قوم کیسے بنتی ہے؟
ہماری تاریخ میں یہ بحث اُس وقت پیدا ہوئی جب برصغیر میں مسلمانوں کے سیاسی و تہذیبی حقوق کا سوال اٹھا۔ اتفاق اور عدم اتفاق سے قطع نظر، اس موضوع پر علامہ اقبال، مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے جو کچھ لکھا، اسے ضرور پڑھنا چاہیے۔ اس ضمن میں کئی علمی اور تاریخی سوالات اہم ہیں۔ مثال کے طور پر کیا کوئی فرد ایک قوم کی تشکیل کر سکتا ہے؟ یا کیا قائداعظم نے اس خطے میں ایک نئی قوم بنائی تھی؟
میں جس بحث کا حوالہ دے رہا ہوں، اس میں تین اصطلاحیں بطور خاص موضوع بنیں: امت، ملت اور قوم۔ میرا تاثر ہے کہ ان اصطلاحوں کو صحیح تناظر میں نہ سمجھنے کے باعث علامہ اقبال اور مولانا مدنی کے مابین ایک بحث چھڑ گئی اور اس سے ایک تکدر پیدا ہوا۔ یہ خلطِ مباحث آج بھی موجود ہے۔ ہمارے ہاں اکثرکہا جاتا ہے کہ ہم ایک ہجوم ہیں، کوئی قوم نہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض لوگ، 'قوم‘ کو 'عساکر‘ کے مترادف ایک لفظ سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ قوم وہ ہوتی ہے جو ایک لیڈر کی کمانڈ پر حرکت کرتی، اس کے اشارے پر دائیں اور بائیں مڑتی اوروہ کہے تو ساری رات ایک پاؤں پر کھڑی رہ سکتی ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایک طرح سے سوچنے اور عمل کرنے والے ایک قوم ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ کہا جاتا ہے کہ تمام شہریوں کو ایک نصاب پڑھایا جائے تاکہ ہم ایک قوم بن سکیں۔ یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ کوئی وزیر اعظم یا سیاست دان ایک خطے میں بسنے والوں کو ایک قوم بنا سکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ سب افکار غلط فہمیوں اور خوش فہمیوں کے ایک مجموعے کے سوا کچھ نہیں۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ قومیت کا تصور پیدا کیسے ہوتا ہے؟ اس کا تعلق اجتماعی شناخت کے ساتھ ہے۔ شناخت کا احساس فطری ہے۔ بطور فرد، ایک انسان میں شعورِ ذات سے شناخت کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ یہ نفسیاتی ضرورت ہے اور سماجی بھی۔ اسی لیے فرد کا ایک نام ہوتا ہے اور قومیت بھی۔ بقا کے تمام لوازم، اسی شناخت سے جڑے ہوئے ہیں۔ فرد چونکہ گروہوں کی صورت میں رہتا ہے، اس لیے انفرادی کے ساتھ اجتماعی شناخت کا شعور بھی اس کی فطرت کا حصہ ہے۔
سماجی ارتقا سے معلوم ہوتا ہے کہ آج تک انسان کی اجتماعی شناخت کا ظہور تین سطحوں پر ہوا ہے: سماجی، نظریاتی اور مفاداتی۔ سماجی شناخت کا احساس فطری ہے۔ جیسے ایک نسل یا ایک خطے سے تعلق۔ خونی رشتے اور علاقائی تعلق سے اجتماعی شناخت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ ثقافتی مظاہر اسی کے زیرِ اثر وجود میں آتے ہیں۔ اسی لیے ثقافت عام طور پر علاقوں سے معنون ہوتی ہے۔ یہ شاخت نہ تو مصنوعی طور پرپیدا ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی ایک فرد اس کی اساس ہوتا ہے۔
نسل کو عام طور پر فرد سے منسوب کر دیا جاتا ہے مگر جسے ہم نسلی شناخت کہتے ہیں، وہ درحقیقت اسی وقت شناخت بنتی ہے جب وہ اتنے انسانوں تک پھیل جائے کہ اس پر اجتماع کا اطلاق ہو سکے۔ اس کے لئے کم و بیش ایک سو سال یا تین نسلوں کا تسلسل ضروری ہے۔ یہی معاملہ علاقے کا بھی ہے۔ تین نسلوں تک لوگ ایک خطے میں ایک ساتھ رہتے رہیں تو اس کے بعد ہی علاقائی شناخت پیدا ہوتی ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ سماج ریاضیاتی اصول کے تحت آگے نہیں بڑھتا کہ یہ مدت ایک سو سال سے ایک دن زیادہ یا کم نہیں ہو سکتی۔ اسے ایک اجتماع کی اوسط عمر کہا جا سکتا ہے۔ جدید علم اس اجتماعیت کو قوم (Nation) کا نام دیتا ہے۔ بیسویں صدی میں اس نے ایک سیاسی نظریے کی صورت اختیار کر لی۔
دوسری اجتماعی شناخت وہ ہے جو ایک نظریہ پیدا کرتا ہے۔ عام طور پر یہ شناخت ایک فرد سے منسوب ہوتی ہے۔ اس کی ایک صورت مذہبی شناخت ہے۔ مذہب اگرچہ ایک نظامِ فکر (worldview) ہے مگر اس کے مختلف ادوار پیغمبروں کے حوالے سے معروف ہیں۔ ہمارے نزدیک اسلام ہر ایسے معاشرے کا دین رہا ہے جو الہامی ہدایت پر یقین رکھتا ہے؛ تاہم اسلام کے مختلف ادوار مختلف پیغمبروں سے نسبت رکھتے ہیں۔ ایک دور وہ ہے جو حضرت مسیحؑ سے منسوب ہے۔ آخری دور سیدنا محمدﷺ سے۔ پیغمبر کی نسبت سے جو اجتماعیت پیدا ہوتی ہے، اسے امت کہا جاتا ہے۔ مذہب کی نسبت سے جو اجتماعیت وجود میں آتی ہے، اسے ملت کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر ملتِ ابراہیمی میں حضرت اسماعیلؑ اور حضرت اسحاقؑ سے نسبت رکھنے والے سب لوگ شامل ہیں۔ اس نسبت سے ہمارا تعلق ملتِ ابراہیمی سے ہے۔ بایں ہمہ ہم سیدنا محمدﷺ کے امتی ہیں۔ یوں ہماری اجتماعی شناخت کا حوالہ رسالت مآبﷺ کی ذاتِ والا صفات ہے۔
نظریے سے منسوب دوسری شناخت غیرمذہبی ہے‘ جیسے اشتراکت کو ماننے والے۔ اس میں بھی ایک فرد کارل مارکس کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ علامہ اقبال نے انہیں ایسا پیغمبر کہا ہے جس کی طرف وحی نہیں آتی 'یعنی آں پیغمبر بے جبرئیل‘۔ اسلام اور اشتراکیت کی کشمکش کے ذیل میں، مولانا مودودی کا ایک مشہور جملہ ہے کہ 'یہ محمد عربیﷺ کی امت ہے، ماؤ یا مارکس کی امت نہیں‘۔ گویا علامہ اقبال اورمولانا مودودی، دونوں ایک نظریاتی شناخت رکھنے والوں کوایک امت قرار دے رہے ہیں۔ نظریاتی شناخت عالمگیر ہوتی ہے۔ ایک نظریہ رکھنے والے، دنیا میں جہاں بھی بستے ہوں، یہ شناخت انہیں ایک دوسرے سے جوڑے رکھتی ہے۔
تیسری اجتماعی شناخت وہ ہے جو مفاداتی ہے۔ ایک مشترکہ مفاد لوگوں کوایک جگہ جمع کردیتا ہے۔ اس کی مثال جدید ریاست کا تصور ہے۔ جدید ریاست ایک معاہدے کے نتیجے میں قائم ہوتی ہے۔ اس میں ریاست ایک شہری کو بعض باتوں کی ضمانت دیتی ہے اور اس کے بدلے میں اس سے ریاستی وفاداری سمت کچھ مطالبات کرتی ہے۔ جو اس معاہدے کوقبول کرلے، وہ ریاست کا شہری یا حصہ بن جاتا ہے‘ جیسے اگرایک آدمی چند خاص شرائط کو پورا کردے تو وہ امریکہ کا شہری بن سکتا ہے۔ جدید علم اسے قومی ریاست کہتا ہے۔ ان شناختوں میں سے صرف مذہبی شناخت ایسی ہے جو تاریخی حوالے سے ایک فرد سے قائم ہوتی ہے جسے امت کہتے ہیں۔ عربی میں امت کا لفظ 'گروہ‘ کے مفہوم میں بھی آتا ہے جیسے میثاقِ مدینہ میں یہودیوں سمیت، مدینہ کے تمام شہریوں کو ایک امت کہا گیا؛ تاہم اصطلاحی مفہوم میں امت کو پیغمبر سے منسوب کیا جاتاہے۔ امت اور ملت کے الفاظ باہم مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں۔
امت کے علاوہ کوئی اجتماعی شناخت ایسی نہیں جو کسی فرد نے پیدا کی ہو۔ انسانی تاریخ میں کسی فرد نے کبھی کوئی قوم نہیں بنائی۔ اقتدار کی حریفانہ کشمکش میں شریک سیاستدان کبھی قوم نہیں بنا سکتے۔ ان کا صرف ایک کام ہے اور وہ ہے ریاست کو مضبوط بنانا۔ ریاست کے وظائف متعین ہیں۔ جیسے شہریوں کے جان ومال کی حفاظت‘ مساوی مواقع کی فراہمی، قانون کا یکساں اطلاق۔ سیاست قوم سازی کیلئے نہیں ہوتی۔ یہ سیاستدان ہوتے ہیں جو وزیر اعظم بنتے ہیں اور سیاستدان ہمیشہ متنازع ہوتا ہے۔ سیاستدان مشترکہ سیاسی مفادات کے لیے ایک راہنما کا کردار ادا کرتا ہے۔
جب کوئی سیاستدان یا اس کے متاثرین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ قوم بنانے جا رہے ہیں تووہ دراصل سیاست و سماج سے اپنی لاعلمی کا ثبوت دیتے ہیں۔ سیاست اقتدار کیلئے ہوتی ہے، قوم سازی کیلئے نہیں۔ جسے لوگ شعور کہتے ہیں وہ بھی دراصل کچھ مشترکہ سیاسی مفادات کا شعور ہے۔ قائد اعظم نے بھی کوئی قوم نہیں بنائی۔ پہلے سے موجود قوم کے ایک بڑے حصے کومشترکہ مفادات کیلئے، ایک سیاسی جماعت کے فورم پر جمع کر دیا۔