سیاسی تبدیلی، اجتماعی جدوجہد کے نتیجے میں آتی ہے۔ معلوم انسانی تاریخ میں،جب لوگ اس مقصدکے لیے منظم ہو ئے تو اس کی تین صورتیں سامنے آئیں: مسلح گروہ، سیاسی جماعت اور سیاسی فرقہ۔
قبائلی معاشرت میں تو تیر وتلوار ہی تھے جن کی مدد سے اقتدار حاصل کیا جاتا تھا۔سلطنتوںکے دور تک یہی ہو تا رہا۔ جسے فاتحِ عالم بننے کا شوق ہوتا ،وہ بڑی فوج تیار کرتا اور ہتھیار ذخیرہ کرتا۔ دورِ جدید میں ،جب انقلاب کا تصور مقبول ہوا توسیاسی تبدیلی کے لیے مسلح جدوجہد کا طریقہ ایک بار پھر اختیار کر لیا گیا۔ جمہوریت اگر چہ انسانی تمدن کا حصہ بن چکی تھی لیکن اس کے باوجود،غیر ملکی جارحیت یا قبضے کے خلاف ہی نہیں، ایک ملک میں داخلی سطح پر تبدیلی کے لیے بھی مسلح جد وجہد کو جائز سمجھا گیا۔
اشتراکی اوربعض اسلام پسندوں(Islamists) نے اسے بطور حکمتِ عملی اختیار کیایا نظری طور پر اس کو درست قرار دیا۔ ان کا سامنا چونکہ ریاست سے تھا جس کی قوت غیر معمولی ہوتی ہے،اس لیے، گوریلا جنگ اور خفیہ تنظیم سازی کی حکمتِ عملی اپنائی گئی۔یہ تصور صرف اشتراکیوں یا اسلام پسندوں ہی تک محدود نہیں تھا بلکہ قوم پرست گروہوں نے بھی اسے اپنا یا۔مثال کے طور پر،نیلسن منڈیلا، جب کالوں کی نسل کشی کے خلاف متحرک ہوئے تو ابتدا میںانہوں نے یہی طریقہ اختیار کیا۔وہ بعد میں سیاسی جد وجہدکی طرف آئے۔فلسطین میں پی ایل او اور حماس اور ہمارے ہاںتحریکِ طالبان پاکستان نے بھی مسلح جد وجہد کاراستہ اپنایا۔
سیاسی تبدیلی یااقتدار تک رسائی کے لیے، اجتماعی جد وجہد کا دوسرا بڑا مظہر سیاسی جماعت ہے۔سیاسی جماعت ایک منشور یا نظریے کی بنیاد پر قائم ہو تی ،لوگوں کو منظم کر تی اور عوام کی تائید سے ،سیاسی طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے،اقتداریا کسی دوسرے سیاسی مقصد تک پہنچتی ہے۔اگر کہیں کوئی آئین یا دستور موجود ہے تووہ اس کی پاسداری کرتے ہوئے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچاتی اورآئین و قانون کی مدد سے، نظام میں موجود تبدیلی کے راستوں کو اپناتے ہوئے،حصولِ اقتدار کے لیے کوشش کرتی ہے۔
سیاسی جماعت مسلح جد وجہد پر یقین نہیں رکھتی۔ وہ معاشرے میں ہیجان پیدا نہیں کرتی۔ وہ رائے عامہ کو ہموار کرتی اور سماجی دباؤ کی قوت سے اقتدار تک پہنچتی یا اہلِ اقتدار سے اپنی بات منوانے پر یقین رکھتی ہے۔ دلیل اس کا اصل ہتھیارہوتا ہے۔ وہ ذہنوں کو متاثر کرتے ہوئے،لوگوں کو اپنا ہم خیال بناتی ہے۔ وہ جو حق اپنے لیے مانتی ہے، دوسرے گروہوں کو بھی دیتی ہے۔وہ دوسری سیاسی جماعتوں اور قوتوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر سماجی تعلق استوار رکھتی اور اختلاف کے باوجود،دوسروں کا احترام کرتی ہے۔ سیاسی جماعت کو ایک منشور اور لائحہ عمل ہوتا ہے جواعلانیہ ہو تا ہے۔ وہ خفیہ جد وجہد کی قائل نہیں ہوتی۔
آل انڈیا مسلم لیگ اس کی ایک مثال ہے۔یہ ایک غیر ملکی غاصب قوت سے آزادی کے لیے،اس کے دئیے ہوئے دستور کے تحت،جد وجہد کرتی رہی۔ داخلی سطح پر تبدیلی کے لیے، دنیا بھر کی سیاسی جماعتوں کی مثال دی جا سکتی ہے۔ سیاسی جماعت ،سیاسی تبدیلی کے لیے اختیار کی گئی نسبتاً نئی صورت ہے۔ یہ اُس بڑی تبدیلی کا ایک ضمنی نتیجہ ہے جسے جمہوریت کہتے ہیں۔ جمہوری کلچر نے جن سیاسی اداروں کو جنم دیا،سیاسی جماعت،ان میں سے ایک ہے۔
تیسری صورت وہ ہے جسے 'سیاسی فرقہ‘(Cult) کہنا چاہیے۔اردو میں'کلٹ‘ کاترجمہ'فرقہ‘کیا جاتا ہے جو اس کے مفہوم سے قریب تر ہے مگراس کوپوری طرح بیان نہیں کرتا۔مجرد معنوں میں، یہ اس مذہبی گروہ کے لیے مستعمل ہے جو ایک بڑے مذہب کی مرکزی شاہراہ سے الگ،پگڈنڈی کی صورت میں پایا جاتا ہے۔عام طور پر کلٹ کسی بڑے مذہب کی کوکھ سے جنم لیتے اور وقت کے ساتھ ایک منفرد حیثیت اختیار کر لیتے ہیں جسے اس مذہب کا مرکزی دھارا قبول نہیں کرتا۔اس کی اساس کوئی مذہبی تعبیر ہو سکتی ہے اور کوئی فرد بھی۔ہم اگر اس خطے اور اسلام کے حوالے سے دیکھیں تو گوہر شاہی کی مثال پیش کی جا سکتی ہے۔
ایک مذہب کے مرکزی دھارے میں بھی کلٹ بن جاتے ہیں۔ یہ اکثر شخصیات کے گرد گھومتے ہیں۔ کسی کے علم، روحانیت، خطابت یا کسی اور جوہر کی بنیاد پر لوگ ایک فرد کے گرد جمع ہوتے اور پھر اسے وہ حیثیت دے دیتے ہیں جو حقیقی مذہب کے بانی کو حاصل ہوتی ہے۔وہ بظاہر خود کو اسی مذہب کا علم بردار کہتے ہیں لیکن دراصل وہ کسی اور کے پیرو کار ہوتے ہیں۔شخصی تقلید اور پیری مریدی کا ادارہ اکثر کلٹ کو جنم دیتے ہیں۔
مذہبی کلٹ پر بہت کچھ لکھا گیا لیکن سیاسی کلٹ پر کم ہی تحقیق ہوئی ہے۔محققین نے بتایا ہے کہ کسی معاشرے میں مذہبی کلٹ کیسے وجود میں آتے ہیں اور اسے کس طرح متاثر کرتے ہیں۔عام طور پر اس کے تین ماڈل بیان کیے گئے ہیں جن میں ایک نفسیاتی ہے۔ایک آدمی خود کسی نفسیاتی مرض کا شکار ہوتا ہے، جیسے نرگسیت یا خود فریبی۔اس بنیاد پر وہ کچھ دعوے کرتا ہے۔معاشرے کے اکثر نفسیاتی مریض اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔وہ ایسے لوگوں کا روحانی علاج کرتا ہے۔مذہبی کلٹ وجود میں آنے کی سب سے بڑی وجہ نفسیاتی ہے جسے ہمارے ہاںروحانی کہاجاتا ہے۔
سیاست میںیہ عمل ایک اور طرح سے ہوتا ہے۔اس کے اسباب اور نتائج وہی ہوتے ہیں جو مذہبی کلٹ کے ہوتے ہیں۔یعنی دلیل کی موت اور سیاسی توہم پرستی۔ سیاست میں بھی ایک فرد کو اسی طرح ایک مافوق الفطرت حیثیت دی جاتی ہے اوریہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی غیر معمولی شخصیت سے تمام مسائل حل کر دے گا۔یہاں بھی دلیل کا کوئی کردار نہیں ہوتا جس طرح مذہب میں نہیں ہو تا۔جن لوگوں نے 'سیاسی فرقہ واریت‘ کو موضوع بنایا ہے،ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک غیرفطری صورت ہے اور اس خلا کا نتیجہ ہے جو جمہوریت اور سیاست کی کمزوریوں سے جنم لیتا ہے۔
جس طرح مذہب میں کلٹ کے بانی کے بارے میں قصے پھیلائے جاتے ہیں،اسی طرح سیاست میں بھی کلٹ کے بانی کو ہیروثابت کرنے کے لیے بے بنیاد داستانیں پھیلائی جاتی ہیں۔سیاست میں بھی سادہ لوح یامایوسی کا شکار لوگ ان کی طرف رجو ع کرتے ہیں جیسے مذہب میں ہو تا ہے۔سیاست میں یہ اصطلاح سب سے پہلے 1957 ء میں روسی راہنما خروشیف نے سٹالن کے بارے میں استعمال کی تھی۔اشتراکیت کی تاریخ میں سٹالن کو ایک کلٹ کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی جس پر خروشیف نے تنقید کی تھی۔اشتراکیت بھی ایک سیاسی رومان تھا،ایک خیالی جنت کا تصور۔سیاسی کلٹ، مذہب،قوم پرستی،حبِ وطن جیسے عناصر سے ترتیب پاتا ہے،جسے جھوٹے قصوں، پروپیگنڈے اور عوامی اجتماعات کی مدد سے پھیلایا جاتاہے۔
سیاست میں ضرورت ہے کہ پاپولزم اورکلٹ کی تشکیل کے عمل کو زیادہ توجہ سے سمجھا جائے اور اس باب میں معاشرے کو تعلیم یافتہ بنایا جائے۔جس طرح مذہب کو اپنی اصل پر کھڑا رکھنے کے لیے لازم ہے کہ اسے فرقوں اور ایسی لوگوں سے بچایا جائے جو اس کے نام کو استعمال کرتے ہوئے عوام کی گمراہی کا باعث بنتے ہیں،اسی طرح لازم ہے کہ سیاست کو اپنی اصل پر قائم رکھنے کے لیے سیاسی فرقہ واریت کی نفی کی جائے اور سیاسی جماعتوں کو مضبوط اور بہتر بنایا جا ئے۔سیاسی شعور اورجمہوری اصولوں پر منظم سیاسی جماعتیں ہی معاشرے کو سیاسی فرقوں کے عذاب سے بچا سکتی ہیں جو مسلسل ہیجان میں مبتلا رکھ کر،معاشروں کو برباد کر دیتے ہیں۔