حکومت نے کمیشن بنانے کااعلان کیا۔پی ٹی آئی نے تفصیلات جانے بغیر مسترد کر دیا۔یہ ایک نہ ختم ہو نے والا سلسلہ ہے‘اگر سیاست کی ڈگر یہی رہی۔اسے اب تبدیل ہونا چاہیے۔
سازش کے باب میں جو کچھ کہا جا سکتا تھا‘کہا جا چکا۔خان صاحب کا مقدمہ اور دلائل پوری طرح ہمارے سامنے ہیں۔انہی کو بار بار دہرایا جا رہا ہے۔دوسری طرف حکومت نہیں‘ریاست ہے جس کا موقف بھی واضح ہے۔اس دوٹوک رائے کے بعد‘ اس میں مزید اضافہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس معاملے میں مزید کچھ کہنا‘محض راکھ کریدنا ہے‘اِلا یہ کہ کوئی فریق نئی شہادت سامنے لے آئے۔ فاکس نیوز پہ کہی گئی بات کا تعلق امریکہ کی داخلی سیاست سے ہے۔اسے اگر کوئی وزن دیا جاسکتا ہے تو صرف اتنا کہ یہ ایک تجزیہ کار کی رائے ہے۔ایسی باتیں کہی جا تی رہیں گی جن سے اصل واقعے کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس لیے کمیشن کا قیام اس مسئلے کو حل نہیں کرے گا۔سازش‘ اب عمران خان صاحب کی سیاست کی اساسی اینٹ ہے۔اس کے نکلنے کا مطلب پوری عمارت کا گر جا نا ہے لہٰذا وہ اس معاملے میں کوئی بات قبول نہیں کریں گے۔
اس لیے‘سازش کی بحث سے نکل کر‘اب ہمیں ملک کو درپیش حقیقی مسائل کی طرف آنا ہو گا۔اہلِ سیاست کے ساتھ میڈیا کو بھی سوچنا ہو گا کہ بطور قوم ہم وقت گزاری کا کلچر نہیں اپنا سکتے۔ٹی وی سکرین پر ایک بے مغز گفتگوجا ری ہے‘ جس کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں کہ کچھ گرد مزید اڑا لی جائے۔ عوام کو خوں آلود چہروں کی نہیں‘شفاف ذہنوں کی ضرورت ہے جو کسی راستے‘کسی منزل کاپتا دے سکیں۔ آج کوئی سیاسی جماعت ایسی نہیں جو اقتدار میں نہ رہی ہو۔عمران خان نے قوم سے سو دن مانگے تھے۔انہیں کم و بیش چار سال ملے۔پانچ سال تو پہلے بھی کسی وزیراعظم کو نہیں ملے۔ خان صاحب کا وژن‘حکمتِ عملی‘ جو اثاثہ‘ ان کے پاس تھا‘سامنے آ چکا۔ یہی معاملہ دوسری جماعتوں کا بھی ہے۔ انہیں ایک سے زیادہ مواقع ملے۔ ان کے پاس بھی جو نظریہ‘مہارت تھی‘ عوام دیکھ چکے۔ اب ضرورت ہے کہ اس کا موازنہ کیا جائے۔بحث اس پہ ہونی چاہیے کہ ان تجربات کی روشنی میں‘عوام کا آئندہ انتخاب کسے بننا چاہیے؟
بنیادی سوال کچھ اورہیں۔جیسے پاکستان کی خارجہ پالیسی کیاہونی چاہیے؟ اس سوال سے متصل بہت سے سوالات ہیں:کیا خارجہ پالیسی گلی بازار کا موضوع ہے؟عمران خان کی خارجہ پالیسی‘کیا ماضی کی حکومتوں سے مختلف تھی؟ تھی تو کیسے؟ملک کی خارجہ پالیسی کب سے پارلیمان یا کابینہ میں بن رہی ہے؟ خارجہ امور میں پالیسی سازی کا حقیقی مرکز کہاں ہے؟ پاکستان کیا امریکہ یا مغرب سے بے نیاز ہو سکتا ہے؟دنیا میں امریکہ کا متبادل کیا ہے؟پاکستان کے مفادات کس بات کے متقاضی ہیں؟ہماری معیشت کہاں کھڑی ہے؟ زرِ مبادلہ کے ذخائر‘اس وقت کتنے ہیں؟ عمران خان کی معاشی پالیسی کیا تھی اور اس سے پاکستان کو فائدہ ہوا یا نقصان؟یہ پالیسی کیا ماضی سے مختلف تھی؟ اگر تھی تو کیسے؟معیشت کی بہتری کا تعلق‘ معاشی نظریے سے ہے‘پالیسی سازی سے ہے یانفاذ کی صلاحیت سے؟ اس باب میں سیاسی جماعتوں کا تقابل کیا بتا تا ہے؟
جوہری سوال سیاسی کلچر کا ہے۔تحریکِ انصاف ایک طرف کھڑی ہے ا ور دیگر تمام جماعتیں ایک طرف۔ان کے مابین کوئی رابطہ نہیں۔عمران خان صاحب نے سیاست کو حق و باطل کا معرکہ بنا دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حق پر ہیں اور دوسرے باطل پر۔اگر وہ دوسروں سے ہاتھ ملائیں گے تو یہ باطل سے مفاہمت ہو گا اور وہ اس پر آمادہ نہیں۔سوال یہ ہے کہ عوام کو اس طرح تقسیم کر دینا کیاقومی وحدت کے لیے مفید ہے؟ تحریکِ انصاف کو اگر سب سے بڑی جماعت مان لیا جائے‘ تو بھی وہ مجموعی آبادی کا اقلیتی گروہ ہے۔کم و بیش ستر فیصد آبادی دوسری سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہے۔ کیا یہ سمجھاجائے کہ عوام کا اتنا بڑا حصہ باطل کے ساتھ کھڑا ہے؟کیا اس نقطہ نظر کے ساتھ کوئی سیاست کی جا سکتی ہے؟
آج سیاسی نظام‘بالخصوص انتخابی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ کچھ سوالات بنیادی ہیں۔جیسے پارلیمانی جمہوریت اگر ناکام ہے تو اس کا متبادل کیا ہے؟ متناسب نمائندگی جیسے تصورات پر کیوں بات نہیں ہو رہی؟ سیاسی جماعتوں کے موجودہ ناقص ڈھانچے کیسے تبدیل کیے جائیں؟ بعض سوالات عملی ہیں۔جیسے انتخابی عمل میں پیسے کاکردار کیسے کم ہو سکتا ہے؟ انتخابی عمل میں الیکٹرانک مشینوں کا استعمال‘کیا ممکن ہے؟انتخابات کب ہو نے چاہئیں؟ سب سے اہم سوال تو معاشرے کاہے۔معاشرہ ایک نظامِ اقدار ہی سے قائم رہ سکتا ہے۔ اسے آج شدید خطرات لاحق ہو چکے۔ میں نے جھوٹ کو سیاست و سماج میں اس طرح سرایت کرتے کبھی نہیں دیکھا۔ یوں محسوس ہوتا ہے جسے معاشرے کا ایک قابلِ ذکرحصہ‘ ایک آسیب کی گرفت میں ہے۔ وہ اسی کے زیرِ اثر سوچتا اورعمل کر تا ہے۔محبت ہے تو بغیر جواز کے۔ نفرت ہے تو بغیر دلیل کے۔اخلاقیات اور دلیل کو جیسے طلاق دے دی گئی ہو۔اس پر بات نہیں ہو رہی۔اہلِ سیاست کو سب سے زیادہ اس جانب متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔
ان سوالات کے جواب ایک جماعت یا گروہ نہیں دے سکتے۔عوام گناہ گار ہیں یا صالح‘حق کے ساتھ کھڑے ہیں یا باطل کے ساتھ‘ان سوالات کے وہی جواب قابلِ عمل ہو سکتے ہیں جنہیں عوام کی اکثریت قبول کرے۔اس لیے مکالمہ ضروری ہے۔یہ بات تحریکِ انصاف کی قیادت کو سمجھنی چاہیے۔ لازم ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے مابین ایک تعمیری مباحثے کا آغاز ہو اور ابتدا انتخابی اصلاحات سے ہو۔ میڈیا کو بھی چاہیے کہ اب سازش جیسے فروعی معاملات سے نکلے اور قوم کے حقیقی مسائل کو موضوع بنائے۔ میڈیا جب شیخ رشید صاحب جیسے سیاست دانوں کوان کے سیاسی قد کاٹھ اور وزن سے بڑھ کر وقت دیتا ہے تودراصل سیاست کو غیر سنجیدہ بنانے میں ایک کردار اداکر تا ہے۔جب ریاست اور معاشرہ‘دونوں خطرات میں گھرے ہوں تو تماش بینی ایک قومی جرم بن جاتا ہے۔
عمران خان صاحب کی تو سوچی سمجھی حکمتِ عملی ہے کہ قوم سنجیدہ مباحث سے دور رہے۔اس پر ہیجان طاری رہے اور وہ سازشی نظریات میں الجھی رہے۔ قومی غیرت اور آزادی کے مبہم تصورات سے نوجوانوں کا جذباتی استحصال کیا جائے۔ گورننس جیسے مسائل موضوع نہ بنیں کہ کہیں ان کی کارکردگی سیاسی ایجنڈے کا حصہ نہ بن جائے۔ حکومت کو لیکن کچھ کر کے دکھانا ہے۔وہ غیر ضروری مباحث کی متحمل نہیںہو سکتی۔اسے معیشت کو سدھارنااور قوم میں امید پیدا کرنی ہے۔ یہ سیاسی لوگوں کا اجتماع ہے اور اسے بالآخر عوام کے پاس جا نا ہے۔
میرا خیال ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف صاحب کو قوم سے خطاب کرنا چاہیے اور قومی مفاہمت کا ایک فارمولا سامنے لانا چاہیے۔قومی مسائل پر کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد بھی ہو سکتاہے جس میں تحریکِ انصاف کو بھی مدعو کیا جائے۔اس کانفرنس کے ایجنڈے میں‘سیاسی و معاشی استحکام‘انتخابی اصلاحات اور اگلے عام انتخابات کی تاریخ کو شامل کیا جائے۔تحریکِ انصاف کو اب قومی دھارے کا حصہ بننا چاہیے کہ اسی میں سب کا بھلاہے۔ریاستی اداروں سے غیر ضروری مخاصمت اسے تنہا کر دے گی۔تنہائی‘ فرد ہو جماعت‘ اسے نفسیاتی مریض بنا دیتی ہے۔ ایسا مریض نہ صرف اپنی ذات کو تباہ کرتا ہے بلکہ پورے محلے کے لیے اذیت کاباعث بن جا تا ہے۔ تحریکِ انصاف اگر قومی مکالمے کا حصہ نہ بنے تو اس کے مقدر کا فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جائے۔