یہ برسوں پرانا قصہ ہے مگر ایک زندہ منظر کی طرح میری یادداشت میں تازہ ہے۔
یہ 1990ء کی دہائی کے ابتدئی ماہ و سال تھے۔ میں پہلی بار سینیٹ کا اجلاس دیکھنے گیا۔ سیاسیات کے ایک طالب علم کے لیے یہ ایک پُرتجسس موقع تھا۔ شاید اسی لیے مجھے جزئیات کے ساتھ یاد رہ گیا۔ محترمہ نورجہاں پانیزئی‘ ڈپٹی چیئر پرسن‘ اجلاس کی صدارت کر رہی تھیں۔ وزیر داخلہ چوہدری شجاعت حسین صاحب کھڑے ہوئے اور انہوں نے کوئی بل پیش کرنا چاہا۔ ابھی انہوں نے ابتدائی جملے ہی ادا کیے تھے کہ سینیٹر پروفیسر خورشید احمد صاحب اپنی نشست پر کھڑے ہوئے اور کچھ کہنے کی استدعاکی۔ قائم مقام چیئر پرسن کی اجازت سے وہ گویا ہوئے اور یہ بتایا کہ بل سینیٹ کے قواعد کے مطابق نہیں پیش کیا گیا۔ چوہدری صاحب نے دوبارہ کوشش کی تو پروفیسر صاحب پھر کھڑے ہوگئے اور نشاندہی کی کہ اب بھی قواعد کو نظر انداز کیا گیا۔ یہ عمل جب کئی بار دہرایا گیا تو چوہدری صاحب نے اپنا آزمودہ نسخہ 'مٹی پاؤ‘ اپنایا اور چیئرکو مخاطب کیا: جناب چیئر پرسن! میں یہ بل ویسے ہی پیش کر رہا ہوں‘ جیسے پروفیسر صاحب فرما رہے ہیں۔ لوگ ہنس دیے۔ نور جہاں پانیزئی صاحبہ نے بھی اسی میں عافیت سمجھی اور یوں معاملہ سلجھا دیا گیا۔
پروفیسر صاحب کی پارلیمانی امور پر گرفت کا‘ میرے لیے یہ پہلا براہِ راست مشاہدہ تھا۔ ایک مصنف اور مقرر کی حیثیت سے میں پچپن ہی سے ان کے ساتھ تعارف رکھتا ہوں اور ان کے ساتھ استفادے کے نہ ختم ہونے والے رشتے میں جڑا ہوں۔ یہ رشتہ کئی اور جہتیں بھی رکھتا ہے لیکن ان کے ذکر کا یہ موقع نہیں۔ آج اگر اس واقعے نے یادداشت کے دریچوں سے جھانکا ہے تو اس کی ایک خاص وجہ ہے‘ یہ وجہ 'ارمغانِ خورشید‘ کی اشاعت ہے۔
پروفیسر صاحب چار مرتبہ سینیٹ آف پاکستان کے رکن رہے۔ یہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کے اہم ماہ و سال ہیں۔ اس دوران میں‘ پاکستان ایک بار پھر مارشل لا سے پارلیمانی جمہوریت کی طرف لوٹا۔ یہی وہ دور ہے جب پاکستان کے آئین میںبعض اہم ترین ترامیم کی گئیں۔ جب نائن الیون ہوا تو پروفیسر صاحب سینیٹ کے رکن تھے۔ ان ادوار میں‘ بطور سینیٹر‘ خورشید صاحب نے جو تقاریر کیں‘ وہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا ایک شاندار باب ہے۔
'ارمغانِ خورشید‘ کے عنوان سے پروفیسر صاحب کی ان تقاریر کو تحریری صورت میں مدون کر دیا گیا ہے۔ تادمِ تحریر اس سلسلے کی چھ جلدوں کی اشاعت ہو چکی ہے۔ خورشید صاحب کے اپنے قائم کردہ تحقیقی ادارے 'انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز‘ نے انہیں شائع کیا ہے۔ ان کی تدوین میں ادارے کے موجودہ سربراہ برادرم خالد رحمن صاحب کی خوش ذوقی اور محنت پوری طرح جھلک رہی ہے۔ ہر جلد کی ابتدا میں انہوں نے ان تقاریر کا تاریخی و سیاسی پس منظر اور سیاق و سباق‘ اس طرح بیان کر دیا ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے یہ اہم ماہ و سال ہماری نظروں کے سامنے مشہود ہو جاتے ہیں۔
'ارمغانِ خورشید‘ میں پروفیسر صاحب کے وہ مضامین بھی شامل ہیں جو ماہنامہ 'ترجمان القرآن‘ میں بطور اداریہ شائع ہوئے اور انہی موضوعات سے متعلق ہیں۔ ساتھ ہی چند انگریزی مضامین کے تراجم کو بھی شامل کیا گیا ہے جو ان مو ضوعات پر اسی دوران میں لکھے گئے۔ 'ارمغانِ خورشید‘ دراصل قومی منظر نامے کا وہ تجزیہ ہے جسے ایک صاحبِ نظر نے دیکھا اور اپنے تاریخی شعور کی روشنی میں اس کا ابلاغ کر دیا۔پاکستان کی سیاست و تاریخ کو سمجھنے کے لیے‘ ان چار زاویوں سے دیکھنا نا گزیر ہے۔ پاکستان کی نظریاتی اساس اور اس کا علمی و تاریخی تناظر۔ آئین و قانون کی حکمرانی اور اس سے انحراف کے اسباب و نتائج۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں ریاستِ پاکستان کا کردار اور اس کے مضمرات۔ پاک امریکہ تعلقات۔ سیاسیات کا کوئی طالب علم‘ ان چار جہتوں کا احاطہ کیے بغیر‘ نہ پاکستان کی داخلی سیاست کو سمجھ سکتا ہے نہ خارجہ پالیسی کو۔ پروفیسر صاحب نے ان تقاریر اور مضامین میں ان چاروں موضوعات پر اپنا نقطۂ نظر بیان کیا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ بہت کم لوگ ہیں جوپروفیسر صاحب کی طرح اپنا مقدمہ اتنے سلیقے اور شائستگی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ دو اعتبارات سے‘ میرا تاثر یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست و تاریخ کا کوئی طالب علم ان مضامین سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔ پارلیمان میں اپنی بات کیسے کہنی چاہیے‘ دلائل کو کس طرح مرتب کیا جائے‘ نفسِ مضمون سے مکمل آگاہی اظہارِ خیال کے لیے کیوں لازم ہے‘ دوسروں کے نقطۂ نظر پر کیسے تنقید کی جائے کہ ان کے مؤقف کی غلطی واضح ہو جائے اور ان کی دل آزاری بھی نہ ہو۔ کوئی اگر یہ سب سیکھنا چاہے تو ان تقاریر کا مطالعہ ناگزیر ہے۔
پروفیسر صاحب کی ان تقاریر میں زیرِ بحث موضوع پر اہلِ علم کی کتب کا حوالہ‘ معاصر اخبارات و رسائل کی خبریں اور آئین کا تناظر ملے گا۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ایک ذمہ دار آدمی جب پارلیمان سے خطاب کرتا ہے تو اس کی سنجیدگی کا کیا عالم ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ تقاریر پارلیمان کے وقار میں اضافہ کرتی ہیں اور ان لوگوں کی تنقید کا شافی جواب ہیں جو پارلیمان کی بحثوں کو وقت اور وسائل کا ضیاع اور اس فورم کو بے مصرف قرار دیتے ہیں۔
دوسرا پہلو پاکستان کی سیاست کے نظریاتی پہلو کی تفہیم ہے۔ پروفیسر صاحب کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے‘ جو اس باب میں اپنا ایک مؤقف رکھتی ہے۔ خورشید صاحب نے ان تقاریر اور مضامین میں قائد اعظم کے تصورِ ریاست‘ قراردادِ پاکستان اور ریاستِ مدینہ کے تصور پر یہ مؤقف بہت اچھی طرح پیش کر دیا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے جماعتی نقطۂ نظر کے مطابق‘ تاریخ کو اپنے عہد سے جوڑ دیا ہے۔ میرے علم کی حد تک‘ آج کی جماعت اسلامی میں‘ وہ واحد آدمی ہیں جو اس کا ذوق اور صلاحیت رکھتے اور اس موضوع کا حق ادا کر سکتے ہیں۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ کئی سال پہلے بھی‘ برادرم سلیم منصور خالد نے پروفیسر صاحب کی پارلیمانی تقاریر کو جمع کیا تھا جنہیں آئی پی ایس ہی نے شائع کیا تھا۔ پروفیسر صاحب کے نقطۂ نظر سے اختلاف کا حق ہر کسی کو حاصل ہے لیکن اُن جیسے لوگ پوری قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں جو سیاسی کلچرکو شائستہ بنانے اور جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ لوگ جماعتی وابستگیوں سے ماورا پوری قوم کے شکریے کے مستحق ہیں جو سیاست کو بد تمیزی اور انتہا پسندانہ رویوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔
اگر میرے بس میں ہو تو میں پروفیسر خورشید احمد صاحب کی ان تقاریر کوحکومتی ادارہ برائے پارلیمانی امور کے نصاب میں شامل کر دوں تا کہ نئے اراکینِ پارلیمان کو یہ سکھایا جا سکے کہ پارلیمان میں بات کرنے کے آداب کیا ہیں‘ اختلاف کس طرح کیا جاتا ہے اور جمہورت کسے کہتے ہیں۔ صرف پارلیمان ہی نہیں‘ میں یہ بھی کہوں گا کہ پاکستان کی سیاست و صحافت کا کوئی سنجیدہ طالبِ علم ان تقاریرسے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔
یہ مجموعہ ہائے تقاریر مجھے کئی برس پہلے کے پاکستان میں لے گیا جب میں نے پہلی بار ایوانِ بالا کے اجلاس کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اب میں ایک مدت سے قومی اسمبلی یا سینیٹ کا اجلاس دیکھنے نہیں گیا۔ اخبارات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ 'مٹی پاؤ‘ کلچر آج بھی غالب ہے۔ پروفیسر صاحب کی طوالتِ عمر اور صحت کے لیے دعا کہ جن کی وجہ سے پارلیمان پر ہمارا اعتماد متزلزل نہیں ہوتا۔