلے ماحول کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کریں۔ اس تجویز کی تائید، بار کونسلز، صحافی تنظیموں اور سول سوسائٹی کی طرف سے آنی چاہیے۔ اہلِ سیاست کو اس پر آمادہ کرنا چاہیے کہ وہ اقتدار کی اس لڑائی کو گلیوں اور بازاروں تک پھیلانے سے گریز کریں۔ اختلاف کو کسی نظامِ اخلاق کا پابند بنائیں۔
میں بارہا اس المیے کا ذکر کر چکا کہ آج ہماری قوم میں کوئی فرد یا ادارہ ایسا باقی نہیں جو ثالث بالخیر کا کردار ادا کر سکے۔ سب فریق بن چکے۔ آج ملک میں کوئی مجید نظامی ہے اور نہ مولانا ظفر احمد انصاری۔ کوئی ریاستی ادارہ بھی ایسا نہیں جس پر سب کو بھروسہ ہو؛ تاہم جو میسر ہے اسے بروئے کار آنا چاہیے۔ میں نے جن اداروں کا ذکر کیا ہے، ان کی طرف سے اہلِ سیاست سے اپیل کی جانی چاہیے کہ وہ تصادم کی طرف اٹھتے قدموں کو روکیں۔ تصادم اہلِ سیاست کی ناکامی کا اعلان ہو گا۔ ملک کے ساتھ جو ہو گا، یہ ایک الگ کہانی ہو گی۔