علامہ اقبال نے برسوں پہلے توجہ دلائی تھی: 'عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے‘۔ یہ بھی اقبال ہی کا شعر ہے:
احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآںکو بنا سکتے ہیں پاژند
'فرمان‘ جہاں سے جاری ہوا، کس کی مجال ہے کہ اُس کی صحت پر انگلی اٹھائے۔ بیچاروں کے پاس تاویل ہی کا واحد راستہ ہے۔ یہاں عقلِ عیار کام آتی اور راستے دکھاتی ہے۔ منطق و کلام کی فضائیں عاجز آجاتی ہیں مگرعقل کی پروازہے کہ ختم نہیں ہوتی۔ اس دوران میں، متن اور شرح میں زمین و آسمان کا فاصلہ حائل ہو جاتا ہے۔ نکتہ رسی کے ایسے ایسے مظاہر سامنے آتے ہیں کہ سنتے اورسر دھنتے جائیے۔
یہ زبان دانی کا نہیں، نیت کا مسئلہ ہے‘ ورنہ سازش اور مداخلت کا فرق سمجھنا مشکل نہیں۔ لغت سے رجوع کیجیے تو ایک لفظ کے بہت سے معانی ہو سکتے ہیں۔ یہ جملے کا دروبست اورکلام کا سیاق و سباق ہے جو طے کرتا ہے کہ زیرِ نظر تحریر یا تقریر میں، لفظ کس مفہوم میں مستعمل ہے۔ پھر یہ حق متکلم ہی کو حاصل ہے کہ وہ اپنے کلام کی مراد کا تعین کرے۔
ترجمان نے واضح لفظوں میں بتایا کہ کوئی سازش نہیں ہوئی۔ امریکی سفارت کار نے غیر سفارتی زبان استعمال کی جو مداخلت کے مترادف ہے۔ اب یہاں 'مداخلت‘ کا جو بھی مطلب ہو، اس میں سازش کسی طور شامل نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بات کہنے والے نے خود ہی 'سازش‘ کی مطلق نفی کردی ہے۔ اب مداخلت کا وہی مطلب لیا جا ئے گا جس میں سازش کا عنصر موجود نہ ہو۔ یہ مطلب کیسے طے ہو سکتا ہے، اس کو چند مثالوں سے سمجھتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں جب بھارت کی فوج عام شہریوں پر ظلم ڈھاتی ہے تو پاکستان احتجاج کرتا ہے۔ بھارت کواس کے نتائج سے خبردار کرتا ہے۔ بھارت کا جواب ہوتا ہے: 'کشمیر بھارت کا داخلی معاملہ ہے۔ پاکستان ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے‘۔ یہ جملہ اپنے مفہوم میں قطعی ہے کہ اس میں کہیں سازش کی بات نہیں کی گئی۔ ایک اور مثال دیکھیے۔ بھارت میں مسلمانوں اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی پر انسانی حقوق کے ادارے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ بھارت کا ردِ عمل ہوتا ہے: 'یہ ہمارے داخلی معاملات میں مداخلت ہے‘۔ تیسری مثال: پاکستان میں جب غیر مسلموں کو انتہا پسندی یا دہشت گردی کا ہدف بنایا جاتا ہے تو امریکہ کی طرف سے ہمیں سخت الفاظ میں نتائج سے ڈرایا جاتا ہے۔ ہمارا جواب کیا ہوتا ہے؟ 'یہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے‘۔ ان تینوں مثالوں میں کہیں سازش کا الزام نہیں لگایا جا رہا۔
اب آئیے زیر بحث وضاحت کی طرف۔ اس میں دو باتیں کہی گئیں۔ ایک یہ کہ سلامتی کونسل کے اعلامیے میں سازش کا ذکر نہیں۔ دوسرا یہ کہ غیرسفارتی زبان مداخلت کے مترادف ہے۔ پہلی بات کوئی انکشاف نہیں۔ یہ سب کو معلوم تھا کہ اعلامیہ اس لفظ سے خالی ہے۔ دوسرے جملے میں خود متکلم نے واضح کر دیا کہ 'یہ مداخلت غیر سفارتی زبان کا استعمال ہے‘۔ گویا یہ کسی اقدام کا بیان نہیں۔ اسی غیرسفارتی زبان کو ناقابلِ قبول اور مداخلت قرار دیتے ہوئے، اس پر ردِ عمل دیا گیا۔
زبان و بیان کے تمام معیارات بتا رہے ہیں کہ متکلم کا مفہوم قطعی ہے۔ اس میں کسی دوسرے معانی کیلئے کوئی گنجائش نہیں۔ زبان و بیان کے ساتھ، مفہوم کے تعین کا دوسرا معیار کلام کے ماہرین کی شرح ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم کلامِ اقبال کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کی ایک صورت ماہرینِ اقبال سے رجوع ہے۔ ان کی بات حتمی نہ سہی لیکن معتبر ضرور ہوتی ہے کہ وہ کلامِ اقبال کے سیاق و سباق اور اصطلاحوں سے بہتر طور پر واقف ہوتے ہیں۔ اس معاملے میں بھی خارجہ پالیسی کے ماہرین بتا رہے ہیں کہ یہ سفارتکاری کا روزمرہ ہے۔ اگر ایک فریق سخت زبان استعمال کرے تو اس کا جواب دے دیا جاتا ہے۔ اس کے لیے سفارتی زبان میں ایک اصطلاح موجود ہے جسے ‘ڈیمارش‘ (demarche) کہتے ہیں۔ کسی علم یا فن میں اصطلاح اسی وقت وجود میں آتی ہے جب ایک مفہوم کو بار بارادا کرنا پڑے۔
اب آئیے 'خط ‘ کی طرف۔ خط کا انکار کسی نے نہیں کیا، خط کی مراد سے انکار کیا گیا ہے۔ یہ کسی نے نہیں کہا کہ سفیر نے کوئی مراسلہ یا خط نہیں بھیجا۔ انکار اس بات کا ہے کہ کسی امریکی عہدیدار نے خط لکھ کر ہمیں دھمکی دی ہے۔ یہ بات اب پوری طرح ثابت ہوگئی کہ یہ 'خط‘ دراصل ہمارے سفیر نے بھیجا جو اس ملاقات کی روداد پر مشتمل ہے جو امریکہ کے ایک کم درجے کے سفارتکار کے ساتھ ہوئی۔
اس سارے قضیے میں کچھ پُراسرار نہیں جس پر سازش کا اطلاق ہوتا ہو یا یہ حکومت کی تبدیلی کا کوئی بیرونی منصوبہ ہو۔ بلاشبہ یہ ایک منصوبہ تھا مگر وہ جو متحدہ اپوزیشن نے اندرونِ ملک تیار کیا۔ اپوزیشن ایک مدت سے عمران خان صاحب کی حکومت کو ختم کر نا چاہتی تھی۔ اس پر ایک سے زیادہ منصوبے بنائے گئے۔ ان میں لانگ مارچ بھی شامل تھا۔ یہ ناکام ہوا تو پھر قومی اسمبلی کے اندر تبدیلی کے متبادل کو اختیار کر لیا گیا۔ ایک تیسرا منصوبہ بھی تھا جو مولانا فضل الرحمن پہلے دن سے پیش کر رہے تھے۔ یہ اجتماعی استعفوں کا منصوبہ تھا۔
یہ سب کچھ اعلانیہ تھا اور اس میں کچھ چھپا ہوا نہیں تھا جسے بیرونی سازش کہا جائے۔ سازش اس منصوبے کو کہتے ہیں جو خفیہ ہو۔ سب جانتے ہیں کہ زرداری صاحب پہلے دن سے پارلیمنٹ کے اندر سے تبدیلی کے حق میں تھے اور نون لیگ عوام طاقت کے زور سے حکومت کو ختم کرنا چاہتی تھی۔ جب عوامی تبدیلی کا متبادل ناکام ہوا اور اجتماعی استعفوں پر اتفاق نہ ہو سکا تو تمام جماعتیں عدم اعتماد کے لیے یکسو ہو گئیں۔
یہ ایک سیاسی عمل ہے جس کو غلط کہا جا سکتا ہے اور درست بھی۔ جیسے بعض لوگ اس رائے کا اظہارکرتے ہیں کہ خان صاحب کی حکومت کو پانچ سال پورے کرنا چاہیے تھے۔ عدم اعتماد ایک آئینی طریقہ ہونے کے باوجود سیاسی اعتبار سے مناسب نہیں تھا۔ اب اس پر گفتگو ہو سکتی ہے اور کوئی موقف اختیار کیا جا سکتا ہے۔ سیاست میں اسی چلن کو فروغ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سازش کے بیانیے سے صرف ان لوگوں کو مطمئن کیا جا سکتا ہے جو آپ پر ایمان لائے ہوں۔ جیسے مولانا فضل الرحمن عمران خان صاحب کے اقتدار میں آنے کو یہودی سازش کہتے رہے۔ اسے ان کے غالی معتقدین کے علاوہ کسی نے نہیں مانا۔
سماج کو بالغ نظر بنانے کے لیے لازم ہے کہ عوام کو فکری و گروہی تعصبات سے بلند کیا جائے تاکہ وہ کلٹ (cult) نہ بنیں۔ کلٹ کا حصہ بننے کا پہلا نتیجہ عقل و ہوش سے بیگانگی ہے۔ سیاست اپنی حقیقت میں 'تدبیر‘ ہے۔ اس کا مطلب عقل کے ساتھ الجھنوں کا سلجھانا ہے۔ جہاں یہ طرزِ سیاست عام ہو، وہاں سازش کے امکان پر سب سے آخر میں غور کیا جاتا ہے۔ جب کسی بات کی عقلی توجیہ ممکن نہیں رہتی تو پھران دیکھے عوامل زیرِ بحث آتے ہیں اور ان میں ایک سازش کا امکان بھی ہوتا ہے۔
اسی لیے گزارش ہے کہ اس بحث میں 'سازش‘ اور 'مداخلت‘ کا مفہوم طے کرنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ یہ زبان و بیان کے عجز کا نہیں، نیت کا معاملہ ہے۔ متکلم کی بات اپنے مفہوم میں قطعی ہے۔ اس کا مگر کیا کیا جائے کہ 'عقل عیار ہے، سو بھیس بدل لیتی ہے‘۔