"KNC" (space) message & send to 7575

امریکہ سے آزادی

امریکہ سے آزادی کون نہیں چاہتا؟ امریکہ کیا، ہم دنیا کی ہر قوت سے آزادی چاہتے ہیں۔ ہم اپنے فیصلے خود کرنا چاہتے ہیں، اپنی مرضی سے۔ اگر ہم سب یہی چاہتے ہیں تو یہ اختلاف کیوں؟
کچھ لوگ اس مقدمے کو چیلنج کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سب آزادی نہیں چاہتے۔ عالمی قوتیں ہمیں غلام رکھنا چاہتی ہیں اور اس مقصد کیلئے ہماری صفوں سے غدار تلاش کرتی ہیں۔ ان کے اقتدار کیلئے راستے ہموار کرتی ہیں تاکہ وہ برسرِ اقتدار آکر ان کے مقاصد کی آبیاری کریں۔ یہ غلام ہیں اور قوم کو بھی غلام رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کا اقتدار قائم رہے۔ قوم آزادی چاہتی ہے تو اسے ایسے گروہ کو اقتدار سے دور رکھ کر، ان لوگوں کو اقتدارکے ایوانوں تک پہنچانا ہوگا جنہیں ان قوموں کی غلامی قبول نہیں۔ عصری سیاست کے تناظر میں یہ عالمی قوت امریکہ ہے۔
آئیے ہم اس مقدمے کا تجزیہ کرتے ہیں۔ یہ بات کہ امریکہ دنیا میں اپنی مرضی کی حکومتیں لانے کیلئے کوشاں رہا ہے، ایک تاریخی حقیقت ہے۔ مشرقِ وسطیٰ سے لے کر لاطینی امریکہ تک، جگہ جگہ اس کے شواہد بکھرے ہوئے ہیں۔ امریکی مداخلت کے یہ واقعات زیادہ تر سرد جنگ کے دور سے متعلق ہیں۔ اس دور میں امریکہ سی آئی اے کے ذریعے آپریشن کرتا اور حکومتیں بدلتا تھا جیسا کہ ایران میں وزیراعظم مصدق کی حکومت کو ختم کیا گیا۔ لاطینی امریکہ میں بھی اس طرز کی وارداتیں کی گئیں۔
جہاں داخلی سطح پر مداخلت ممکن نہ ہوسکی وہاں کھلی جارحیت بھی کی گئی‘ جیسے عراق پر حملہ؛ تاہم یہ پالیسی ہمیشہ یکساں نہیں رہی۔ حکومتوں کو اپنا ہمنوا بنانے کیلئے، یہ کام کچھ اور طریقوں سے بھی کیا گیا۔ جیسے کسی حکمران کی کمزوریوں کا استحصال۔ مثال کے طور پر اگر کہیں بادشاہت یا آمریت ہے تو جمہوریت کا نعرہ بلند کرتے ہوئے، حکمرانوں کو اقتصادی پابندیوں کے دھانے پر لاکھڑا کیا گیا۔ جب ایسے حکمرانوں نے امریکہ کا ساتھ دینے پر آمادگی دکھائی توان کی آمریت اور بادشاہت کو قبول کرلیا گیا۔ پاکستان میں ضیاالحق اور پرویز مشرف یا مشرقِ وسطیٰ کی بادشاہتوں کی حمایت کی گئی اور انہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا ہمنوا بنا لیا گیا۔
تاریخ یہ ہے کہ چھوٹی اقوام کیلئے مطلق آزادی ممکن نہیں ہو سکی۔ اس کے متعدد اسباب تھے۔ امریکہ نے مسلسل جدوجہد سے دنیا میں یہ مقام حاصل کرلیا کہ اسلحے سے لے کر علم تک، قوت کی ہر علامت پر اپنی اجارہ داری قائم کرلی۔ اگر کسی ملک کو جدید ترین ہتھیاروں کی ضرورت ہے تواس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہاکہ وہ امریکہ یا اس کے اتحادیوں سے رجوع کرے۔ اگر کسی کو جدید ترین علم حاصل کرناہے تواس کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ امریکہ یا یورپ کی یونیورسٹوں میں داخلہ لے۔
اس پر مزید یہ کہ اگر آپ کواپنی مصنوعات کیلئے عالمی منڈیوں تک رسائی چاہیے تو اس کا راستہ بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی چاردیواریوں سے ہو کر گزرتا ہے۔ اپنی اقتصادی حالت کو سنوارنے کے لیے جن مالیاتی اداروں کی مدد چاہیے، وہ امریکہ کی مٹھی میں ہیں۔ اب اگر کوئی ملک اقتصادی طور پر ترقی کرنا چاہتا ہے، اپنے شہریوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتا ہے یا اپنے دفاع کے لیے جدید ترین ہتھیار چاہتا ہے تو وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ یہی بات چھوٹے ممالک کو مجبور کرتی ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو خراب نہ ہونے دیں۔ ترقی پذیر ممالک کو درپیش سب سے بڑا چیلنج خارجہ پالیسی کی تشکیل ہے۔
سرد جنگ کے دنوں میں صورتِ حال قدرے مختلف تھی۔ سوویت یونین کی صورت میں کمزور ممالک کے پاس ایک متبادل موجود تھا‘ لیکن اس وقت بھی یہ سودا مفت نہیں ملتا تھا۔ سوویت یونین بھی ایک عالمی قوت تھا اور اس کے مطالبات امریکہ سے مختلف نہیں تھے۔ یوں انتخاب غلامی یا آزادی کا نہیں تھا، ایک کی غلامی یا دوسرے کی غلامی میں تھا۔ سوویت یونین کے خاتمے نے اس انتخاب کو ختم کر دیا۔
پاکستان کو ابتدا ہی سے اس چیلنج کا سامنا رہا۔ سرد جنگ کے دوران پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا۔ اس کے نفع ونقصان کا جائزہ یہاں مطلوب نہیں، صرف یہ واضح کرنا پیشِ نظر ہے کہ ایک ترقی پذیر ملک کے لیے کبھی ایسے حالات نہیں رہے کہ وہ آزادی یا غلامی میں انتخاب کرے؛ تاہم پاکستان میں یہ ضرور ہوا کہ اس باب میں ایک ممکنہ توازن پیدا کرنے کی کوشش ہوئی۔ مثال کے طور پر پاکستان کا ایٹمی پروگرام۔ امریکہ کو یہ پہلے ہی دن سے ایک آنکھ نہیں بھایا۔ اس کے باوجود آج پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے۔
لوگ ایوب خان ، ضیاالحق یا پرویز مشرف کے دور کا حوالہ دیتے ہیں کہ ان ادوار میں ہمارے معاشی حالات بہتر تھے۔ اس کی یہ وجہ کوئی نہیں بتاتا کہ یہ امریکی ڈالروں کی فراوانی سے ممکن ہوا۔ یہ ڈالر اس لیے آئے کہ ہم نے عالمی سیاست میں امریکہ کی ہم نوائی کا فیصلہ کیا۔ یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ جمہوریت ہو یا آمریت، پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ ریاستی سطح پر مرتب ہوئی اور اس پر ریاستی اداروں ہی کی گرفت رہی۔ اگر کسی سیاسی رہنما نے اس سے نکلنے کی کوشش کی تو اسے زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ اس معاملے میں آج بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
گزشتہ ایک عشرے میں چین خود کو اقتصادی میدان میں اس سطح پر لے آیا ہے کہ امریکہ کا ایک حد تک متبادل ہو سکتا ہے؛ تاہم دیگر بے شمار شعبے ایسے ہیں جن پر امریکہ اور اس کے حواریوں کا تسلط آج بھی قائم ہے۔ یوں چین کی ترقی کے باوجود وہ امریکہ کا متبادل نہیں بن سکا۔ روس تو کسی شمار میں نہیں۔ ترقی پذیر ممالک آج بھی امریکہ پر انحصار کے لیے مجبور ہیں۔
کیا اس انحصار کو ہم غلامی کہہ سکتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ یہ غلامی نہیں تاریخ کا جبر ہے۔ اس سے نکلنے کا راستہ موجود ہے اور وہ یہی ہے کہ ہم تاریخی عوامل کو اپنے حق میں کر لیں۔ یہ ایک طویل سفر ہے اوراس میں قدم قدم پر بصیرت اور صبرکا امتحان ہے۔ ہیجان اور بے صبری جیسے عوامل منزل کو کھوٹا کرنے کے مترادف ہیں۔ جاپان، چین کی سیاسی قیادت اور صدام حسین اس کی مثالیں ہیں۔ جاپان نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد صبر کیا اور طویل سفر کی تیاری کی۔ یہی کام چین نے کیا۔ دونوں کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ صدام حسین نے للکارا اور بے صبری کی۔ ان کا اور عراق کا انجام بھی ہمارے سامنے ہے۔
آج امریکہ کو اس بات کی ضرورت نہیں کہ ہمارے داخلی معاملات میں براہ راست مداخلت کرے اوراپنی مرضی کے حکمران بنوائے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ طاقت کے مستقل ریاستی مراکز کے ساتھ اس کا روزانہ کی بنیاد پر رابطہ ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوا۔ دوسرا، وہ یہ جانتا ہے کہ آئی ایم ایف جیسے ادارے اس کے قبضۂ قدرت میں ہیں، ہم جن سے مدد مانگتے ہیں۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ یہاں جو بھی حکمران ہو، وہ امریکہ سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اسے اپنے منہ پر کالک ملنے کی کیا ضرورت ہے؟
ہمیں غیرت کے حقیقی مفہوم اور اس کے سیاسی استعمال میں فرق کرنا ہے۔ غیرت کا حقیقی تقاضا اپنے پیکرِ خاکی میں جان پیدا کرنا ہے تاکہ ہم ان قوتوں سے بے نیاز ہو سکیں۔ جیسے جیسے ہمارا انحصار کم ہوتا جائے گا، ہماری غیرت توانا ہوتی جائے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں