شریف خاندان کا ایک پاؤں وزارتِ عظمیٰ کے اندر اور دوسرا وزارتِ اعلیٰ کی دہلیز پرہے۔اس تبدیلی کوواقعہ بنانے کے لیے‘ مرکزی کردار آصف زرداری‘ بلاول بھٹو اور مولانافضل الرحمن نے اداکیا۔ان حضرات کو یہ حیثیت کہ وہ ایک بڑی سیاسی تبدیلی کوجنم دیں‘ایک قوت کے نتیجے میں حاصل ہوئی۔ اس قوت کو'عصبیت‘ کہتے ہے۔
2016 ء میں اسے 'فرمانِ امروز‘کے طور پر سنایا گیا کہ شریف خاندان اور زرداری کا مقدراب تاریخ کا کوڑا دان ہے۔اسے کم و بیش تین سال تک دہرایا جاتا رہا۔ سیاسیات کایہ طالب علم تکرار کے ساتھ یہ لکھتارہاکہ سیاسی عصبیت‘ایک بار پیدا ہو جائے تو جڑ پکڑ لیتی ہے۔پھر اسے آسانی سے اکھاڑا نہیں جا سکتا۔جبر سے تو بالکل نہیں۔ یہ بات ایک بار پھر سچ ثابت ہوئی۔آج سیاست وہیں لوٹ گئی جہاں2016ء میں تھی۔ترقیٔ معکوس کے اس عمل کو 'سیاسی عصبیت‘نے ممکن بنایا۔آج ہم تاریخ کو پلٹتا دیکھ رہے ہیں۔ اقتدار ایک بار پھرشریف خاندان کے قبضے میں ہے۔
ایک سیاسی عصبیت کو متبادل عصبیت ہی سے کمزور یا ختم کیا جا سکتا ہے۔ جبر کچھ دیر کے لیے غالب رہ سکتا ہے لیکن یہ عصبیت کو مزید توانا بناتا ہے۔ پنجاب میں بھٹو خاندان کی عصبیت اُس وقت کمزور ہوئی جب نواز شریف صاحب نے ایک متبادل عصبیت کو جنم دیا۔ اس سے پہلے ضیاء الحق صاحب نے اسے بزور ختم کر نا چاہا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ جیسے ہی سیاسی منظر سے اوجھل ہوئے‘ پیپلزپارٹی ایک بار پھراقتدار میں تھی۔ سندھ میں دوسری عصبیت پیدانہیں ہو سکی۔ یوں بھٹو خاندان کی عصبیت ابھی تک توانا ہے۔
عصبیت اچھی یا بری نہیں ہوتی‘بس ہوتی ہے‘ سردی اور گرمی کی طرح۔ یہ ایک فطری سماجی عمل ہے۔کبھی کسی فرد یا گروہ کے لیے پیدا ہو جا تی ہے۔ کیا عمران خان بھی اپنے حق میں ایک عصبیت پیدا کر پائے ہیں؟کیا آج یہ کہنا ممکن ہے کہ شریف خاندان کی طرح عمران خان بھی ایک عصبیت کی علامت ہیں؟کیا اقتدار سے ان کی رخصتی ان کی عوامی مقبولیت پر اثر انداز ہو گی؟عمران خان کا اقتدار تک پہنچنا‘ کسی اور کا سیاسی پروجیکٹ تھا؟وہ پروجیکٹ اب تمام ہوا؟ کسی سرپرستی کے بغیر‘ اپنی عصبیت کے بل بوتے پر‘کیا وہ اپنا سیاسی وجودقائم رکھ سکیں گے؟
عمران خان نے حامیوں کے جس گروہ کو جنم دیا ہے‘اس کے لیے موزوں لفظ 'سیاسی فرقہ‘(cult) ہے۔تفہیم کی آسانی کے لیے‘اسے 'پاپولزم‘سے اگلا درجہ کہا جا سکتا ہے۔سماجی علوم نے چونکہ مغرب میں جنم لیا ہے‘اس لیے ان علوم کی اصطلاحیں مغرب کے سماجی تجربات اور تاریخ کے پس منظرمیں وجود میں آئی ہیں۔انگریزی کی یہ اصطلاح‘ دیگر اصطلاحوں کی طرح ارتقا سے گزری۔ابتدا میں یہ مذہب کے لیے خاص تھی۔جدید دور میں یہ ان گروہوں کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے جو کسی فرد کی کرشمانی شخصیت کے زیرِاثر وجود میں آتے ہیں اور اسے وہی درجہ دیتے ہیں جو کسی مذہبی فرقے میں اس کے بانی کو دیا جاتا ہے۔ یعنی خطا سے پاک‘ معیارِ حق اور تنقید سے بالاتر۔
ایسی شخصیات اگر سیاست میں ہوں تو ان کے ساتھ وابستگی کی نوعیت وہی ہوتی ہے جو مذہبی فرقوں میں پائی جاتی ہے۔ چونکہ 'کلٹ‘ کی بنیاد عقلی نہیں ہوتی‘اس لیے ایسے گروہوں سے دلیل کی بنیاد پر مکالمہ ممکن نہیں ہو تا۔ مذہب ایمان بالغیب پر کھڑا ہوتا ہے‘ اس لیے مذہبی طرز پر وجود میں آنے والے گروہ بھی اپنے لیڈر اور خیالات پر ایسا ہی ایمان رکھتے ہیں۔
'پاپولزم‘ایک سیاسی عمل ہے۔اس میں عوام کو درپیش پیچیدہ مسائل کا ایک سادہ حل پیش کیا جاتا ہے اورایک فرد کی کرشماتی شخصیت کے زیرِ اثر‘عوام کو باور کرایا جاتاہے کہ فردِ واحد کا عزم قوم کو مسائل سے نجات دلا سکتا ہے۔اس میں موجود سیاسی کرداروں کے خلاف نفرت کو بنیادی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔عوام میں ہیجان برپاکرکے‘ انہیں سوچنے سمجھنے سے محروم کر دیا جاتا ہے۔معاشرہ اگر مذہب یا توہمات پریقین رکھنے والا ہو تو لیڈر کے بارے میں دیومالائی داستانیں تراشی اور پھیلائی جاتی ہیں۔ یوں 'پاپولزم‘ ایک سیاسی فرقے(cult) کو جنم دیتا ہے۔
عصبیت کا معاملہ یہ نہیں ہو تا۔یہ ایک فطری اور عقلی عمل کا نتیجہ ہے جو سماجی عوامل کے تعامل سے وجود میں آتی ہے۔ابن خلدون نے اس پر بہت تفصیل سے لکھاہے۔ سیاسی عصبیتیں دیرپا ہوتی ہیں اورانہیں مصنوعی طریقے سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔اس کے ساتھ یہ بھی اہم ہے کہ ہرعصبیت کی ایک عمر ہوتی ہے۔اسی طرح 'سیاسی فرقے‘ کی بھی ایک عمر ہوتی ہے۔ یہ عمر کتنی ہو سکتی ہے‘اس کا کوئی ریاضیاتی فارمولا نہیں۔یہ سماجی عوامل کے زیرِ اثر ہے۔جیسے جبر عصبیت کی عمر کو بڑھا دیتا ہے۔ نئی طاقتور متبادل عصبیت کا ظہور‘ موجود عصبیت کی عمر کو کم کر دیتا ہے۔
عمران خان نے سیاسی عصبیت نہیں‘ایک سیاسی فرقے کو وجود بخشا ہے۔جس طرح ایک عصبیت کو دوسری عصبیت کمزور یا ختم کر تی ہے، 'سیاسی فرقے‘ کو عقل اور منطقی سوچ کا غلبہ ختم یا کمزور کر سکتا ہے۔جیسے جیسے سماج میں سماجی و سیاسی مسائل پر عقلی بنیادوں پر بحث اور مکالمہ ہوگا‘ویسے ویسے وہ خیالات دم توڑتے جائیں گے جوغیر عقلی ہوں گے۔یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ مذہب کی طرح سیاست میں بھی رہنما کے گرد ایک مصنوعی شخصیت کا ہالہ بنایا جا تا ہے‘جو اس کو ایک طلسماتی اور دیومالائی رنگ دے دیتا ہے۔دورِ جدید میں ذرائع ابلاغ کی غیر معمولی ترقی نے اس کام کو آسان بنا دیا ہے۔ماضی میں ایسے لوگوں کو غیر معمولی ثابت کرنے کے لیے داستانیںگھڑی اور پھیلائی جاتی تھی۔ماضی کی شخصیات کے بارے یہ کہانیاں آج بھی پڑھی اورسنائی جاتی ہیں۔ایسا مذہبی روایت میں ہوتا ہے اور غیر مذہبی روایت میں بھی۔مسلمانوں کی مذہبی روایت میں‘ سیاسی مقاصد کے لیے بطورِ خاص‘ فضائل کی روایات اس کثرت سے گھڑی گئیں کہ محدثین نے اسے وضعِ حدیث کے محرکات میں شامل کیا اور تحقیق کر کے بتایا کہ ان میں سے اکثر کی کوئی اصل نہیں۔
عمران خان سے متاثربڑا طبقہ نوجوانوںاور خواتین کا ہے۔ وہ نوجوان جو سیاست میں نو وارد اور سیاسی حرکیات سے قطعاً بے خبر ہیں۔ خواتین کا معاملہ بھی یہی ہے۔ کچھ پڑھے لکھے بھی ہیں جن کی اکثریت طبیعی علوم(Natural Sciences) سے تعلق رکھتی ہے اور سماجیات سے بے خبر ہے۔ ایک طبقہ وہ بھی ہے جو ماضی میں انقلابی تحریکوں سے وابستہ یا ان سے متاثر رہا ہے۔یہ مگر بہت کم ہے۔
'سیاسی فرقہ‘ اپنے اثرات کے اعتبار سے 'سیاسی عصبیت‘ کا متبادل بن سکتا ہے مگر کچھ وقت کے لیے۔اس کا توڑ مکالمہ اور عقل و استدلال کی بنیاد پر سیاسی وسماجی مسائل کا تجزیہ ہے۔ کیا ہمارامیڈیا اور دانشور طبقہ سازشی تھیوری کے بجائے‘زمین حقائق کی بنیاد پر مکالمے کی روایت کو فروغ دے سکتا ہے؟اسی سے عمران خان کا سیاسی مستقبل طے ہو گا۔ عمران خان خود کسی مکالمے کا حصہ نہیں بنیں گے۔ان کا مفاد اس میں ہے کہ وہ خود کو 'مختلف‘ ثابت کریں اور اپنے' سیاسی فرقے‘کو برقرار رکھیں۔
انتخابی عمل زمینی حقائق کے تابع ہو تا ہے۔فرقے‘سیاسی ہوں یا مذہبی احتجاجی تحریک تو اٹھا سکتے ہیں‘انتخابی عمل پر کم ہی اثر انداز ہو پاتے ہیں۔ہم نے بالآخر انتخابات کی طرف جانا ہے۔اس بار دیکھنا ہے کہ وقت اپنی روش پر قائم رہتا ہے یا نئی چال چلتا ہے۔