ورق ورق تجسس اور حیرت میں لپٹی داستان‘ ایک المیے پر تمام ہو گئی۔آخری پتا کیا گرا کہ شجر ہی زمین سے اکھڑ گیا۔'آندھی چلی تو نقشِ کفِ پا نہیں ملا‘۔رات اس گتھی کو سلجھاتے گزر گئی کہ یہ ایک شخصی المیہ تھا یا اجتماعی؟
عامر لیاقت حسین کی موت نے اداس کر دیا۔جیسے پتوں پر یکدم اوس پڑ جائے۔جیسے سانس کی ڈوری اچانک الجھنے لگے۔خبر فضا میں پھیلی تو دم گھُٹنے لگا۔ان سے کوئی ذاتی تعلق نہیں تھا۔تعلق تھا تو بس اتنا کہ وہ مجھے جانتے تھے اور میں ان کوجانتا تھا۔ ایک قدر مشترک تھی مگرہم ریل کی دو پٹڑیوں کی طرح تھے جو ایک ساتھ چلتی ہیں‘ مگر ایک دوسرے سے بے نیازرہتی ہیں۔اس یک جائی نے مگر مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ میں اسے فرد کا المیہ سمجھوں یا سماج کا؟
عامر لیاقت حسین کو اچانک شہرت‘پیسے اورگلیمر نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔یہ واقعہ صرف اُن کے ساتھ پیش نہیں آیا۔ ایک طویل فہرست ہے جس کی جھولی میں یہ سب پھل ایک ساتھ آ گرے۔کہیں کم کہیں زیادہ۔کسی نے اسے موقع جانا اور جو ملا اس پر اکتفا کیا۔کسی کو کثرت کی خواہش نے آلیا۔کسی نے اسے آزمائش سمجھاا ور شکر کا دامن تھام لیا۔ ایسے مگر کم ہی تھے۔انسان‘ واقعہ یہ ہے کہ‘ آزمائش پر کم ہی پورا اترتا ہے۔
میڈیا سے اپنے تعلق کے سبب‘اس آزمائش کی تپش مجھ تک بھی پہنچی۔یہ ایسی تو نہ تھی کہ دامن جل اٹھتا‘ مگر اتنی ضرور تھی کہ میں اسے محسوس کر سکتاتھا۔یہ سوال میرے لیے بنیادی اہمیت اختیار کر گیا کہ اس حرارت سے جسم وجاں کوزمانے کی سردی سے بچانا ہے یا اس میں اپنے وجود کو خاکستر کرنا ہے؟اس سوال کا اصل مخاطب تو فرد خود ہے۔یہ سوال نظر انداز ہو جائے تو کسی وقت کوئی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ایک باصلاحیت فرد اگر خود اس سوال پر غور پر آمادہ نہ ہو تو سماج کو کیا کرنا چاہیے؟اس کا ہاتھ تھامنا چاہیے یا پھر اسے جلنے کے لیے چھوڑ دینا چاہیے؟
یہ سوال میرے لیے ایک خاص زاویے سے قدرے زیادہ اہمیت لیے ہوئے ہے۔میڈیا کے انقلاب نے مذہب کو انفوٹینمنٹ کا حصہ بنا دیا۔یا یوں کہیے کہ سرمایہ دارانہ نظام‘ نے جب ہر شے کو جنسِ بازار بنایا تو مذہب اس سے بچ نہ سکا۔سرمایہ دارنہ معیشت اس سادہ اصول پر کھڑی ہے کہ سماج میں جو طلب موجود ہے‘اس کی رسد بھی ہونی چاہیے۔ اس کا اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں۔لوگ شراب پینا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ ان کی اس طلب کو پورا کیا جائے۔قحبہ خانے بھی سماجی ضرورت ہیں۔ہمارے معاشرے میں مذہب کی طلب ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔میڈیا نے اس کے لیے بھی رسد کا اہتمام کرنا تھا۔اہتمام بھی اس طرح کہ ساتھ ساتھ طلب بڑھتی جائے اور یہ بڑھوتی معیشت کے اس اصول کے مطابق ہو جس میں نفع کی شرح میں اضافہ ہی اصل کامیابی ہے۔
اب میڈیا کو ایسے چہروں کی ضرورت تھی جو اس معیار پر پورا اترتے ہوں۔ایک درجے میں‘میں بھی اس فہرست میں شامل کر لیا گیا۔ میرے لیے آزمائش یہ تھی کہ میڈیا کے مطالبات پر مذہب کی تراش خراش کی جائے یا میڈیا کو مذہب کے تقدس پر آمادہ کیاجائے۔میں اب تین کام کر سکتا تھا۔ایک یہ کہ وعظ و نصیحت کے مروجہ طریقوں پر اکتفا کر تا اور ٹی وی سکرین اور میڈیا کی ضروریات کو یکسر بالائے طاق رکھ دیتا۔اس کا مطلب مذہب کوضروریاتِ میڈیا کی فہرست سے خارج کرنا تھا۔یہ مذہب کے ساتھ نادان دوستی تھی۔دوسرا یہ تھا کہ میں مذہب کو کھیل تماشا بنا دیتا‘ کبھی ہنساتا‘کبھی رلاتا۔کبھی ٹھٹھا کبھی مذاق۔یہ مذہب ہی نہیں‘ سماج کے ساتھ بھی نادان دوستی تھی۔ تیسراراستہ یہ تھا کہ مذہب کی سنجیدگی اور تقدس کو نقصان پہنچائے بغیر‘میڈیا کی ضرورت کا لحاظ رکھتا۔میں نے تیسرے راستے کا انتخاب کیا لیکن اس میں ایک نقصان تھا۔
سرمایہ دارانہ معیشت کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی۔جب معاصرانہ مسابقت کی بات ہوتی ہے تو ریٹنگ فیصلہ کن ہو جا تی ہے۔اسی سے آپ کی مارکیٹ ویلیو کا تعین ہو تا ہے۔اسی سے طے ہوتا ہے کہ شہرت‘پیسے اور گلیمر میں آپ کا حصہ کتنا ہے۔میں نے ایک اخبار میں کالم لکھنا شروع کیا توبڑے شہروں میں اخبار کے کالم نگاروں کی تصویروں کے ساتھ اشتہار آویزاں کیے گئے۔ان میں میر ی تصویرکہیں نہیں تھی۔میں نے اخبار کے ایک ذمہ دارسے پوچھا تو انہوںنے بتایا کہ اس کا فیصلہ اخبار کا مدیر نہیں‘مارکیٹنگ کا شعبہ کرتا ہے کہ کس کی تشہیر ہونی چاہیے۔اب مارکیٹنگ کے لوگ زبان و بیان اور لکھنے والے کے علم و بصیرت کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کرتے۔ان کا معیار تو یہ کہ آپ جو سودا بیچتے ہیں‘مارکیٹ میں اس کے گاہک کتنے ہیں۔آپ کا برانڈ کتنا مقبول ہے؟یہی معاملہ ٹی وی سکرین کا بھی ہے۔اس کی ضرورت ایسا چہرہ ہے جو مذہب کو انٹر ٹینمنٹ بنا دے۔
اگر فردخود اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کے بارے میں حساس نہ ہو اور مارکیٹ بھی ایک دوسری جانب کھینچ رہی ہو تو پھر توازن کا قائم رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جو اس کی کوشش کرتا ہے‘ اس کی بقا خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ کوئی خوش قسمت ہوتو پچھلی صفوں میں کہیں جگہ بنا لیتا ہے۔ بصورتِ دیگر وہ گردِ راہ بن جاتا ہے اور قافلہ آگے نکل جا تا ہے۔ اس دنیا میں رحم نہیں ہو تا۔ مقبول ہیں تو اخبار کے صفحۂ اوّل پر آدھے صفحے کا اشتہار چھپتا ہے۔ مر جائیں تو دوکالمی خبر۔
گردِ راہ بننے کا ایک نقصان ہے مگر قافلے کاہم سفر ہونے کی بھی ایک قیمت ہے۔شہرت‘ پیسہ اور گلیمر آپ پر ہن کی طرح برسنے لگتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ آدمی خود ہن بن جا تا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی متنبہ نہ ہو تو کثرت کی خواہش اسے لے ڈوبتی ہے۔پھر وہ سکون کی تلاش میں ایسے راستوں کا انتخاب کرتا ہے جو خود اس نظام نے سجھائے ہوتے ہیں۔ایسا ہر راستہ ایک گہری کھائی کی طرف جاتا ہے۔
اکثرانجام کے آثار‘ وقت سے پہلے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ایسے موقع پر ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی خیر خواہ آپ کا ہاتھ تھام لے۔کوئی عالم‘ کوئی پیر‘ کوئی رشتہ دار ‘کوئی دوست‘ جو آپ کو سنبھال لے۔بیوی دست گیری کرے۔ خاوند سکون کی چوکھٹ بن جائے جس پر سر رکھا جاسکے۔ یا پھر مداحوں کا طبقہ‘ جو اس راہ میں آپ کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔
ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی منزل تک پہنچ گئے۔کچھ حالتِ سفر میں ہیں۔ ایک باصلاحیت آدمی کا ضائع ہو جانا‘اجتماعی المیہ ہوتا ہے۔ سماج میں اس طرح کا کوئی نظام ہو نا چاہیے جو ایسے المیوں کو روک لے۔ لوگ دلجوئی کرنے والے ہوں‘المیوں سے حظ اٹھانے والے نہ ہوں۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں لوگ پاگل کوپتھر مارتے اورعقل و خرد سے اس کی بے گانگی سے مزہ لیتے ہیں۔اُس کے لیے زندگی کی طرف واپسی کے راستے بند کر دیتے ہیں۔
مصطفی زیدی‘شکیب جلالی‘نہیں معلوم کتنے با صلاحیت لوگ ہیں‘ جنہیںہم زندگی کی طرف نہیں لاسکے۔ایک کھائی کی طرف ان کی پیش قدمی کو نہ روک سکے۔عامر لیاقت کا المیہ ایک فرد کا نہیں‘ایک سماج کا المیہ ہے۔رات اداسی میں کٹ گئی۔جون ایلیا کی آواز بار بار کانوں سے ٹکراتی رہی:
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا