مولانا فضل الرحمن کیسے پیچھے رہتے۔یہ تو اُن کااپنا میدان ہے۔ حسبِ توقع وہ ''نہی عن المنکر‘‘ کا فتویٰ لے کرمیدان میں آگئے ہیں۔ اب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر آمنے سامنے ہیں۔
بزعمِ خویش پانچ لاکھ علما کی رہنمائی ا ور نمائندگی کرتے ہوئے فرمایا کہ موجود ہ حکومت منکر ہے اور اس کا خاتمہ ہر مسلمان پر واجب ہے۔اس اعلانِ عام میں تین الفاظ ہیں جن کا تعلق مذہبی لغت سے ہے: فتویٰ‘ منکر اور واجب۔ فتویٰ‘ کسی معاملے میں علما کی شرعی رائے ہے۔ منکر کا سادہ مفہوم 'برائی‘ ہے۔ واجب فرض کا مترادف ہے؛ تاہم حنفی علما دونوں میں فرق کرتے ہیں۔ فرض قطعی دلیل سے اور واجب ظنی دلیل سے ثابت ہوتا ہے۔ دارالافتا دارالعلوم دیوبند کے مطابق ''فرض کا منکر کافر قرار دیا جاتا ہے ا ور تارکِ فرض سخت گناہ گار اور عذاب کا مستحق ہوتا ہے‘ جبکہ واجب کا منکر کافر قرار نہیں جاتا؛ البتہ تارکِ واجب بھی سخت گناہ گار ہوتا ہے۔ اس لیے کہ واجب بھی عملاً فرض کی طرح ہوتا ہے۔ فرض کی مثال جیسے پنج وقتہ نماز اور واجب کی مثال جیسے وتر کی نماز‘‘۔
مولانا فضل الرحمن نے علما کی نمائندگی کرتے ہوئے موجود ہ حکومت کے بارے میں ایک شرعی حکم بیان کیا ہے۔ اس کے مطابق اگر کوئی پاکستانی مسلمان اس حکومت کے خاتمے کی جدوجہد میں شریک نہیں ہوتا تو دینی نقطہ نظر سے‘وہ سخت گناہ گار ٹھہرتا ہے کیونکہ وہ واجب کا تارک ہوگا اور ''واجب بھی عملاً فرض کی طرح ہوتا ہے‘‘۔ میرا خیال ہے کہ دینی نقطہ نظر سے‘ اس حکومت کے خلاف اس سے زیادہ سخت بات نہیں کہی جا سکتی‘ اس لیے میں اس کی سنگینی کو محسوس کر سکتا ہوں۔
اب اس فتوے پر چند سوالات پیدا ہوتے ہیں‘کچھ واقعاتی اور کچھ علمی۔ مثال کے طور پر وہ پانچ لاکھ علما کون سے ہیں جنہوں نے یہ فتویٰ جاری کیا ہے؟کیا مولانا اس قوم کو ایک لاکھ علماہی کے نام بتا سکتے ہیں؟ یہ فتویٰ تحریری ہے یا زبانی؟کیا ان علما میں مفتی تقی عثمانی بھی شامل ہیں؟ جب مولانا نے اتنا بڑا دعویٰ کیا ہے‘ کیاہے تو کیا دینی نقطہ نظر سے ان پر 'واجب‘ نہیں ہے کہ وہ ان 'جید‘ علما کے نام قوم کے سامنے رکھیں؟
کچھ سوالات علمی ہیں:عمران خان ریاست ِمدینہ کی بات کرتے ہیں۔ انہوں نے رحمۃ للعالمین اتھارٹی بنائی ہے جسے یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ اسوۂ پیغمبرﷺ کی روشنی میں معاشرے کی تعمیر کرے۔ وہ اقوامِ متحدہ جیسے فورم پراسلام کا دفاع کرتے رہے ہیں۔ عمران خان نے علانیہ کوئی ایسی بات نہیں کہی جو دین کے خلاف ہو۔کیا فرماتے ہیں یہ جید علما بیچ اس مسئلے کے کہ ایسی حکومت کو شرعاً منکر قرار دیا جا سکتا ہے؟
میرا طالب علمانہ احساس ہے کہ امر بالمعروف کے نعرے کی طرح‘ نہی عن المنکر کا یہ فتویٰ بھی حدود سے متجاوز ہے۔یہ دین کا سیاسی استعمال ہے جس سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔یہ اقتدار کی لڑائی ہے اور اسے اسی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ایک دوسرے کے سیاسی منشور‘ حکمتِ عملی اور حکومتی پالیسیوں پر سوالات ا ٹھائے جا سکتے ہیں۔سخت تنقید بھی کی جا سکتی ہے لیکن ایک سیاسی اختلاف کو دینی اصطلاحات میں بیان کرتے ہوئے‘ کسی فریق کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اسے حق و باطل کا معرکہ بنائے اورعوام‘کے مذہبی جذبات کا استحصال کرے۔
یہ غلطی ہم پہلے بھی کئی بار کر چکے۔آج پیچھے مڑ کے دیکھتے ہیں تو سوائے ندامت کے‘کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ 1970ء کے انتخابی معرکے کو اسی طرح بیان کیا گیا اور 1977ء میں بھی حکومت مخالف تحریک کو مذہبی رنگ دیا گیا۔ میرا احساس رہاہے کہ ہماری مذہبی جماعتوں نے ماضی سے سیکھا ہے اور وہ اب سیاسی اختلاف کو مذہبی معرکہ بنانے سے گریز کر رہی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن صاحب نے بھی‘اس فتوے سے قبل‘ اسی قابلِ تحسین روش کا مظاہرہ کیا‘سوائے اس الزام کے کہ انہوں نے عمران خان صاحب کو یہودی ایجنٹ قرار دیا۔ظاہر ہے کہ اس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں تھا‘ اگر وہ اس الزام کے حق میں قوم کے سامنے کوئی ثبوت نہیں رکھ سکتے۔ محض تاثر کی بنیاد پر اتنی بڑی بات نہیں کہی جا سکتی؛ تاہم اس کے علاوہ انہوں نے سیاسی کشمکش کو مذہبی بنانے کی کوشش نہیں کی۔
اس بار پہل تحریکِ انصاف کی طرف سے ہوئی اور امر بالمعروف کا نعرہ لگا کر‘موجودہ سیاسی اختلاف کومذہبی حوالے سے حق و باطل کا معرکہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ مولانا نے اسی زبان میں جواب دینے کی ٹھانی اور جواباً نہی عن المنکر کی تلوار نکال لی۔پھر دعویٰ بھی بہت بڑا کیا کہ پانچ لاکھ جید علما اس حکومت کو منکر قرار دے رہے ہیں۔گویاآج ہر کوئی اپنے بارے میں اس زعم میں مبتلا ہے کہ وہ حق کا نمائندہ ہے۔
پیپلزپارٹی اور نون لیگ نے اس معاملے میں مولانا کی امامت کو قبول نہیں کیا۔ انہوں نے ابھی تک سیاست کو حق وباطل کا معرکہ نہیں بنایا اور ا سے مذہبی رنگ نہیں دیا۔ پیپلز پارٹی سے تو ویسے بھی یہ توقع نہیں تھی۔ نون لیگ کی روایات میں بھی ایک قابلِ ذکر ارتقا ہے۔ پے درپے واقعات سے انہیں اچھی طرح اندازہ ہو گیاہے کہ یہ ملاوٹ مذہب اور سیاست‘ دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ دونوں جانب اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ سب اقتدار کی سیاست کے کھلاڑی ہیں۔ سیاسی حوالے سے کسی کا موقف درست ہو سکتا ہے ا ور کسی کا غلط۔ ہمیں یہ حق ہے کہ اپنی بصیرت کے مطابق غلط اور صحیح کا تعین کریں۔ فریقین میں کوئی منکر ہے نہ کسی نے کفرِ بواح یعنی کھلے کفر کا ارتکاب کیا ہے۔ یہی نہیں‘ اس سے بڑھ کر ایک طرف علماء کرام ہیں تو دوسری طرف ریاستِ مدینہ بنانے کی بات کی جا رہی ہے اور اسے مولانا طارق جمیل جیسی مذہبی شخصیات کی تائید حاصل ہے۔ اب اس میں علما کی بصیرت تو زیرِ بحث آ سکتی ہے‘ ان کی دین داری نہیں۔
میری تمام اہلِ سیاست سے یہ درخواست ہوگی کہ وہ اپنا مقدمہ دلائل کی بنیاد پر عوام کے سامنے رکھیں اور لوگوں کو موقع دیں کہ وہ جس فریق کے دلائل سے مطمئن ہیں‘اس کی رفاقت اختیار کر لیں۔ اگر تقسیمِ ہندوستان حق و باطل کامعرکہ نہیں تھا تو پاکستان میں اقتدار کی کشمکش کو کیسے یہ رنگ دیا جا سکتا ہے؟جس طرح مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا حسین احمد مدنی میں فرق نہیں کیا جا سکتا‘ اسی طرح مولانا فضل الرحمن اور مولانا طارق جمیل میں بھی یہ فرق ممکن نہیں۔
مکرر عرض ہے کہ حق و باطل کی تقسیم اُسی وقت ممکن ہوتی ہے جب کسی معرکے میں اللہ کا پیغمبرفریق ہو۔ایسے موقع پر اس میں کوئی شبہ نہیں ہوتا کہ حق پیغمبر ہی کے ساتھ ہو تا ہے۔ اس لیے مولانا فضل الرحمن سے یہی درخواست ہوگی کہ وہ ایک فصیح آدمی ہیں اور اپنا مقدمہ عصری سیاسی لغت میں بہتر طور میں پیش کر سکتے ہیں۔اس معاملے میں شاید ہی کوئی ان کا ہم سر ہو۔ان کو اپنی بات منوانے کے لیے کسی فتویٰ کا سہارا نہیں لینا چاہیے۔اگر وہ ایسا کرتے ہیں توان کو چند سوالات کا جواب دینا ہوگا‘جن کی میں نے نشاندہی کی ہے۔ سب سے پہلے تو ان جید علما کی فہرست‘جس نے یہ فتویٰ جاری کیا اور دوسرا اس کا دینی جواز۔ یہ بات مولانا کے علم میں ہوگی کہ محترم مفتی تقی عثمانی اس حکومت کی دینی خدمات کی تحسین کر چکے ہیں۔