جشنِ آزادی کو مجرا قرار دینے کے لیے ذوقِ جمالیات سے بے اعتنائی لازم ہے۔ قومی دن کی ایک تقریب‘ متانت اور فن کے جس امتزاج کی متقاضی ہے‘ اگر کہیں اس کا فقدان ہے تو سوال اٹھایا جا سکتا ہے لیکن جشن پر فی نفسہٖ اعتراض قابلِ فہم نہیں۔
خوشی اور غم فطری جذبات ہیں۔ ان کے اظہار پر قدغن غیر فطری ہے۔ یہ فطری جذبات جب اجتماعی سطح پر ظہور کرتے ہیں تو عادات اور ثقافت میں ڈھل جاتے ہیں۔ اظہارِ جذبات کو ثقافت میں بدلنے کا عمل‘ ہمیشہ شعوری سطح پر ہوتا ہے۔ فرد شدتِ جذبات میں بھی اپنی اقدار سے بے نیاز نہیں ہوتا۔ اقدار کا کام ہی ان حدود کو طے کرنا ہے جو جذبات کے بہاؤ کے سامنے وہ بند باندھ دیں جو سماجی نظم اور اس کے اخلاقی وجود کو قائم رکھے۔ یہ بھی فطری عمل ہے اور ثقافتی تنوع‘ دراصل اسی کا بیان ہے۔
'خوشی سے اچھل پڑنا‘ محض محاورہ نہیں‘ اظہارِ مسرت کے ایک فطری طریقے کا بیان ہے۔ بچہ بھی خوشی کے عالم میں یہی کرتا ہے۔ آواز کا بلند ہو جانا یا کسی لَے میں ڈھل جانا بھی ایسا ہی فطری عمل ہے۔ اظہار کے انہی فطری اسالیب کو انسان کے احساسِ جمال نے فنونِ لطیفہ کی شکل دے دی۔ دنیا کا کوئی معاشرہ ایسا نہیں جہاں خوشی کے اظہار کے لیے گیت نہ گائے جاتے ہوں۔ اسی لیے پیغمبروں نے بھی اس سے منع نہیں کیا۔ اس کے برخلاف ہمیں ایسی روایت بھی ملتی ہے کہ ایک شادی میں‘ جو خوشی کا موقع تھا‘ جب اس پہلو کو نظر انداز کیا گیا تو اللہ کے پیغمبر نے اس جانب متوجہ کیا اور اس کے اہتمام کی نصیحت فرمائی۔
ایک قوم یا ملک کے لیے اُس دن سے بڑھ کر خوشی کا موقع کیا ہوگا جب اسے عالمی سطح پر شناخت ملی ہو۔ جب دنیا نے ان کی منفرد حیثیت کو تسلیم کیا ہو۔ جب ان میں اپنے ہونے کااحساس پیدا ہوا ہو۔ ایسے دن کو یاد کرنا اور اس پر خوشی کا اظہار کرنا فطری ہے۔ اس موقع پر صفِ ماتم کا بچھانا بد ذوقی کی انتہا اور جمالیات سے تہی دامن ہونا ہے۔ ایک گھر کے پاس سے گزرنے والے پر یہ فرق تو واضح ہو کہ یہاں خوشی کی کوئی تقریب ہے یا مرگ کا سماں ہے۔
پاکستان متنوع ثقافتوں کا مجموعہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جغرافیائی حوالے سے پاکستان عدم سے وجود میں نہیں آیا۔ خیبر پختونخوا‘ پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان اور بنگال کو ہم نے پاکستان کا نام دیا۔ ان علاقوں میں بسنے والے ایک عامی کے لیے پاکستان کوئی ثقافتی تجربہ نہیں تھا۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد بھی‘ خوشی اور غمی کا اظہار اسی طرح کرتا تھا جس طرح اس واقعے سے پہلے کیا کرتا تھا۔ آج بھی اس تسلسل میں کوئی فرق نہیں آیا۔ پاکستان کے قیام کا مطلب اظہار کے ان اسالیب کو ختم کرنا نہیں‘ انہیں محفوظ بنانا تھا۔ آج ہمارے پاس خوشی اور غمی کے اظہار کا کوئی ایک متفقہ طریقہ ایسا نہیں جسے 'پاکستانی‘ کہا جا سکے۔ یہی سبب ہے کہ قومی دن کے موقع پر خوشی کے ان ثقافتی رنگوں کو نمایاں کیا جاتا ہے جو موسیقی اور رقص کے علاقائی اسالیب ہیں۔ اس کا اہتمام 23مارچ کو بھی ہوتا ہے جب قومی پریڈ کے موقع پر ان ثقافتوں کا علامتی اظہار ہوتا ہے۔
14اگست کی تقریب میں بھی اگر یہ اظہار ہوا ہے تو اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ اصولی طور پر یہ بات قابلِ اعتراض نہیں ہو سکتی۔ یہ اعتراض بھی بہت سطحی ہے کہ ان تقریبات پر اتنا روپیہ کیوں خرچ ہوا۔ اس سے تو غریبوں کی فلاح و بہبود کا کوئی ادارہ بنایا جا سکتا تھا۔ یہ اسی طرح کا اعتراض ہے جیسے قربانی کے موقع پر کیا جاتا ہے۔ یہ خلطِ مبحث ہے۔ اسراف کی یقینا اجازت نہیں ہونی چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ خوشی کا اظہار بھی نہیں ہونا چاہیے۔
لوگ اسی طرح کا اعتراض تحریکِ انصاف کے جلسوں پر بھی کیا کرتے تھے جب انہوں نے پارٹی ترانوں کا استعمال کیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس انداز نے نوجوانوں کو اس جماعت کی طرف متوجہ کیا۔ دوسری جماعتیں بھی اس کو اختیار کرنے پر مجبور ہوئیں اور یہ ان کی ضرورت بن گیا۔ ان جلسوں کو بھی مذہبی تشخص رکھنے والوں نے مجرا قرار دیا جو عصری سیاست سے لاعلمی اور بد ذوقی کے اظہار کے سوا کچھ نہیں تھا۔ یہ بات دینی حوالے سے بھی قابلِ اعتراض ہے۔ پیپلزپارٹی کے جلسوں میں تو یہ ثقافتی رنگ پہلے بھی موجود تھا۔ اسی طرح اسلامک فرنٹ نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا۔ تحریکِ انصاف اسے درجۂ کمال تک لے گئی۔ اس پر اعتراض اب اس کے سوا کچھ نہیں کہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔ تحریکِ انصاف جیسے پُرکشش ترانے کوئی دوسری جماعت نہیں بنا سکی۔
ہمارے ہاں ایک عمومی غلط فہمی یہ ہے کہ فنونِ لطیفہ فی نفسہٖ برائی کی جڑ ہیں۔ درآں حالیکہ اس کا تعلق جمالیات کے ساتھ ہے۔ جمالیات‘ اخلاقیات سے متصادم کوئی تصور نہیں ہے۔ اخلاقی وجود پاکیزہ ہوگا تو وہ حسِ جمال کو بھی پاکیزہ بنا دے گا نہ کہ اسے مار دے گا۔ اگر اخلاقی شعور کی کمی ہے تو مدرسے جیسا محترم ادارہ بھی برائی کی علامت بن جاتا ہے۔ سیاست ایک نیک کام ہے۔ جب سیاست اخلاقیات سے بے نیاز ہوئی تو سیاست دان اور شاطر کے الفاظ مترادف شمار ہونے لگے۔ یہی معاملہ موسیقی اور رقص جیسے فنونِ لطیفہ کا ہے۔ ایک دور تھا کہ قوال‘ وضو کو لوازماتِ قوالی میں شمار کرتے تھے۔ آج کیاحالات ہیں‘ آپ بہتر جانتے ہیں۔
سماج کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کسی مخصوص نظریاتی سانچے میں نہیں ڈھل سکتا۔ سماج کو خوشی و غمی کے اظہار سے نہیں روکا جا سکتا۔ بایں ہمہ‘ ان ثقافتی مظاہر کو بھی ختم نہیں کیا جا سکتا جو صدیوں کے تعامل سے لاشعور کی سطح پر رچ بس جاتے ہیں۔ ہم جو کر سکتے ہیں‘ وہ اخلاقی وجود کا تزکیہ ہے۔ مثال کے طور پر جب یاوہ گوئی کو کلام کا نقص سمجھا جائے گا تو لازم ہے کہ پھر شاعری پر اس کا اثر ہوگا اور یہ شعور گیت نگاری کی روایت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اسی سے خطابت کے مقبول اسالیب بدلیں گے۔ جب عوام علامہ اقبال اور غالب جیسے شاعروں کے اشعار سے حظ اٹھائیں گے تو پھر زبان و بیان اور اخلاقیات کے اعتبار سے کم تر شاعری کی حو صلہ شکنی ہوگی۔ اسی پر دوسرے فنون کو قیاس کر لیجیے۔
میں جشنِ آزادی کی تقریب نہیں دیکھ سکا۔ جو اعتراضات سامنے آئے‘ ان میں سرِ فہرست جشن منانا ہے جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے مذموم بتایا گیا۔ یہ اعتراض فنونِ لطیفہ کے بارے میں ہماری اس مذہبی تعبیر سے پھوٹا ہے جس میں کسی فن کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ اسی لیے مولانا فضل الرحمن صاحب کے صاحب زادے مطعون ہیں کہ وہ اس تقریب میں کیوں شریک ہوئے۔ مولانا‘ جمعیت علمائے ہند کے اکابر کی طرح‘ قومی ریاست کے تصور کے داعی ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ ایسی ریاست میں سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے۔ ریاست کسی ایک مسلک یا تعبیرِ دین کی پابند نہیں ہو سکتی۔ یہی بات ان کے معترضین کو بھی سمجھنی ہے۔
اعتراض اگر معیار پر ہے اور کسی کا یہ خیال ہے کہ یہ فروتر تھا تو اس کو لازماً مخاطب بنانا چاہیے کہ اس درجے کی اعلیٰ تقریب میں پاکستان کے ثقافتی رنگوں کا اظہار زیادہ شائستگی اور حسن کے ساتھ ہو نا چاہیے؛ تاہم اسے مجرا قرار دینا‘ معترض کی خوش ذوقی کی کوئی اچھی تصویر پیش نہیں کرتا۔ اگر کسی کے نزدیک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہونے کا مطلب ثقافتی طور پر بے رنگ ہونا ہے تو اسے اپنے اس تصور پر نظر ثانی کر نی چاہیے۔