فکری پراگندگی اپنے عروج پر ہے۔ ستم در ستم یہ کہ مداوے کی کوئی صورت بھی دکھائی نہیں دیتی۔ اخبارات‘ ٹی وی چینلز کے پاس ہر مرض کا نسخہ ہے مگر اس بیماری کا کوئی علاج نہیں۔
میں نے اپنے ایک خوش ذوق دوست سے سوال کیا: ''کیا کوئی ایسا کالم ہے‘ تمہیں جس کا انتظاررہتا ہے؟‘‘ اس نے ادنیٰ توقف کیے بغیرجواب دیا : 'نہیں‘۔ یہ سوال جب میں نے اپنے سامنے رکھا تو میرا جواب بھی اس سے مختلف نہیں تھا۔ ٹی وی پروگراموں کا معاملہ بھی یہی ہے۔ نہ دل کی بے کلی کا علاج‘ نہ ذہن میں اٹھتے سوالات کے جوابات۔ نہ موضوع میں سنجیدگی‘ نہ متکلم میں۔ مناظرہ ہے اور وہ بھی ادنیٰ درجے کا۔
پچیس‘ تیس سال پہلے ایسا نہیں تھا۔ کالم پڑھے جاتے تھے اور لوگ انتظار بھی کرتے تھے۔ روز مرہ سیاست بھی بہت بہتر تھی۔ 1980ء کے آخری ماہ و سال میں مَیں ایک سرکاری دفتر میں معمولی سی ملازمت کرتا تھا۔ یہ محمد صلاح الدین شہید کے ہفت روزہ 'تکبیر‘ کا دور تھا۔ میرے ایک ذی علم دوست منیر احمد خلیلی صاحب اس سے وابستہ تھے۔ 'تکبیر‘ جمعہ کو نکلتا تھا۔ خلیلی صاحب اِس دن بطورِ خاص گھر سے نکلتے‘ ایک ہاکر سے رسالہ لیتے اور میرے پاس آ جاتے۔ مجھے ان کا انتظار توہر روزرہتا تھا لیکن جمعے کو بطورِ خاص کہ اُس روز وہ 'تکبیر‘ کے ساتھ آتے تھے۔ وہ رسالہ اپنے دور کا مقبول ترین ہفت روزہ تھا۔
اسی دور میں‘ استاذِ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی ایک نامور اردو معاصر میں دینی و فکری موضوعات پر کالم لکھتے تھے۔ سات دن اس کالم کے انتظار میں گزر جاتے۔ اُ ن دنوں میں اخبار شوق سے پڑھا جاتا تھا۔ لوگ سیاست پر گفتگو کرتے تو اس کا ایک معیار ہوتا۔ برداشت تھی اورسماجی سطح پر ایک دوسرے کا احترام بھی۔ اخبارات میں ایڈیٹر تھا جس کا سیاست اور ادب سے کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہوتا تھا۔
اس سے پہلے ماہوار رسالوں کا بھی ایک دور رہا۔ غلط یا صحیح‘ مذہبی گھروںمیں ہمہ رنگ ڈائجسٹوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ بزرگ کسی نوجوان کے ہاتھ میں دیکھ لیتے تو ناراض ہوتے۔ البتہ 'اردو ڈائجسٹ‘ بہت شوق سے پڑھا جاتا تھا۔ ساتھ 'سیارہ ڈائجسٹ‘ اور کسی حد تک 'حکایت‘ بھی۔ اردو ڈائجسٹ نے تو قبولیت کا نیا ریکارڈ بنایا۔ بعد میں محترم مجیب الرحمن شامی صاحب کے 'قومی ڈائجسٹ‘ نے اسی روایت کو آگے بڑھایا۔ پھر 'چٹان‘ اور 'زندگی‘ جیسے ہفت روزہ بھی تھے۔
مطالعے کا یہ ذوق پیدا کرنے میں نظریاتی سیاسی جماعتوں نے اہم کردار ادا کیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت اسلامی نے اس کلچر کے فروغ کے لیے قائدانہ کردار ادا کیا۔ جماعت کے لوگوں کا مطالعہ اگرچہ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کی فکری دائرے تک ہی محدود رہا لیکن اس سے پڑھنے کا ذوق پیدا ہوا۔ مولانا مودودی کو پڑھنے سے کم از کم یہ تو معلوم ہو جاتا ہے کہ اچھی زبان کیا ہوتی ہے اور شائستگی کے ساتھ مؤثر بات کیسے کی جا تی ہے۔ بائیں بازو کی جماعتوں اور گروہوں نے بھی مطالعے کا شوق پیدا کیا‘ ان کا مطالعہ بھی اگرچہ جماعت اسلامی کی طرح یک طرفہ ہی رہا؛ تاہم یہ بھی غنیمت تھا کہ کوئی گروہ اپنے نقطہ نظر کو علمی یا سنجیدہ سطح پر سمجھنے کی کوشش کرتا تھا۔
یہ وہ دور تھا جب سیاست‘ صحافت‘ مذہب‘ ہر دائرے میں ایسے لوگ موجود تھے جو اپنے شعبے کے بارے میں حساس تھے اور انہیں اس کی حرمت کا خیال تھا۔ انسانی کمزویاں ان کے ہم رکاب رہتی تھیں لیکن اگر اخلاقی حس موجود ہو، چاہے کمزور ہی کیوں نہ ہو‘ تو آدمی ایک خاص سطح سے کبھی نیچے نہیں جاتا۔ زوال کے باوجود اداروں اور شعبوں کا وقار قائم رہتا ہے۔
اس کے نتیجے میں جو معاشرتی تصویر سامنے آتی ہے‘ اس میں زندگی کے آثار ہوتے ہیں۔ پھر کمزریوں کا نوحہ تو لکھا جا تا ہے مگر مایوسی نہیں ہوتی۔ 1980ء کی دہائی اور اس کے بعد کچھ عرصہ تک‘ اقدار کے بارے میں ایک حساسیت پائی جا تی تھی۔ آہستہ آہستہ یہ کم ہو نا شروع ہوئی اور اب یہ حال ہوگیا ہے کہ سیاست وصحافت کے ہیرو وہ ہیں جنہیں تہذیبی اقدار کی ہوا تک نہیں لگی۔
میری حیرت میں اُس وقت اضافہ ہو جاتا ہے جب اسے 'شعور‘ قرار دیا جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخصیت نے قوم میں آگاہی پیدا کی ہے۔ لوگوں میں بیداری آئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو یہ احساس ہی نہیں رہا کہ انہوں نے کیا کھودیا اور کس وجہ سے کھویا۔ یہ سماجی ابتری کی وہ سطح ہے کہ اس کے بعد صرف دعا کی جا سکتی ہے۔ نہیں معلوم کتنے برس ضائع کر نے کے بعد احساسِ زیاں ہی پیدا ہو۔
مجھے اندازہ ہے کہ اخبارات و رسائل کی اب وہ اہمیت نہیں رہی جو ماضی میں تھی۔ میں اس بات سے بھی بے خبر نہیں کہ یہ ماہناموں اور ہفت روزوں کا دور نہیں۔ میرا کہنا یہ ہے کہ ابلاغ کے ذرائع بدل جانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کا معیار بھی بدل جائے اورمعیار کی پستی کو مثبت تبدیلی سمجھ لیا جا ئے۔ سوشل میڈیا پر کیا سنجیدہ بات نہیں ہو سکتی؟ اخبارات جتنے باقی ہیں‘ کیا ان میں سنجیدہ اور فکری مسائل نہیں چھیڑے جا سکتے؟ کیا روز مرہ کے سیاسی واقعات سے اٹھ کر ایک تاریخی تناظر میں تجزیہ نہیں کیا جا سکتا؟
ہمارا کلچر غیر محسوس طریقے سے بدل رہا ہے اور ہمیں اس کا احساس نہیں ہو رہا۔ چند دن پہلے‘ ایک سیاسی شخصیت نے مجھ سے ذکر کیا کہ وہ جب ٹی وی چینلز پر کہی گئی اپنی باتوں کو سنتے ہیں تو انہیں شرمندگی کا احساس ہوتا ہے کہ میں کس لہجے میں بات کر تا رہا۔ اسے لیکن وہ اپنی مجبوری کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ سخت زبان استعمال نہ کریں اور مخالف کو اسی کی زبان میں جواب نہ دیں تو خود پارٹی کے لوگ ان سے سوال کرتے ہیں: کیا بات ہے، آج طبیعت تو ٹھیک تھی۔ آپ کی باتوں سے مزہ نہیں آیا۔
اس بدلتے کلچر کا یہ نتیجہ ہے کہ سنجیدہ تجزیے کی جگہ سمٹ گئی ہے۔ تجزیے اور پروپیگنڈے کا فرق ختم ہو گیا ہے۔ فکری پستی کو لوگ سیاسی تبدیلی قرار دے رہے ہیں۔ ترقی یافتہ اقوام کے ساتھ تقابل ہوتا ہے تو کسی تاریخی شعور اور سماجی علوم کے پس منظر کے بغیر۔ جدید اہلِ سیاست میں شیر شاہ سوری تلاش کیا جا تا ہے۔ ایک سیاست دان کی ایک جیسی تقریر کو با بار سنا جارہا ہے ا ور اسے شعوری بلندی سمجھا جارہا ہے۔
مجھے ہلکی سی امید ان سماجی حلقوں سے ہے جہاں میڈیا کی چکا چوند سے الگ کچھ لوگ مل بیٹھتے اور سنجیدہ مکالمہ کرتے ہیں۔ مجھے معلوم ہوا کہ اسلام آباد میں پرویز ہود بائی نے 'بلیک ہول‘کے نام سے ایسا ہی ایک فورم بنا دیا ہے جہاں مکالمہ ہوتا ہے۔ مجھے ایک دفعہ جانے کا اتفاق ہوا۔ میرے خیالات سے واقفیت کے باوجود مجھے اس میں اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی۔ اسی طرح میرے ایک پڑھے لکھے دوست سہیل تاج کی معرفت 'ممتاز مفتی ٹرسٹ‘ کے بارے میں جانا‘ جو ان کے ذی علم صاحبزادے عکسی مفتی صاحب کی قیادت میں شعور و آگہی کے فروغ کے لیے سرگرم ہے۔
ایسے ادارے یا فورمز یقینا اور بھی ہیں لیکن سماجی سطح پر بڑی تبدیلی اسی وقت آتی ہے جب سیاست و ابلاغ کے مرکزی دھارے میں سنجیدگی ہو۔ اہلِ سیاست قومی معاملات کو ایک وسیع تر تاریخِ شعور کے ساتھ دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور ذرائع ابلاغ عوامی شعور کی سطح بلند کرنے میں لگے ہوں تا کہ عوام مذہب‘ سیاست اور دیگر شعبوں میں صحیح قیادت کا انتخاب کر سکیں۔