فقط لفاظی سے دنیا بدلتی تو جوش فی الواقع 'شاعرِ انقلاب ‘ ہوتے۔اُن کے قلم نے الفاظ کو چھوا تو شعروں کی قوسِ قزح بن گئی۔ان شعروں کی عمر بھی مگراتنی ہی تھی جتنی قوسِ قزح کی ہوتی ہے۔بارش کے بعدسرِ آسمان نمودار ہونے والی دھنک جو چند لمحوں کے لیے جلوہ آرا ہو تی اور پھر نظروں سے اوجھل ہو جا تی ہے۔مداحوں کے ارزاں کردہ القاب واقعہ کم ہی بنتے ہیں۔ جلسوں میں پرجوش کارکن آواز لگاتا ہے: 'اب تشریف لاتے ہیںامامِ انقلاب...‘امام صاحب تشریف لاتے ہیں‘لفظوں کے رنگ بکھیرتے ہیں‘ پُرجوش نعرے بلند ہوتے ہیں مگروہ سٹیج سے رخصت ہوتے ہیں تو اکیلے نہیں‘انقلاب ان کا ہم قدم ہو تا ہے! اقبال یاد آتے ہیں:
قوم کیا چیز ہے‘ قوموں کی امامت کیا ہے؟
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام
اقبال بھی تو شاعر تھے۔موت کیوں ان پر فتح نہ پا سکی؟کیا اقبال کو ان شعروں نے زمان و مکان سے بلند کیا ہے؟شاعری کا‘بلا شبہ ان کی آفاقیت میں بڑا حصہ ہے مگر محض شاعری نہیں۔یہ عقل وعشق کا امتزاج تھا جو نثر اور شاعری کی صورت‘تمام عمر ہم رکاب رہا۔اقبال محض شاعر نہیں تھے۔وہ زمین پر بکھری حقیقتوںکو بچشمِ سر دیکھ رہے تھے اورعالمِ محسوس کی رعایت سے ہم مذہبوں سے ہم کلام تھے۔وہ ماضی و حال کے ملن سے ایک جہاںِ نو پیدا کرنا چاہتے تھے۔شاعری ان کے لیے ایک وسیلۂ اظہار تھا‘ مقصدِ حیات نہیں۔ اسی لیے صرف شاعری پر اکتفا نہیں کیا۔
اقبال کے علاوہ‘دو شخصیات ہیں جنہوں نے تنِ تنہا برِ صغیر کی مسلم فضا کو متاثر کیا۔سرسید اورابو الاعلیٰ۔اہلِ دیوبند کے اثرات بہت گہرے ہیں مگر وہ اداراتی ہیں‘اجتماعی مساعی کا حاصل۔سر سید اور ابوالاعلیٰ نے نثر سے اپنی بات کا ابلاغ کیا اور اس درجے پر کہ ان کی بات کی تفہیم خاص و عام کے لیے سہل ہوگئی۔سرسید نے حسنِ بیاںکو غیر اہم جانا۔ ابو الا علیٰ نے مگر سادگی اور انشا پردازی کو یکجا کردیا۔جیسے کوئی الائچی کو چاندی کے ورق میں لپیٹ دے۔ مولانا وحید الدین خاں نے محض اپنی نثر سے ایک جہانِ فکر کی بنیاد رکھ دی جس کے درو دیوار کو ابھی اٹھنا ہے۔
ابوالکلام کے ہاں اسالیب کا تنوع ہے۔'غبارِ خاطر‘ انشا پردازی کانمونہ ہے۔'الہلال‘ کے مضامین اور خطبات کی زبان نسبتاً عام فہم ہے۔'ترجمان القرآن‘ علمی متانت کا شاہکار ہے۔ جاوید احمد صاحب غامدی کا معاملہ ابوالکلام سے قریب تر ہے‘اگرچہ وہ شاعری بھی کرتے ہیں جس میں اقبال کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے۔'مقامات‘ میں 'غبارِ خاطر‘ کا رنگ ہے۔'برہان‘ میں ‘الہلال‘ کا اور 'البیان ‘ میں 'ترجمان القرآن‘ کا۔ ابوالکلام کے اثرات معلوم ہیں۔ جاوید صاحب کے پسِ منظر میں امامین فراہی وامین احسن کھڑے ہیں اور سامنے امکانات کی ایک وسیع دنیا۔
عالمِ نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
ابوا الاعلیٰ شاعربھی تھے۔طالب تخلص تھا۔ایک غزل کا مطلع ہے:
فطرت کی کانِ سنگ کا حاصل نہیں ہوں میں
پگھلوں نہ غم سے کیوں کہ ترا دل نہیں ہوں میں
مولانا کے نانا قربان علی بیگ سالک ‘غالب کے خاص شاگردوں میں سے تھے۔ان کا ایک معروف شعر ہے جو غالب سے منسوب کیا جاتا ہے:
تنگ دستی اگر نہ ہو سالکؔ
تن درستی ہزار نعمت ہے
شاعری کو مگر مولانا مودودی نے کبھی وسیلہ ٔاظہار نہیں بنایا۔یہ ان کی نثر ہے جس نے ان کے نظریات و افکار کاا بلاغ کیا۔یہ ان ہی کے ساتھ خاص نہیں‘ہر پیام بر نے جسے اصل دلچسپی اپنے پیغام کے ابلاغ سے تھی‘نثر کو ترجیح دی۔نثر بھی ایسی جو عام فہم ہو۔الا یہ کہ کسی کو اہلِ اقتدار کے جبر نے اس سے روکا اور اس نے تمثیل کا پیرایہ اختیار کیا۔پھر ہر عہد کا اپنا مذاق ہے۔شاید یہ جدیدیت کا اثر ہو کہ اسالیبِ کلام میں بھی سا ئنسی اور منطقی اسلوب کوفروغ مل جس میں اصل اہمیت ابلاغ کی ہے۔ڈاکٹر ممتاز احمدمرحوم اردو اور انگریزی کے بہت اچھے لکھاری تھے۔کم و بیش میرے ہر کالم پر تنقیدی تبصرہ کرتے۔ان کا کہنا تھا کہ جب زبان میں کسی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے آسان اور عام فہم لفظ موجود ہو تو اس کو ترجیح دینی چاہیے۔یہ الگ بات ہے کہ نفسِ مضمون کا تقاضا اس کے برعکس ہو۔
آج مگر منظر بدل چکا۔قومی افق پر کوئی بڑی اصلاحی و فکری تحریک یا شخصیت نہیں پائی جاتی۔شخصی حلقے ہیں اور مریدوں کے گروہ۔زبانِ حق ترجمان سے اقوالِ زریں جھڑتے ہیں اور پھر انہیں تحریر کر لیاجاتا ہے۔تمام علمی اثاثہ انہی مواعظِ حسنہ پر مشتمل ہے۔ کسی مربوط فکر کا سراغ ملتا ہے نہ کسی علمی امتیاز ہی کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ماضی میں بھی یہ ہوتاتھا مگریہ اس کاایک پہلوتھا۔مولانا اشرف علی تھانوی کے مواعظ بہت معروف رہے۔'الابقاء‘ کی صورت میں ماہ وار شائع بھی ہوتے رہے۔تھانوی صاحب مگر اس کے سوا بھی بہت کچھ تھے۔مفسر اور صاحبِ فکر مصنف۔ علم کے ہر شعبے کو متاثرکیا۔اہلِ علم کا ایک گروہ اپنے پیچھے چھوڑ گئے۔ آج کے واعظین کا کل اثاثہ اقوالِ زریں کے مجموعے ہیں۔کل آنکھ بند ہوئی توکچھ باقی نہیں ہو گا۔اور اگر ہوا بھی مجاوراور چڑھاوے چڑھانے والے مرید ۔
طاہر القادری صاحب کا استثنا ہے۔مربوط اور ہمہ جہتی کام کیا۔اس کی افادیت اور علمی حیثیت پر کلام ہو سکتا ہے مگر اس میں شبہ نہیں کہ انہوں نے روحِ عصر کو پہچانا اور ابلاغ کے لیے صرف خطبات پر اکتفا نہیں کیا۔وہ عوامی ذوق پر پورااترنے والے ایک مقرر ہیں مگر ان کا باقی رہنے والا کام وہی ہے جو تصنیفی ہے۔ جاوید احمد صاحب غامدی کا کام بھی ہمہ جہتی ہے مگر وہ ایک دوسری دنیا ہے۔اس کے ذکر کا شاید یہ محل نہیں۔اتنی بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے بھی ابلاغ کے لیے جدید ذرائع سے استفادہ کیا لیکن ان کے نام سے معنون‘کل جس عہد نے ان شاء اللہ نمودار ہونا ہے‘اس کی بنیاد ان کے نثر ہوگی۔
الیکٹرانک اور سوشل میڈیاابلاغ کے جدید تر ذرائع ہیں۔ان کا حاصل مگر انتشارِ فکرکے سوا کچھ نہیں۔یہ ذرائع ایک ہنگامہ اٹھا سکتے‘ ہیجان پیداکر سکتے ہیں مگر ایک شعوری تبدیلی کا ذریعہ نہیں بن سکتے۔ یہ عرب بہار جیسی تحریکوں اورپاپولزم کے لیے تو سازگار ہیں‘ سماجی تعمیر کے لیے نہیں۔ کتاب اور نثر ہی دیرپا اور مؤثر تبدیلی کا بڑا ذریعہ ہیں۔
میری یہ تحریر‘ میں جانتا ہوں کہ آج غیر متعلق ہے۔جہاں سماجی اصلاح کی کوئی تحریک یا کوئی فکر ہی موجود نہ ہو وہاں ابلاغ کی بحث بے معنی ہے۔جو شہر بسا ہی نہ ہو‘اس کے راستے کا کیا سوال؟آج کالم نگارا ور ٹی وی اینکر دانش کی معراج ہیں۔اہلِ اقتدارکبھی قدرت اللہ شہاب اورالطاف گوہر سے مشاورت کرتے تھے۔یہ دونوں صاحبِ طرز ادیب تھے۔ان کی لکھی نثر آج بھی پڑھی جاتی ہے۔وہ سماجی مفکر نہیں تھے مگرانہوں نے معاشرے کومتاثر کیا۔نثر ہی ان کا وسیلۂ اظہار تھا۔آج کے حکمران کس سے مشورہ کرتے ہیں؟
عملی افادیت سے محروم اس بحث کا یہ فائدہ ضرورہے کہ اس سے تاریخ کو سمجھا جا سکتا ہے۔اس سے یہ جاناجا سکتا ہے کہ برصغیر میں اٹھنے والی فکری تحریکوں اور افکار کو کیسے پذیرائی ملی؟ یہ سادہ اور رواں زبان میں لکھی گئی نثر تھی جس نے سماج کو فکری طور پر صاحبِ ثروت بنا دیا۔