8اپریل 2022ء کو‘انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت نے حافظ محمد سعید صاحب کو ساڑھے اکتیس سال قید کی سزا سنا دی۔یہ کہانی لیکن اس سے پہلے شروع ہو تی ہے۔
وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے اطلاع دی کہ21فروری2022 ء کو وزیراعظم عمران خان صاحب کی صدارت میں‘وزیراعظم ہاؤس میں اجلاس ہوا۔اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ نیشنل ایکشن پلان کا ازسرِ نو جائزہ لیا جائے اور کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائیاں تیز کی جا ئیں۔ ساتھ ہی وزارتِ داخلہ نے ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے‘ جماعت الدعوۃ اورفلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن کو کالعدم قرار دے دیا۔
جماعۃ الدعوۃ کے ترجمان یحییٰ مجاہد صاحب نے اس پابندی کو بیرونی دباؤ کا نتیجہ بتایااور اس کی مذمت کی۔ان کا کہنا تھا کہ اس سے کشمیر کی تحریکِ آزادی کو غیر معمولی نقصان ہو گا۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن اور جماعۃ الدعوۃ کو پُراامن تنظیمیں قرار دے چکی ہیں۔ درپیش صورتِ حال مگریہ تھی کہ امریکہ نے ان کو دہشت گرد تنظیموں میں شمار کر رکھاتھا اور پاکستان پر اس کا دباؤ تھا کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ حکومتِ پاکستان نے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے‘ یہ کارروائی شروع کرد ی۔
حافظ سعید صاحب کے خلاف فردِ قراردادِ جرم کیا تھی؟عدالت کے فیصلے میں بتایا گیا کہ انہوں نے 'جماعۃالدعوہ‘ کے لیے‘جس کاپرانا نام 'دعوۃوالارشاد‘ تھا‘میاںچنوں میں زمین خریدی تھی۔سوال یہ ہے کہ زمین کی یہ خریداری جرم کیسے بنی؟اس کاجواب ہے: 'فیٹف‘۔فیٹف نے ان تنظیموں کے لیے و سائل کی منتقلی کو جرم قرار دے رکھا ہے جنہیں امریکہ دہشت گرد کہتا ہے۔ امریکہ کے نزدیک یہ 'ٹیرر فنانسنگ‘ (Terror Financing) ہے۔ فیٹف پاکستان سے جو مطالبات کر رہا تھا‘ان میں سرِفہرست یہ مطالبہ تھا کہ پاکستان اس فنانسنگ کو روکے۔
'فیٹف‘ہم سے کیا چاہتا تھا؟ بظاہر ستائیس مطالبات پر مشتمل اس فہرست کاحاصل‘ایک ہی مطالبہ تھا:جسے امریکہ دہشت گرد کہے‘آپ اسے دہشت گرد مان لیں۔ اگر وہ کہے کہ ان پر پابندی لگائیں تو آپ لگا دیں۔ اگر وہ انہیں چندہ دینے کو جرم کہے تو آپ اسے جرم مان لیں۔اس کے بدلے میں آپ امریکہ مخالف ممالک کی فہرست سے نکل آئیں گے اور بطورِ انعام آپ پر تجارتی اور اقتصادی پابندیاں نہیں لگیں گی اور بادشاہ سلامت‘آپ کو اپنے مقربین میں شامل کر لیں گے۔
ستائیس مطالبات فیٹف نے ہمارے سامنے رکھے اور سات اس کی ذیلی ادارے 'ایشیا پیسفک گروپ‘کی طرف سے تھے۔اب فیٹف نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان نے ہمارے تمام چونتیس مطالبات مان لیے ہیں۔اس اعلان پر ہمارے ہاں خوشی کے شادیانے بج رہے ہیں اور یہ دوڑ شروع ہوگئی ہے کہ اس کا کریڈٹ کس کے نام ہے؟وہ کون ہے جس نے امریکی مطالبات ماننے میں سے زیادہ سر گرمی دکھائی؟سب ہاتھ اور ایڑیاں اٹھا اٹھا کر دعویٰ کر رہے ہیں کہ 'یہ میں ہوں‘۔سب سے اونچا ہاتھ تحریکِ انصاف اور عمران خان صاحب کا ہے۔تحریکِ انصاف کا آفیشل ٹویٹ تھا: ''اگر ہم ایف اے ٹی ایف کی وائٹ لسٹ میں چلے گئے تو شاید امپورٹڈ حکومت اس کا کریڈٹ لے لے‘مگر ہر کسی کو ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ جب سے حکومت بدلی ہے‘ایف اے ٹی ایف سے متعلق کوئی بھی قوانین پاس نہیں ہوئے۔تو پھر اگرایف اے ٹی ایف سے متعلق کوئی کامیابی ملتی ہے تو وہ ایک اور ایونٹ ہوگا۔''تھینک یو عمران خان‘‘۔ عمران خان صاحب اور دیگرراہنماؤں کے ٹویٹ بھی سامنے آچکے۔
فیٹف کا یہ سرٹیفکیٹ کیا ہے؟ اگر تحریکِ انصاف کی لغت مستعار لی جائے تویہ امریکہ کی طرف سے غلامی کا تصدیق نامہ ہے۔یہ اس بات کا اعلان ہے کہ 'سند بردار‘ ہماری ہر بات مان ر ہا ہے۔اس نے کوئی حکم عدولی نہیں کی۔جیسا ہم نے کہا‘اس نے ویسا ہی کیا اورہم اس کی تصدیق کرتے ہیں۔اس سند کو جو اپنا اعزاز قرار دے‘کیا کوئی بقائمی ہوش وحواس‘اسے امریکہ مخالف کہہ سکتا ہے؟ایسی حکومت کے بارے میں کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ اسے ہٹانے کے لیے‘امریکہ نے سازش کی ہوگی؟یہ عجیب ماجرا اسی ملک میں ہو سکتا ہے کہ لوگ امریکہ کی چاکری کا تاج سر پر سجا کر‘یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں امریکی غلامی سے نکالنے والا مسیحامان لیا جائے۔ اس سے عجیب بات یہ ہے کہ کچھ لوگ مان بھی لیتے ہیں۔
یہ عجیب ماجرا ہے کہ بروزِ عیدِ قرباں
وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا
فیٹف کی شرائط پر‘اگر ہم پورا اتر ے تو کیا یہ کوئی کارنامہ ہے؟اگر کارنامہ ہے تو اس کا سہرا کس کے سر ہے؟(ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کا اس معاملے میں کیا موقف ہے؟ان جماعتوں نے اپنے اپنے عہدِ اقتدار میں کیا کیا؟یہ سوالات‘اس وقت میرے پیشِ نظر نہیں۔آج کے کالم میں‘مجھے دوباتیں کہنی ہیں۔ایک تو مجھے عمران خان صاحب کے تضاد کو نمایاں کرنا ہے جو اتنا واضح ہونے کے باوجود لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے اور مجھے معلوم ہے کہ رہے گا۔یہی نہیں‘اس کے وکیل بھی ہوں گے جو یہ‘اس کے باجود یہ کہیں گے کہ عمران خان پاکستان کو امریکہ کی غلامی سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔اس کاربارِ دنیا کو اسی طرح چلنا ہے۔
دوسرا یہ کہ حقیقت واقعہ کا سب کو علم ہے۔سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے مفادات کا تقاضا‘امریکہ کے ساتھ تصادم نہیں‘ مصالحت ہے۔مصلحت تقاضا کرے تو جائز شکایت کا بھی سرِ عام اظہار نہیں کیا جاتا۔ پاکستان کا کوئی حکمران امریکہ سے خوش نہیںرہا۔دو ممالک کے مابین مفادات کا ٹکراؤ معمول کی بات ہے۔اس موقع پر قوموں کو صاحبِ بصیرت قیادت کی ضرورت ہوتی ہے۔ایسے رہنما جو اپنے درد کواپنے اندرتھام سکیں اور ان کے چہرے سے اس کا اظہار نہ ہونے پائے۔ جذبات میں بہہ جانے والے‘تھڑ دلے اور واویلا کرنے والے مشکل وقت میں قوم کی قیادت نہیں کر سکتے۔
شکایت ایوب خان کو بھی تھی۔انہوں نے اپنی کتاب'فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ میں اس کا اظہار کیا۔بھٹو صاحب بھی اقتدار کے آخری دورمیں حرفِ شکایت زبان پر لائے۔ضیاء الحق تادمِ مرگ خاموش رہے لیکن سب جانتے ہیں کہ افغان جنگ کے بعد‘وہ امریکی عزائم کے راستے میں مزاحم ہو رہے تھے۔بے نظیر بھٹو صاحبہ اورنوازشریف صاحب نے بھی خاموش رہ کر امریکی دباؤ کا سامنا کیا۔اہم مناصب پر بیٹھنے والے‘اپنی ذات کو نہیں‘ ملک کے مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔
مذہبی انتہا پسندی نے پاکستان کو سماجی اور سیاسی طور پر بر باد کر دیا۔اس بات کی شدید ضرورت تھی کہ ہم اپنے گھر کی اصلاح کریں اور اپنے قومی وجود کو ان عناصر سے پاک کریں جنہوں نے ہمیں بربادی کے دہانے تک پہنچایا۔لازم تھا کہ ہم خود اس کا ادراک کرتے۔افسوس یہ نہیں ہوا۔نواز شریف صاحب نے توجہ دلائی تو انہیں کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا۔'ڈان لیکس‘ کی داستان تو اس ملک کے عوام ابھی نہیں بھولے۔اس کے بعد امریکہ نے ہمیں 'فیٹف‘کے راستے بات سمجھائی تو ہماری سمجھ میں آئی۔
دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے مگر دونوں نقطہ ہائے نظر میں زمین آسمان کا فرق ہے۔پہلا موقف خود داری‘ خود احتسابی اور آزادیٔ فکر کا اظہار ہے۔ دوسرا امریکہ کی غلامی کا۔ دوسروں کے کہنے پر اپنی اصلاح کر نے والوں کو زیبا نہیں کہ غلامی سے آزادی کا دعویٰ کریں۔ فیٹف کا اعلامیہ‘ان کیلئے فخر کا باعث نہیں۔