'او آئی سی‘ مسلم دنیا کی نمائندہ ہے یا امتِ مسلمہ کی؟ اس سے وابستہ ہماری توقعات حقیقی ہیں یا خیالی؟
امتِ مسلمہ، ایک روحانی اور مذہبی تصور ہے۔ اس زمین پر آباد ہر آدمی جو نبیﷺ کو آخری نبی و رسول اور اسلام کو اپنا دین مانتا ہے، اس میں شامل ہے۔ بھارت کے کروڑوں مسلمان اس کا حصہ ہیں اور امریکہ کے لاکھوں مسلمان بھی۔ 'عالمِ اسلام‘ سے مراد وہ ریاستیں ہیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں اور زمامِ کار ان کے ہاتھ میں ہے۔ عالمِ اسلام کی یہی تعریف معروف ہے۔ او آئی سی ان ممالک کی نمائندہ ہے، امتِ مسلمہ کی نہیں۔
مسلم ممالک کی تشکیل قومی ریاست کے ماڈل پر ہوئی ہے۔ تمام مسلمان ممالک دراصل قومی ریاستیں ہیں۔ ایسی ریاستیں جن کی اساس نسل اور جغرافیہ ہے۔ سعودی عرب، عربوں کا ملک ہے اور ترکی ترکوں کا۔ یہ اساس ان ممالک کے مفادات کا تعین کرتی ہے۔ یہ ممالک جو حکمتِ عملی اختیار کرتے ہیں، اس کا تعلق ان کے قومی مفادات سے ہوتا ہے۔
سعودی عرب اور بھارت کے تعلقات کو اگر قومی ریاست کے پس منظر میں دیکھا جائے تو اس میں کوئی بات اچنبھے کی نہیں ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم امتِ مسلمہ کو ایک سیاسی وحدت سمجھتے ہوئے، سعودی عرب سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی تائید میں کھڑا ہو جائے گا۔ ہم ایسا اس لیے سمجھتے ہیں کہ ہمارے خیال میں امتِ مسلمہ ایک سیاسی وجود کا نام ہے اور اس کا حصہ ہوتے ہوئے ہر مسلمان ملک کے لیے لازم ہے کہ وہ اہلِ کشمیر کے ہمقدم ہو۔
کشمیر کے مسئلے کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھیے۔ او آئی سی کا قیام ایک بڑے واقعہ کے پس منظر میں ہوا۔ یہ مسجد اقصیٰ کو آگ لگانے کا واقعہ تھا۔ اس پر مشترکہ ردِ عمل کیلئے عالمِ اسلام کی ایک کانفرنس بلائی گئی جو او آئی سی کے تصور میں ڈھل گئی۔ اب مقدس مقامات کی حفاظت اور فلسطین کی آزادی، او آئی سی کے چارٹر کا حصہ بن گئے۔ قوموں کے حقِ خود ارادیت کو اگر چہ اس چارٹر میں شامل کیا گیا ہے لیکن کشمیر کا مسئلہ اس کا حصہ نہیں بن سکا۔ گویا او آئی سی کی نظر میں فلسطین اور کشمیر کے قضیے یکساں حیثیت نہیں رکھتے۔
1969ء میں، جب پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کی تیاری ہو رہی تھی، بھارت نے درخواست کی کہ اسے او آئی سی کا رکن بنایا جائے۔ اس درخواست کو رد کر دیا گیا؛ تاہم بھارت کی اپیل پر اجلاس میں بھارت کے مسلمانوں کی نمائندگی کیلئے وفد بھیجنے کی اجازت دی گئی۔ رباط میں بھارت کے سکھ سفیر سے کہا گیا کہ وہ ابتدائی اجلاس میں بھارت کی نمائندگی کرے۔ پاکستان نے اس پر احتجاج کیا کہ بھارت میں جب مسلمانوں کا قتلِ عام ہورہا ہے، ایک غیرمسلم کیسے ان کی نمائندگی کر سکتا ہے؟ یہ احمد آباد کے فسادات کا حوالہ تھا جو ان دنوں میں جاری تھے۔ اب پاکستان مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی نمائندگی کرتا ہے مگر آج تک اس کا کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکل سکا۔
امت کے مذہبی تصور اور عالمِ اسلام کی سیاسی تشکیل سے کچھ اور مسائل بھی پیدا ہوئے‘ جیسے 1974ء میں یوگنڈا کو او آئی سی کا رکن بنایا گیا، درآں حالیکہ وہاں کی اکثرت غیرمسلم تھی اگرچہ ان کا صدر مسلمان تھا۔ بعد میں ایک مسیحی ان کا صدر بن تومسئلہ پیدا ہواکہ وہ 'عالمِ اسلام‘ کا حصہ ہے یا نہیں؟ 1981ء میں تیسری اسلامی سربراہی کانفرنس کا افتتاحی اجلاس بیت اللہ میں رکھا گیا۔ لبنان او آئی سی کا حصہ مگر وہاں کا صدر مسیحی ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ غیرمسلم بیت اللہ کی حدود میں داخل نہیں ہوسکتا، اس لیے انہیں اجلاس میں شرکت سے روکنا پڑا۔
یہ توایسے مسائل ہیں جن کا تعلق امت اور قومی ریاست جیسے تصورات کے باب میں مسلم فکر کے ابہام سے ہے۔ بعض مسائل وہ ہیں جوعملی نوعیت کے ہیں۔ مثال کے طور پر اوآئی سی قائم ہوئی تو چار بڑے ادارے بنائے گئے۔ ان میں سے ایک عالمی اسلامی عدالت بھی تھی۔ اس کا ایک مقصد مسلم ممالک میں پیدا ہونے والے باہمی تنازعات کو حل کرناہے۔ عراق اور ایران میں آٹھ برس جنگ جاری رہی۔ سعودی عرب اور یمن میں جنگ جاری ہے۔ آج تک اس فورم سے کوئی ایسا جھگڑا طے نہیں ہوسکا۔ اس میں اگرچہ یہ لکھا ہے کہ یہ عدالت اسی وقت موثر ہوگی جب فریقین، اس کے فیصلے کو قبول کر نے پرآمادہ ہوں۔ آج تک یہ آمادگی پیدا نہ ہوسکی۔
فلسطین کا مسئلہ چارٹر کا حصہ ہونے کا باوجود جس نہج پر آگے بڑھ رہا ہے، وہ ہمارے سامنے ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے باب میں عالمِ اسلام کی آمادگی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ عربوں کی مزاحمت ختم ہوچکی۔ ترکی اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنا رہا ہے۔ گویا ایک مسئلہ چارٹر کا حصہ ہوتے ہوئے بھی غیر اہم ہوگیا ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والی کانفرنس میں، متن تو دور، حاشیے میں بھی مسئلہ فلسطین دکھائی نہیں دیا۔
یہ وہ بے رحم زمینی حقیقتیں ہیں جن سے صرفِ نظر ممکن نہیں۔ اس میں یہ سبق پوشیدہ ہے کہ وہ مسئلہ جو او آئی سی کے قیام کا محرک بنا، اگر آج اتنا غیر اہم ہو گیا ہے کہ زیبِ داستاں کے لیے بھی شامل نہیں تو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے، یہ فورم کیسے موثر ہو سکتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ فورم ختم کر دینا چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ او آئی سی کے بارے میں ہم اپنے تصورات درست کریں تاکہ ہم اس فورم سے کوئی ایسی توقع نہ باندھیں جوپوری نہ ہو سکے اورپھر ہمارے لیے دل شکنی کا باعث بنے۔ میں اگر اپنی بات کا خلاصہ کروں تو اسے چند نکات کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے:
1۔ امتِ مسلمہ ایک روحانی اور مذہبی تصور ہے۔ اس اعتبار سے ساری دنیا کے مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ یہ کسی سیاسی وحدت کا نام نہیں۔
2۔ اوآئی سی مسلم ممالک کا ایک فورم ہے۔ وہ ممالک جو قومی ریاست کے تصور کے مطابق قائم ہوئے ہیں۔ ان ممالک سے یہ توقع نہیں کی جانی چاہیے کہ یہ اپنے قومی مفادات سے بے نیاز ہوکر کوئی حکمتِ عملی اختیار کریں گے۔
3۔ او آئی سی یورپی یونین کی طرح کوئی اتحاد نہیں بن سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپ کے ممالک ایک طرف جغرافیائی وحدت رکھتے ہیں اور دوسری طرف وہ باہمی جھگڑوں سے نکل چکے۔ مسلم دنیا، ایک تو مختلف علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے اوردوسرا، اس کا بھی کوئی امکان نہیں کہ باہمی جھگڑوں سے بلند ہوسکے۔
4۔ اوآئی سی کوایک معاشی اتحاد بنایا جا سکتا، وہ بھی ایسے منصوبوں کے ساتھ جن سے باہمی مفادات متاثرنہ ہوں۔ یہ بھی آسان نہیں۔ گوادر اور چاہ بہار ہی کی مثال کوسامنے رکھ لیں تو بات سمجھ میں آ جائے گی؛ تاہم اگر مسلم قیادت بالغ نظر ہوتو اس باب میں پیشرفت ممکن ہے۔
5۔ اسلاموفوبیا جیسے مسائل پریکساں موقف اپنایا جا سکتا ہے جن کا تعلق اسلام کے تعارف اوراس کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں کے ازالے سے ہے۔
اگر یہ سب نکات سامنے رہیں تو ہم اس مایوسی سے بچ سکتے ہیں جو اوآئی سی کے حوالے سے ہمارے ہاں پائی جاتی ہے۔ خرابی او آئی سی میں نہیں، ان توقعات میں ہے جو خیالی اور رومانوی ہیں۔