"KNC" (space) message & send to 7575

’امر بالمعروف‘

'امر بالمعروف‘ ایک دینی اصطلاح ہے۔ عصری سیاست میں اس کا استعمال، کیا اس کا اظہار ہے کہ مذہب آج بھی ایک موثر سیاسی قوت ہے؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کی معروف مذہبی جماعتیں کسی مذہبی نعرے یا اصطلاح کا سہارا نہیں لے رہیں۔ ان کی مہم مہنگائی اور اس طرح کے دنیاوی مسائل کے حل کیلئے ہے۔ یہ نعرہ ایک قومی سیاسی جماعت، تحریکِ انصاف نے اپنایا ہے جوعرفِ عام میںکوئی مذہبی جماعت نہیں۔کیا اس کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ آج بھی عام آدمی کیلئے یہ مذہبی نعرہ پرکشش ہو سکتا ہے اور اس کی سیاسی افادیت باقی ہے؟
اگر مذہب عملی سیاست میں آج بھی موثر ہے تو مذہبی سیاسی جماعتیں اس کی بنیاد پر سیاست کیوں نہیں کر رہیں؟ مولانا فضل الرحمن نے عمران خان صاحب کو یہودی ایجنٹ قرار دے کر یہ چاہا کہ عوام کے مذہبی جذبات مشتعل ہوں مگر اس میں وہ زیادہ کامیاب نہیں رہے۔ خان صاحب سے لوگوں کو بہت سی شکایتیں ہوں گی مگر اس نعرے کو زیادہ پذیرائی نہ مل سکی۔ عوام اس نعرے سے متاثر ہوکر خان صاحب کے خلاف نہیں ہوئے۔
اگر آج مذہبی جماعتیں، مذہب کانام لینے سے گریزاں ہیں تو کیا اس کا پس منظر ان کے تجربات ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر تحریکِ انصاف کو اس مذہبی نعرے سے کیسے فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ تحریکِ انصاف نے جو ترانہ جاری کیا ہے، اس میں بھی خان صاحب کے مذہبی تشخص کو نمایاں کیا گیا ہے۔ وہ احرام پہنے سجدہ ریز ہیں۔ میں مذہبی سیاست کا ایک طالب علم ہوں، مجھے یہ جاننے میں دلچسپی ہے کہ ایک قومی سیاسی جماعت نے اپنے جلسے میں عوام کو شریک کرنے کیلئے مذہب کا سہارا کیوں لیا؟
سماجی سطح پر، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مذہب آج بھی ایک موثر قوت ہے۔ لوگ اس کے ساتھ ایک جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔ یہ وابستگی اگرچہ اخلاق و کردار میں منعکس نہیں ہوسکی لیکن مذہب کی عصبیت بہرحال موجود ہے۔ توہینِ مذہب کے واقعات اور اسلاموفوبیا جیسے مسائل پر عوامی ردِ عمل یہ بتانے کے لیے کفایت کرتا ہے کہ مذہب کے ساتھ ہماری وابستگی کس نوعیت کی ہے۔ اس اعتراف کے باوجود، یہ بھی واقعہ ہے کہ عوام کی اسلام سے یہ وابستگی، سیاست کے لیے زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوئی۔
بھٹو صاحب سے لے کر نوازشریف صاحب تک، جس سیاسی رہنما یا حکمران کے خلاف اسلام دشمنی یا مذہب بیزاری کی تحریک چلائی گئی، اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا جا سکا۔ نفاذِ اسلام کے باب میں جماعت اسلامی کی سنجیدگی کے بارے میں مجھے کبھی شبہ نہیں لیکن اس جماعت کو بھی عوامی پذیرائی نہیں ملی۔ میرا تاثر یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں دن بدن مذہب کے سیاسی کردار میں کمی آئی ہے۔ اس کی ایک مثال میں دے چکا کہ اب مذہبی سیاسی جماعتیں بھی اسلام کی بات کم کرتی ہیں۔ اس فضا میں 'امر بالمعروف‘ کے سیاسی نعرے میں کیا کوئی کشش ہوگی؟
میرا جواب نفی میں ہے۔ کیا تحریکِ انصاف کو اس کا ادراک نہیں؟ اگر ہے تواس کی قیادت نے یہ نعرہ کیوں اختیار کیا؟ جب تمام مذہبی جماعتیں اور اپوزیشن مہنگائی اور دوسرے عوامی مسائل کی بات کر رہی ہیں تو عمران خان کیوں ایک مذہبی نعرہ اختیار کر رہے ہیں؟ وہ اس کی مقبولیت کے بارے میں کیوں پُرامید ہیں؟ ان کا حلقۂ اثر مذہبی نہیں۔ اس میں یہ نعرہ کیسے قبولیت حاصل کرے گا؟
عمران خان اس وقت سماج کی اخلاقی قوت کو ایک سیاسی قوت میں بدلنا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کرپشن کے خلاف اگر سماج کی اخلاقی حس بیدار ہو جائے تویہ ایک بڑی سیاسی تائید میں ڈھل سکتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ لوگ ان کی سابقہ مہم کے نتیجے میں روایتی اہلِ سیاست کو بد عنوان مان چکے ہیں لیکن اس کے باوجود، انہیں ووٹ دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اخلاقی طور پر حساس نہیں۔
پاکستان بنیادی طور پر ایک مذہبی معاشرہ ہے۔ ہمارے اخلاقیات کی اساس مذہبی ہے۔ میرا ماننا ہے کہ انسان کو پہلی بار اس جانب مذہب ہی نے متوجہ کیا کہ وہ اصلاً ایک اخلاقی وجود ہے؛ تاہم آج دنیا میں لبرل اور سیکولر اخلاقیات کی بات بھی کی جاتی ہے اور لوگوں نے کوشش کی ہے کہ اخلاقیات کیلئے غیرمذہبی اساسات تلاش کی جائیں۔ اسی نقطہ نظر سے تاریخ کی بھی تعبیر کی گئی۔ اس مقدمے کی صحت یا عدمِ صحت سے قطع نظر اس باب میں دو آرا نہیں ہو سکتیں کہ ہمارے معاشرے کی اخلاقی اساسات تمام تر مذہبی ہیں۔ برصغیر کبھی بھی غیرمذہبی معاشرہ نہیں رہا۔
یہاں اگر اخلاقی حساسیت پیدا ہو سکتی ہے تو مذہب ہی کی مدد سے۔ یہاں لوگوں کو سچ بولنے کیلئے اگر قائل کیا جائے گا تو یہ دلیل زیادہ کارآمد نہیں ہوگی کہ سچ بولنا ہی اس کے اور سماج کے مفاد میں ہے۔ اس کیلئے یہ دلیل زیادہ موثر ہے کہ جھوٹ بولنے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں‘ اور وہ اس کی سزا دیں گے۔ ہم بچوں کو بھی یہی سکھاتے ہیں۔ خان صاحب نے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اسی خیال کے تحت امر بالمعروف کا نعرہ اختیار کیا تاکہ عوام کی اخلاقی حس کو بیدار کرکے، اسے سیاسی قوت میں بدل دیا جائے۔
اب مذہبی جماعتیں بھی یہی کرتی آئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ مذہب کو ایک سیاسی قوت میں کیوں تبدیل نہیں کر سکیں؟ یہ ایک الگ موضوع ہے، جس پر میں تکرار کے ساتھ لکھتا رہتا ہوں۔ یہاں بس اتنا عرض کرنا ہے کہ عمران خان صاحب بھی شاید اس میں زیادہ کامیاب نہ ہو سکیں۔ ابھی یہ محض ایک تصور ہے۔ اس کی نتیجہ خیزی کے بارے میں اس وقت صرف قیاس کیا جا سکتا ہے۔ میرا کہنا تو یہی ہے کہ تحریِکِ انصاف کیلئے بھی اس کے نتائج مختلف نہیں ہوں گے۔
سیاسی عمل اساسی طور پر غیرمذہبی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاست جن معاملات سے بحث کرتی ہے، وہ دنیاوی ہیں۔ مذہب جس تصورِ حیات کو موضوع بناتا ہے وہ ما بعدالطبیعیاتی ہے۔ وہ جزاوسزا اور نتیجۂ عمل کو آخرت سے جوڑتا ہے۔ اگرچہ وہ اس جزا وسزا کو اس زندگی میں اختیار کیے گئے طرزِ عمل سے مشروط کرتا ہے‘ لیکن اس کے ساتھ وہ حسنِ عمل کواس لیے لازم کرتا ہے کہ اس کا تعلق اللہ کی رضا سے ہے۔ دوسری طرف، سیاست اس دنیا میں درپیش مسائل کا حل پیش کرتی اوران نتائج کی بات کرتی ہے جو یہیں سامنے آنے ہیں۔
انسان حبِ عاجلہ میں مبتلا رہتا ہے۔ وہ دنیادی مسائل کے حل کیلئے انہی آوازوں پر کان دھرتا ہے جو اسے فوری علاج تجویز کرتی ہیں۔ پھراس میں ایک مسئلہ اوربھی ہے۔ مذہب قول وفعل میں کسی دوئی کو گوارا نہیں کرتا۔ اگر داعی اس معیار پرپورا اترتا دکھائی نہ دے تواس کے مذہبی نعرے میں کشش نہیں رہتی۔ سیاستدانوں میں کم لوگ ہی اس پل صراط کو عبور کر سکے ہیں۔
عمران خان صاحب کا بھی مولانا فضل الرحمن صاحب جیسے مذہبی رہنماؤں پر یہ اعتراض ہے کہ وہ اسلام کی بات تو کرتے ہیں مگر خوداس پر عمل نہیں کرتے۔ کیا عمران خان عوام کی اکثریت کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہیں گے کہ ان کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں؟ کیا وہ سماج کی اخلاقی قوت کو سیاسی قوت میں بدل سکیں گے؟ ان سوالات کے جواب کیلئے ہمیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں