ہمارے ہاں اینٹی امریکن ازم کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود پاکستان کی تاریخ۔
پہلی جنگِ عظیم کے بعد‘ جس جہان ِنو کی پیدائش ہو ئی‘1947ء تک پہنچتے پہنچتے ‘اس کے خدو خال بڑی حد تک واضح ہو چکے تھے۔سلطنتوں کا عہد تمام ہوا تو جس نئے ورلڈآرڈرکی بنیاد رکھی گئی‘اس میں مرکزیت اقوام ِ متحدہ کو حاصل تھی اور اقوامِ متحدہ پانچ بڑی طاقتوں کی مٹھی میں تھی۔ان میں امریکہ دراصل برطانیہ اور پورپ کا نیا تہذیبی و معاشی نمائندہ تھا۔یہ سرمایہ دارانہ نظام کا علم بردار تھا۔ سوویت یونین بھی ایک عالمی طاقت تھی اور وہ اشتراکیت کی نمائندگی کر رہی تھی۔
سرمایہ داری اور اشتراکیت‘نظریہ بھی ہیں اور نظام بھی۔نظام مقامی ہو سکتا ہے‘ نظریہ نہیں۔ان دونوں میں ایک عالمگیر نظریاتی تحریک بننے کے تمام عناصر موجود تھے۔ اسی نظریاتی کشمکش کو بنیاد بنا کر امریکہ اور سوویت یونین نے دنیا کو مسخر کرنا چاہا۔اس طرح دنیا دو نظریاتی کیمپوں میں تقسیم ہو نے لگی۔کشمکش کے اس دور کو سرد جنگ کا عہد کہا جاتا ہے۔تاریخی پیمانے سے ‘ اس کا آغاز 1949ء میں ہوا اوراختتام1989 ء میں جب سوویت یونین بکھرااور دنیا کے نقشے سے غائب ہو گیا۔ اس دوران اشتراکیت کی ایک تعبیر 'ماؤازم‘ کے نام سے بھی موجود تھی جس کا مرکز چین تھا؛تاہم چین روس سے گریزاں تھا۔
جب یہ نظریاتی کشمکش اپنے عروج پر تھی توبرصغیر پاک و ہند میں بھی اس کی صدائے بازگشت سنی گئی۔یہاں بھی آل انڈیا کمیونسٹ پارٹی بنی اور اس خطے کو ایک اشتراکی ریاست بنانے کی جدوجہدشروع ہوئی۔ابتدا میں یہ کام زیادہ تر دانش اور نظریے کی سطح پر تھا۔ادب کو ابلاغ کا ذریعہ بنایا گیا۔انجمن ترقی پسند مصنفین قائم ہوئی اور اردو زبان میں اشتراکی لٹریچر وجود میں آیا۔اس دور میں ادب کے تمام بڑے نام اس تحر یک سے وابستہ ہو گئے۔تقسیم ہوئی تو ہر شے منقسم ہوگئی۔ کمیو نسٹ پارٹی اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے بھی دو حصے ہو گئے۔
یہ سب سوویت یونین کے حامی اور امریکہ کے خلاف تھے۔پاکستان میں اینٹی امریکن ازم کی پہلی تحریک بائیں بازو کے ادیبوں نے اٹھائی۔یہ تحریک صرف اشتراکی فکر کے ان وابستگان تک محدود نہیں رہی جو اشتراکیت کو مذہب بیزار تحریک سمجھتے تھے اور اشتراکی ہونے کے لیے ملحد ہونا ضروری قراردیتے تھے۔بہت سے مذہبی لوگ بھی اس سے متاثر تھے۔ان میں مولانا عبیداللہ سندھی‘حسرت موہانی اورمولانا آزاد سبحانی کے نام‘لیے جا سکتے ہیں۔مرکزی سیاسی دھاروں میں جواہر لال نہرو بھی اشتراکی خیالات سے بہت متاثر تھے۔
بائیں بازو کے لوگوں نے‘یہاں اشتراکی ا نقلاب برپا کرنے کی پوری کوشش کی۔ ان کی یہ تحریک مگر عوام میں پذیرائی حاصل نہ کر سکی۔ایسا کیوں ہوا؟ ڈاکٹر لال خان نے اپنی کتاب میں‘بائیں بازو کے فکری تناظر میں‘ اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔تاریخ یہ ہے کہ اشتراکی تحریک کے علم برداروں نے تعلیمی اداروں کو مرکز بنایا ‘ان کا خیال تھا کہ اگرایک طرف وہ نئی نسل کو متاثر کرنے میں کامیاب رہے اور دوسری طرف کسانوں اور مزدوروں میں‘اس کے حق میں تحریک اُٹھ گئی توپاکستان اشتراکی ریاست بن جائے گی۔
یہاں اشتراکیت کے مقابلے میں‘سرمایہ داری کی تائید میں کوئی تحریک نہیں اٹھی مگر اسی دوران ‘اسی خطے میںایک نئی فکری سیاسی تحریک برپا رہی تھی جس کا کہنا تھا کہ وہ الہامی ہدایت سے فکری غذا لیتی ہے۔اس کا امریکہ یا سرمایہ دارانہ نظام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔یہی وہ تحریک ہے جسے بعد میں 'اسلام ازم' یا پولیٹیکل اسلام کہا گیا۔اس نے بھی انہی خطوط پر کام شروع کیا جس پر اشتراکی کر رہے تھے۔قومی سیاست میں اس کی نمائندگی جماعت اسلامی ا ورتعلیم اداروں میں اسلامی جمعیت طلبہ کرتی تھی۔
اسلام پسنداشتراکیت کو پاکستان کیلئے بڑا خطرہ سمجھتے تھے‘اس لیے سرمایہ دارانہ نظام ان کا بنیادی ہدف نہیں تھا۔اس دور میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ جو اشتراکیت کا مخالف ہے‘وہ امریکہ نواز اور سرمایہ داری کاحامی ہے۔یہی پروپیگنڈاجماعت اسلامی‘اسلامی جمعیت طلبہ اور مولانا مودودی کے خلاف بھی کیا گیا۔اشتراکیت چونکہ نجی ملکیت کی نفی کرتی ہے ‘اس لیے بائیں بازو والے اس حق میں تھے کہ پاکستان بننے کے بعد تمام بڑی بڑی جاگیریں بحقِ سرکار ضبط اورپھر غریب کسانوں میں تقسیم کر دی جائیں۔ مولانا مودودی چونکہ یہ رائے رکھتے تھے کہ اسلام نجی ملکیت کا مخالف نہیں ہے‘اس لیے انکی اس رائے کو اس طرح پیش کیا گیا جیسے وہ جاگیرداروں کے حامی ہیں۔جاگیرداروں نے ان کی اس رائے کو اپنے حق میں استعمال بھی کیا۔
اینٹی امریکن ازم کا پہلا دور نظریاتی کشمکش کاتھا جو 1960ء کی دہائی میں اپنے اختتام کو پہنچا۔اس میں اشتراکیت کے حامیوںکو شکست ہوئی۔اس کی ایک بڑی وجہ ریاستی پالیسی بھی تھی جس نے سرد جنگ کے دنوں میں امریکی کیمپ کا انتخاب کیا۔1960ء کی دہائی کے آخر میں بھٹو صاحب قومی سیاست کے افق پر نمودار ہوئے۔ وہ اشتراکی خیالات سے متاثر تھے۔ انہوں نے اس فکر کو عوامی زبان دی اور اسے ایک عوامی تحریک میں بدل دیا۔ بھٹو صاحب نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں اینٹی امریکن ازم کا ہتھیار اپنے حق میں استعمال کرنے کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوئے۔یوں اینٹی امریکن کا دوسرا دور تمام ہوا۔
تیسرے دور کا آغاز اس وقت ہوا جب امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف ایک عالمی جنگ شروع کی۔ چونکہ دوسری طرف اسلام پسند تھے‘اس لیے اب مذہبی طبقے نے اینٹی امریکن ازم کا جھنڈا اٹھا لیا۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام‘ اس طبقے کی نمائندگی کر رہی تھیں۔ اس دور میں اشتراکیت بطور فکری تحریک آخری سانسیں لے رہی تھی۔ چند لوگوں نے چاہا کہ اس کا چراغ روشن رکھیں لیکن اب اس کے لیے عوامی روغن میسر نہیں تھا۔ سوویت یونین کا خاتمہ ہوا تو یہ تحریک ہر طرح کی مادی‘ نظری اور سیاسی حمایت سے محروم ہو گئی۔ یوں اس کا تیسرا دور اپنے اختتام کو پہنچا۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سرد جنگ کے دنوں میں مذہبی طبقہ امریکہ کے ساتھ تھا یا اس کا مخالف نہیں تھا۔ یہ تاریخی طور پر غلط ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے ہزاروی گروپ نے جس میں مفتی محمود صاحب بھی شامل تھے‘ 1970ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا‘ حالانکہ جماعت اسلامی نے اسے اسلام اور کفر (سوشلزم) کا معرکہ بنادیا گیا تھا۔ استعمار اور امریکہ دشمنی مولانا فضل الرحمن کے خون میں ہے۔
چوتھا دور اب شروع ہوا ہے جس کی بنیاد عمران خان نے رکھی۔ کیا یہ تحریک کامیاب ہو گی؟ سروے بتاتے ہیں کہ پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات اوسطاً بہتر فیصد رہے ہیں۔ گیلپ کا ایک سروے دلچسپ ہے‘ اگرچہ اس طرح کے سروے عوامی رائے کی لازم نہیں کہ درست ترجمانی کریں۔ اس کے مطابق آج اکثریت (74 فیصد) امریکہ کو پاکستان کا دشمن سمجھتی ہے لیکن صرف ایک اقلیت (36 فیصد) یہ سمجھتی ہے کہ خان کی اقتدار سے علیحدگی کسی امریکی سازش کا نتیجہ ہے۔ اکثریت نے اس موقف کو رد کیا ہے۔ اس چوتھے مرحلے میں اینٹی امریکن ازم‘ کوئی فکری تحریک ہے نہ سیاسی‘ محض اس مفروضے پر کھڑی ہے کہ عمران خان کی حکومت امریکہ نے ختم کی۔ ماضی میں کوئی امریکہ مخالف تحریک کامیاب نہیں ہوئی۔ دنیا سے اب سرد جنگ کا خاتمہ ہو چکا۔ نظریہ اب اہم نہیں رہا۔ ملک اپنے سود و زیاں کی بنیاد پر خارجہ پالیسی طے کرتے ہیں۔ عمران خان باسی کڑی کو ابال دینا چاہتے ہیں۔ دیکھیے‘ اس بار کیا نتیجہ نکلتا ہے۔