جمہوریت کی کوکھ سے ہر روز ایک نیا بحران جنم لے رہا ہے۔ کیا ہماری معاشرتی فضا‘ ہنوز جمہوریت کے لیے سازگار نہیں؟
1970ء کے عام انتخابات نے ملک کو دو لخت کر دیا تھا۔ یہ سوال اُس وقت بھی اٹھا تھا۔ مولانا مودودی جیسی دور بین شخصیت نے‘ انتخابات سے پہلے اس خدشے کا اظہار کر دیا تھا۔ انتخابی نتائج سامنے آئے تو مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کامیاب رہی۔ عوامی لیگ کا رجحان علیحدگی کی طرف تھا۔ اس کے باوصف کہ اکثریت اس کے پاس تھی‘ عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے میں پس و پیش کیا گیا۔ صدر یحییٰ خان نے ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا تو بھٹو صاحب نے کہا جو ڈھاکہ جائے گا‘ میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔ اجلاس نہیں ہوا۔ لوگوں کی ٹانگیں تو ٹوٹنے سے بچ گئیں مگر ملک ٹوٹ گیا۔
تاریخ سے نکل کر ایک نظر آج کے منظر نامے پر ڈالیے۔ تحریک عدم اعتماد جمہوری عمل کا حصہ ہے۔ یہ تحریک پیش ہوئی تو اس نے ایک نئے بحران کو جنم دیا۔ ملک اضطراب کی لپیٹ میں آگیا اور معیشت کی باگ حکومت کے ہاتھ سے نکل گئی۔ پنجاب میں جو کچھ ہوتا رہا‘ اسے جمہوریت ہی کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا۔ پھر پنجاب میں ضمنی انتخابات ہوئے جو جمہوری عمل کا حصہ ہیں۔ یہ انتخابات ایک نئے بحران کی پیدائش کا سبب بن گئے۔ جیسے جیسے جمہوریت آگے بڑھ رہی ہے‘ بحران سنگین سے سنگیں تر ہو رہا ہے۔ ماضی و حال کے ان تجربات سے کیا نتیجہ برآمد کیا جا سکتا ہے کہ ہماری معاشرتی فضا ابھی تک جمہوریت کے لیے ساز گار نہیں؟
یہ سوال مسلم معاشروں کے حوالے سے بالعموم بھی اٹھایا گیا جب مشرقِ وسطیٰ میں جمہوری عمل کے نتیجے میں‘ ا قتدار انتہا پسند تحریکوں کو منتقل ہونے لگا۔ الجزائر میں اسلامک فرنٹ کی انتخابی کامیابی اور پھر اس کے جلو میں آنے والے تشدد اور انتہا پسندی نے اس بحث کو مہمیز دی۔ مصر میں بھی یہی ہوا۔ منتخب صدر جیل ہی میں زندگی سے آزاد ہو گیا۔ ایک نہ ختم ہونے والی آمریت ایک مسلمان ملک کا مقدر بن گئی۔ اس پس منظر میں فوکو یاما جیسے اہلِ دانش نے یہ سوال اٹھایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم معاشرے ابھی شعور کی اس سطح تک نہیں پہنچے‘ جہاں جمہوریت سماج کے سیاسی استحکام کا باعث بنتی ہے۔
مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ جمہوریت کے ثمر بار ہونے کے لیے‘ سماج کی شعوری پختگی‘ ایک پیشگی شرط ہے۔ اگر معاشرہ برادریوں اور مذہبی عصبیتوں میں بٹا ہوا ہو تو انتخابی عمل سے مطلوب نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں‘ دیگر عوامل کے ساتھ‘ مقامی عصبیتوں اور گروہ بندی کا کردار اہم رہا۔ تحریکِ انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتیں آج بھی اگر الیکٹ ایبلز کی محتاج ہیں تو اس کا سبب یہی ہے۔ ووٹ اسی وقت اچھائی کی طرف ایک قدم بن سکتا ہے جب ووٹر‘ برادری اور رنگ و نسل کی عصبیت سے بلند تر ہو کر اپنا فیصلہ سنائے۔ جب امیدوار کی دیانت اور کردار ہی معیار ہو۔
سوال یہ ہے کہ ووٹر اس قابل کیسے ہوگا؟ سماج کے سیاسی شعور کی تربیت کیسے ہوگی؟ اس کا جواب ہے: جمہوریت۔ ووٹر کی تربیت ایک جمہوری معاشرے ہی میں ہو سکتی ہے اور سیاسی شعور بھی جمہوریت ہی میں پروان چڑھ سکتا ہے۔ اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ جمہوریت کوئی انجکشن نہیں جو لگا دیا جائے تو لوگ جمہوری ہو جائیں گے۔ انہیں ایک طرف جمہوریت کی تعلیم دینا ہوگی اور دوسری طرف وہ ماحول فراہم کرنا ہو گا جس میں وہ خود فیصلہ کریں اور اپنے فیصلوں کی ذمہ داری بھی اٹھائیں۔ اس عمل میں یہ ممکن ہے کہ وہ کسی موقع پر غلط فیصلہ کریں لیکن اس سے صرفِ نظر کرنا چاہیے کہ یہ بھی تربیتی عمل کا ایک حصہ ہے۔ ہم اس غلطی کی نشان دہی کریں گے۔ اس کے اسباب کا کھوج لگائیں گے جو ہمارے نزدیک غلط قرار پانے والے فیصلے کا سبب بنے۔ فیصلہ لیکن عوام ہی کا تسلیم کیا جائے گا۔ کسی کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے اثرو رسوخ سے اس پر اثر انداز ہو۔
ہمارے ہاں عدم استحکام کا سبب جمہوریت نہیں‘ جمہوری اصولوں سے روگردانی ہے۔ 1970ء میں انتخابی نتائج کو قبول کرنا جمہوریت کا تقاضا تھا۔ ریاست نے اسے نہیں مانا اور یہ گمان کیا کہ ایوانِ صدارت ہی بصیرت کا مرکز ہے۔ اس انجام سے بچنے کی دوسری صورت یہ تھی کہ ووٹر ان جماعتوں کو ووٹ دیتے جو مشرقی و مغربی پاکستان میں بیک وقت متحرک تھیں۔ اگر اس وقت ایسی جماعت کو کامیابی ملتی جو عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی کی طرح علاقائی نہ ہوتی تو بھی ملک ٹوٹنے سے بچ سکتا تھا۔ جب عوامی لیگ صرف مشرقی پاکستان اور پیپلز پارٹی صرف مغربی پاکستان تک محدود ہو کر رہ گئیں تو اس کا لازمی نتیجہ ملک کی تقسیم تھا۔
سب جانتے ہیں کہ اس کا حقیقی سبب وہ مارشل لا تھا جو طویل عرصہ ہم پر مسلط رہا۔ اس نے اہلِ بنگال کے حقوق کا انکارکیا جس نے عوامی لیگ جیسی جماعتوں کو مقبول بنایا۔ جب کسی گروہ میں احساسِ محرومی جنم لیتا ہے تو پھر وہ اپنی باگ ان ہاتھوں کو سونپ دیتا ہے جو اس کے حقوق کا علم اٹھا لیتے ہیں۔ گویا جمہوریت سے انحراف نے اس صورتِ حال کو جنم دیا جس کا انجام سقوطِ ڈھاکہ کی شکل میں ہمارے سامنے آیا۔
آج کا سیاسی اضطراب 2014ء سے شروع ہوتا ہے جب غیر جمہوری قوتوں کی سرپرستی میں لندن پلان بنا اور حکومت کے خلاف دھرنا دیا گیا۔ اس کے بعد جو داستان رقم ہوئی‘ اس کا ورق ورق عوام کے سامنے ہے۔ جے آئی ٹی کی تشکیل سے لے کر اقامہ تک اور 2018ء کے انتخابات سے عدم اعتماد تک‘ ایک غلطی کی کوکھ سے دوسری غلطی جنم لیتی رہی اور یہ سلسلہ ختم ہو نے کو نہیں آرہا۔
آصف زرداری صاحب اب جو بساط بچھانا چاہتے ہیں‘ وہ بھی مسئلے کا حل نہیں۔ اگر آج پی ڈی ایم بھی پرویز الٰہی صاحب کو اپنا امیدوار بنانے پر آمادہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاست اور اخلاقیات میں تین طلاقیں ہو گئیں۔ انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد ان کی روشنی میں معاملات کو آگے بڑھانا چاہیے۔ یہ بات تو طے ہے کہ پرویز الٰہی صاحب کی حکومت بھی مسئلے کا حل نہیں۔ اس کی کوکھ سے ایک نیا بحران جنم لے گا۔ مرکز پنجاب کشمکش نوشتۂ دیوار ہے۔ پہلے ہی دن پنجاب حکومت مرکز کے روبرو کھڑی ہوگی۔ شہباز شریف صاحب کو عمران خان اپنی افتادِ طبع کے تحت لاہور میں بے توقیر کرنے کی کوشش کریں گے اور پرویز الٰہی اس میں آ لہ کار بنیں گے۔ ظاہر ہے اس سے صورتِ حال مزید کشیدہ ہوگی۔
آج اصلاحِ احوال کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ معیشت بربادی کی اس سطح پر ہے کہ کوئی معجزہ ہی اسے بچا سکتا ہے۔ عام انتخابات ہوجائیں تو بھی معیشت سنبھل نہیں سکتی۔ سیاسی قوتیں تصادم کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ ریاستی اداروں کو اپنی ساکھ بچانی ہے اور انہیں سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ یہ ساکھ کیسے بحال ہو گی۔ الیکشن کمشنر ہی کو دیکھ لیجیے۔ اپنی پاک دامنی ثابت کرنے کے لیے انہوں نے انتخابات کو مجموعی طور پر شفاف بنانے کی کامیاب کوشش کی۔ اس کے باوجود تحریکِ انصاف کے حملوں کی زد میں ہیں۔ میں‘ اس لیے قوم کو کوئی جھوٹی تسلی دینے پر آمادہ نہیں۔
جب ہر راستہ بر بادی ہی کی طرف جاتا ہے تو پھر بہتر ہے کہ جمہوریت ہی کو اپنایا جائے۔ اگر ہمارے مقدر میں کوئی خیر لکھا ہے تو وہ اسی راستے پر کہیں ہے۔ عوام کے ہر فیصلے کو قبول کیا جائے۔ پنجاب کے ضمنی انتخابات کے جو نتائج سامنے آ ئے ہیں‘ ان کو بدلنے کوشش نہیں کر نی چاہیے۔