کچھ کہنے کا یارا تو نہیں مگر کہے بغیر چارہ بھی نہیں۔
عدل کے ایوانوں سے کیافیصلہ آ تا ہے‘اس سے قطع نظر‘عوام کے لیے یہ جاننا لازم ہے کہ ہمارے ہاں آئے دن ایسے قضیے کیوں جنم لیتے ہیں؟ دو متضاد باتوں کوبیک وقت درست ماناجا رہا ہے۔اگر انسانی عقل ایک طر ح سے سوچتی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ دو متصادم نظریات کو بیک وقت درست تسلیم کرلیا جائے؟یہ تو مانا جا سکتا ہے کہ ایک آد می دولت‘جنس یااقتدار کی ہوس میں حدود کو پامال کر دے مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد اسے درست بھی مان لے؟اتنے لوگ بیک وقت بد دیانت یا بے عقل نہیں ہو سکتے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ عقلِ عام جس بات کو صریحاً بددیا نتی اور بے عقلی کا مظہر تسلیم کرے ‘ وہ اسے سچ اور بصیرت افروزسمجھ لیں؟
دنیا میں ایسا ہو تاہے ۔ہمارے ہاں مگر کہیںزیادہ ہے۔اس کے اسباب ایک سے زیادہ ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے پاس چند سوالات کے متعین جواب موجود نہیں یالوگوں نے قلتِ علم پر قانع ہو کر‘بعض مفروضوں کو حقائق کے طور پر قبول کر لیاہے۔اقتدار کے چالاک حریصوں نے اسے اپنے لیے ایک موقع جانا۔ایسے ہی کچھ سوالات میں یہاں درج کر رہا ہوں:
اقتدار کی کشمکش میں شریک ایک سیاست دان‘کیا ایک سماجی مصلح ہو سکتا ہے؟
اخلاقی اقدار اورقوانین کو پامال کر کے برسرِ اقتدار آنے والا حکمران‘ کیا سیاست میں اخلاقی اقدار اور قانون کی حاکمیت قائم کر سکتا ہے؟
نیک ہونے کے لیے کیا صرف نیت کا اچھا ہونا کافی ہے ؟
نیک نیتی کیا ایک غیر اخلاقی طرزِ عمل کے لیے جواز بن سکتی ہے؟
عمل کے علاوہ‘نیک نیتی کو پرکھنے کاکیا کوئی پیمانہ موجود ہے؟
اقتداراور محبت کے کھیل میں‘کیا سب کچھ جائز ہو تا ہے؟
سماجی تبدیلی کیسے آتی ہے؟انسانی تاریخ اس معاملے میں کیا کہتی ہے؟
یورپ کے عوام کبھی بادشاہ‘جاگیر دار اور پوپ کے اتحاد کے کشتہ تھے۔وہ ان کی گرفت سے کیسے نکلے؟
جہاں اخلاقی اصلاح کی قوتیں پشت پر نہ ہوں‘وہاں سیاسی عمل ‘کیا مثبت تبدیلی لا سکتا ہے؟
پاکستان میں طیب اردوان کیوں پیدا نہیں ہو سکا؟
آئین کا سیاسی استحکام سے کیا تعلق ہے؟آئین کی حرمت ہماری نظر میں کتنی ہے؟چار پیسوں کی چوری بڑا جرم ہے یا آئین کی پامالی؟
سیاست دانوں سے جذباتی وابستگی کیسے پیدا کی جاتی ہے اور اس کے مضمرات کیا ہیں؟
پاپولزم کیا ہے؟ہٹلر اورمسولینی جیسے لوگ کون تھے اور انہوں نے اپنے معاشروں کو کیا دیا؟
فسطائیت کیا ہوتی ہے؟سیاست میں اس کا کیاکردار ہے؟
اقتدار کی سیاست میں‘کیا حق و باطل میں واضح لکیر کھینچی جا سکتی ہے؟
اظہارِ رائے کو یقینی بنائے بغیر‘کیا سماج میں جمہوری اقدار کا فروغ ممکن ہے؟
کیا برائی کو برائی سے ختم کیا جا سکتا ہے؟ آئینی کی پامالی سے‘کیا قانون کی بالادستی قائم ہو سکتی ہے؟
کیا فردِ واحد کی عقل کو اجتماعی بصیرت پر فوقیت دی جا سکتی ہے؟
مستحکم اورجمہوری روایات سے مضبوط رشتہ رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے بغیر‘کیا کوئی ملک جمہوری بن سکتا ہے؟
خارجہ پالیسی کیسے آزاد ہو سکتی ہے ؟معاشی استحکام اور خارجہ پالیسی کا باہمی تعلق کیا ہے؟
مذہب محض ایک عصبیت ہے یا اخلاقی نظام ؟اس کا سیاست سے کیا تعلق ہے؟سماج میں اخلاقی حساسیت پیدا کیے بغیر کیا مذہب کی برکات تک رسائی ممکن ہے؟
جب تبدیلی کے آئینی راستے بند ہو جائیں توپھر کون سا راستہ تلاش کرنا چاہیے؟
جمہوری عمل کا تسلسل‘کیاجمہوری معاشرے کی تشکیل کیلئے ضروری ہے؟
پاکستان میں سیاسی بحران کبھی ختم نہیں ہو گا جب تک عوام کو ان سوالات کے حوالے سے باشعور نہیں بنایا جاتا۔اس وقت بھی ملک میں دو متضاد موقف موجود ہیں اور انہیں درست ماننے والے بھی۔تین اپریل کو قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا‘اس پر دو طرح کی آرا ظاہر کی جا رہی ہیں۔میڈیامنقسم ہے۔ میں بعض ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جن کے بارے میں میرا گمان ہے کہ وہ جانتے بوجھتے ‘کوئی غلط بات نہیں کہہ سکتے مگر آج وہ مجھے سے بالکل مختلف جگہ پر کھڑے ہیں۔میرا احساس ہے کہ انہوں نے بھی شاید ان سوالات پرکبھی غور نہیں کیا جو اس کالم میںاٹھائے گئے ہیں۔ یہ سوالات کبھی عوامی بحث کا حصہ نہیں بنے۔اس کی وجہ سے عام آدمی کی کوئی سیاسی تربیت نہیں ہو سکی۔اسی لیے اس کا جذباتی استحصال آسان ہے اور یہ خواب فروشوں کے لیے یہ موقع فراہم کر تا ہے کہ وہ عوام کو ایک سراب کے پیچھے لگائے رکھیں۔ عوام میں وہ خواص بھی شامل ہیںجو بظاہر پڑھے لکھے مگر سیاسی امور کی تفہیم میں تہی دامن ہیں۔ان کی یہ نیم خواندگی ایک جمہوری عمل کی نتیجہ خیزی میں حائل ہو جا تی ہے۔
سیاسی جماعتیں بھی اس صورتحال کی ذمہ دار ہیں جنہوں نے عوام کی سیاسی تربیت اور جمہوری روایات کے فروغ کو کبھی اپنا ہدف نہیں بنایا۔انہوں نے یہ گمان کیا کہ سیاست ہمیشہ ایک سی رہتی ہے۔سیاست میں اس سے بڑی غلط فہمی نہیں ہو سکتی۔ یوں جب انہیں موقع ملتا ہے تو وہ اصلاحات پر کام نہیں کرتے اور حالات تبدیل ہوتے ہی حالات کا شکار بن جاتے ہیں۔جیسے میڈیا پر پابندی کے قوانین۔
پاکستان کے سیاسی کلچر میں جوہری تبدیلی کے لیے لازم ہے کہ عوام کے سیاسی شعور کی تربیت کی جا ئے۔انہیں اس قابل بنایا جائے کہ وہ غلط اور صحیح میں تمیز کر سکیں۔کوئی ان کی سادگی سے فائدہ نہ اٹھائے۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب قوم کو بنیادی سیاسی امور پرضروری علم میسر ہو۔اس ضمن میں میڈیا کا کردار بہت اہم ہے۔سب سے زیادہ نظامِ تعلیم کا۔ آئین کی حرمت ہمارے نصابِ تعلیم کا حصہ نہیں بنی۔جب تک یہ نہیں ہو گا‘آئین کی بارے میں عوام میں حساسیت بھی پیدا نہیں ہو گی۔
عوام کے اخلاقی اور مذہبی تصورات بھی اصلاح طلب ہیں۔لوگ آ ج بھی یہ نہیں جانتے کہ بد اخلاق آدمی دین دار نہیں ہو سکتا۔اس شخص کی دین سے وابستگی مشکوک یا بے علمی پر مبنی ہے جو اپنے امور میں جائز ناجائز میں تمیز نہیں کرتا لیکن ہاتھ میں تسبیح پکڑ کر یا داڑھی بڑھا کر‘ مذہبی ہو نے کا تاثر قائم کر تا ہے۔جوآئین کی پروا نہیں کر تا‘وہ ذاتی امور میں بھی وعدے کی پاس داری نہیں کرسکتا۔یہ وہ بنیادی باتیں ہیںجو پڑھا لکھا آدمی بھی نہیں سمجھتا۔آج مذہب‘سیاست ہر شے اپنے اصل مقام سے ہٹی ہوئی ہے۔
ایک بار پھر ہم آئینی بحران کی زد میں ہیں۔قومی اسمبلی میں وہ کچھ ہو گیا جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ انہونی کسی وقت ہو سکتی ہے۔یہ دروازہ اسی وقت بند ہوگا جب سیاسی آگہی بڑھے گی۔مجھے اس پر بھی حیرت ہے کہ ریاست کے اداروں میں اعلیٰ ترین سطح پر آئین کے باب میں حساسیت موجود نہیں۔یہ بحران کی ہمہ گیری کو ظاہر کرتا ہے۔یہ حساسیت بھی اسی وقت پیدا ہوگی جب عوام حساس ہو ں گے۔ پھر اوپر بیٹھے لوگوں کو بھی اندازہ ہوگا کہ ان کی آئین شکنی کا عوامی ردِ عمل کیا ہو سکتا ہے۔اس وقت وہ جانتے ہیں کہ عوام کے لیے سو روپے کی کرپشن آئین شکنی سے بڑا جرم ہے۔