اسمِ اعظم‘ کہتے ہیں کہ وہ شاہ کلید ہے جو ہاتھ آجائے تو سب عقدے حل ہو جاتے اور تمام مسائل ختم ہو جاتے ہیں۔ راستے کھلتے چلے جاتے ہیں اور سربستہ راز‘ خود کو منکشف کرنے کے لیے آپ کے اشارۂ ابروکے منتظر ہوتے ہیں۔ صوفیا اور روحانیت کے خود ساختہ ماہرین نے اسے ایک پُر اسرار علم بنا دیا ہے۔ ہمارے ہاں اس کے ایسے ماہرین پائے جاتے ہیں جو ہر فرد کے لیے ایک اسمِ اعظم تجویزکرتے ہیں۔ اس کو علم الاعداد کے گورکھ دھندے سے جوڑتے ہیں۔ ان کے آستانے ہر وقت حاجت مندوں سے آباد رہتے ہیں۔
دینی ادب میں اسمِ اعظم پر بہت بحث ہوئی ہے۔ اہلِ علم کسی ایک اسم پر متفق نہیں۔ بہت سے علما نے اس کے مقبولِ عام تصور کو قبول نہیں کیا۔ انہیں اس سے اتفاق نہیں کہ یہ کوئی خاص اسم ہے یا یہ کوئی ایسا راز ہے جو ہر کسی پر منکشف نہیں ہو سکتا۔ میں نے اس موضوع پر جو سب سے شاندار تحریر پڑھی ہے وہ مولانا وحید الدین خاں کی تصنیف‘ کتابِ معرفت‘ کا ایک باب ہے جو اسی عنوان سے ہے۔ میرے نزدیک اس کا شمار مولانا کی سب سے پُر تاثیر تحریروں میں ہوتا ہے۔ اس وقت مگر‘ ان آرا کی صحت یا عدم صحت کا جائزہ میرے پیشِ نظر نہیں۔ مجھے کچھ اور کہنا ہے۔
تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ ہر شعبۂ حیات کا ایک اسمِ اعظم ہوتا ہے۔ وہ اگر کسی کے ہاتھ لگ جائے تو اس کی فتوحات کا سلسلہ تھمنے کو نہیں آتا۔ کوئی اس کا راستہ نہیں رو ک سکتا۔ اگر کوئی اسمِ اعظم نہیں جانتا تو اس کے حصے میں صرف خسارہ آتا ہے۔ کیا آج کی سیاست میں کامیابی کے لیے بھی کوئی اسمِ اعظم ہے؟ میرا جواب اثبات میں ہے۔ یہ اسم مگر صرف عمران خان صاحب کو معلوم ہے۔
سیاسی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاست کا اسمِ اعظم تبدیل ہوتا رہا ہے۔ ایک دور میں یہ نواز شریف صاحب پر منکشف ہوا اور ان پر اقتدار کے دروازے کھلتے چلے گئے۔ پنجاب کی ایک وزارت سے ان کا سیاسی سفر شروع ہوا اور ایک دن وہ ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ وزیراعظم بھی تین بار۔ ان کا یہ ریکارڈ ابھی تک قائم ہے۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے پہلے اس جانب توجہ نہیں کی۔ ابتلا ان کا مقدر بن گئی۔ پھر اسمِ اعظم ان کے ہاتھ لگا تو وہ وزیراعظم بن گئیں۔ انہوں نے لیکن جلد ہی اسے بھلا دیا۔ نواز شریف صاحب نے بھی بھلا دیا۔ ان دونوں کو اس کی سزا ملی اور اقتدار ان سے دور ہوتا چلا گیا۔ ایک کی جان گئی اور دوسرے کی سیاست۔
یہ اسم پھر عمران خان صاحب کے ہاتھ لگ گیا۔ کسی 'ولیٔ کامل‘ نے انہیں اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ انہیں یہ اسم سکھا دیا اور وہ ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ اقتدار کی فضا دنیوی کثافتوں سے کچھ اس طرح آلودہ ہے کہ یہاں روحانیت و طہارت کا معیار باقی نہیں رہتا۔ اس وادی میں پہنچ کر لوگ دنیا داری میں اس طرح الجھ جاتے ہیں کہ ان کو یہ اسم بھولنے لگتا ہے۔ ایک دن وہ اس کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں اور اگلے دن اقتدار کے ایوان ان کے لیے اجنبی ہو جاتے ہیں۔ خان صاحب نے بھی بے نظیر بھٹو صاحبہ اور نواز شریف صاحب کی طرح اسے بھلا دیا۔ ان کا انجام بھی وہی ہونا تھا جو متقدمین کا ہوا۔
عمران خان صاحب نے مگر اس راز کو جان لیا کہ سیاست کا اسمِ اعظم‘ لازم نہیں کہ ہمیشہ ایک ہی رہے۔ یہ بدل بھی سکتا ہے۔ انہوں نے ریاضت سے نیا اسمِ اعظم دریافت کر لیا۔ جب اسے آزمایا گیا تو ان پر فتوحات کے دروازے کھلنے لگے۔ گویا تجربے سے ثابت ہوا کہ ان کی دریافت درست ہے۔ اس اسم کو نواز شریف صاحب نے بھی کچھ وقت کے لیے آزمایا تھا مگر اس پر شاید ان کو وہ یقین نہیں تھا جس کے بغیر نتائج نہیں نکلتے۔ بعض مذہبی گروہوں نے بھی اس کو آزمایا اور کامیاب رہے۔ روحانیت میں پہلا درجہ پیر پر یقین ہے۔ یہ نہ ہو تو اس اسم کی برکات کا ظہور نہیں ہوتا۔
پہلے والا اسمِ اعظم کیا تھا جس نے تینوں پر اقتدار کے دروازے کھولے؟ اس کے متداول نام تو بہت ہیں لیکن وہ سب صفاتی ہیں۔ ذاتی نام سب کو معلوم ہے لیکن زبان پر لاتا کوئی نہیں۔ کچھ احتیاط کی وجہ سے۔ کچھ احترام کی بنا پر۔ 'مقتدرہ‘ اس کا ایک ایسا صفاتی نام ہے جو معنویت کے پہلو سے ذاتی نام سے اتنا قریب ہے کہ اب اس کا متبادل بن گیا ہے۔ یہ سب کو معلوم ہو چکا۔ اس کی تاثیر میں رفتہ رفتہ‘ اگر کمی آئی ہے تواس کی ایک وجہ شاید اس کا ظاہر ہونا ہے۔ اسی بنا پر عمران خان نے ایک متبادل اسمِ اعظم تلاش کر لیا۔
یہ متبادل کیا ہے؟ یہ اُس خط میں چھپا ہوا ہے جو خان صاحب نے ایف آئی اے کے حکام کو لکھا ہے۔ ایف آئی اے نے ان سے جواب دہی کی تھی۔ خان صاحب نے اُلٹا ان سے جواب طلب کر لیا۔ انہوں نے لکھا کہ اگر دو دن میں نوٹس واپس نہ ہوا تو وہ انہیں کٹہرے میں لا کھڑا کریں گے۔ اس خط میں جو اسمِ اعظم چھپا ہوا ہے‘ اس کو خان صاحب نے اس سے پہلے الیکشن کمیشن اور انصاف کے ایوانوں پر بھی کامیابی کے ساتھ آزمایا۔ کہیں میر جعفر کو حوالہ بنایا تو وہ بھی دراصل اسی اسمِ اعظم کا کمال تھا۔ اگر وہ جانور کو نیوٹرل بتاتے تھے تو اسی اسمِ اعظم کے زور پر۔ خان صاحب کے ہم قبیلہ منیر نیازی نے اس اسمِ اعظم کو اپنے ایک شعر میں باندھا ہے:
اک تیز رعد جیسی صدا ہر مکان میں
لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرا دینا چاہیے
ویسے مولانا فضل الرحمن بھی اس اسمِ اعظم سے واقف ہیں۔ انہیں ایک بار کسی ادارے نے نوٹس بھیجنے کی بات کی۔ مولانا نے جواب میں یہی اسمِ اعظم دہرایا۔ وہ دن اور آج کا دن‘ کسی نے مولانا کا نام لینے کی جرأت نہیں کی۔ مولانا نے لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرا دیا۔ دھمکی دینے والے اپنے گھرمیں سہمے ہوئے بیٹھے ہیں۔ مولانا نے یہ اسم‘ لگتا ہے طالبان سے سیکھا ہو گا۔
نواز شریف صاحب کو یہ اسمِ اعظم معلوم نہ تھا۔ وزیراعظم ہوتے ہوئے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوتے رہے۔ ان کو یہ غلط فہمی تھی کہ قانون اسمِ اعظم ہے۔ وہ اگر عمران خان صاحب کی طرح اسمِ اعظم دریافت کر لیتے تو آج وہ اور پاکستان اس حال کو نہ پہنچتے۔ عمران خان نے بروقت جان لیا۔ عوام بھی اسی کو لیڈر مانتے ہیں جس کے پاس یہ اسمِ اعظم ہوتا ہے۔
غور کیجیے تو دنیا میں کامیاب لوگ اسی اسمِ اعظم کو استعمال کر رہے ہیں۔ کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی زبان لکھنے اور بولنے والوں کی کوئی نہیں سنتا۔ قانون اور اخلاق کے دائرے کا احترام کرنے والوں کا کوئی احترام نہیں کرتا۔ ماتحت اسی کو افسر مانتا ہے جو یہ اسمِ اعظم جانتا ہے۔ اور اگر ماتحت یہ اسم جان جائے تو افسر بھیگی بلی بن جاتا ہے۔ شہباز گل صاحب کے معاملے میں عدالت نے فیصلہ دے دیا تھا لیکن اڈیالہ جیل کے حکام نے نہیں مانا۔ انہی کی مانی جن کے پاس اسمِ اعظم تھا۔
عمران خان صاحب کو روحانیت سے خصوصی شغف ہے۔ انہیں اسمِ اعظم کو اپنانے میں دیر نہیں لگی۔ جن کے پاس پہلے سے یہ اسم تھا‘ ان کا خیال تھا کہ خان صاحب اقتدار میں نہیں رہیں گے تو ہم اسے ان پر آزمائیں گے۔ خان صاحب نے پہل کر دی۔ انہوں نے سیاست میں کامیابی کا نیا اسمِ اعظم دریافت کر لیا ہے۔ ان کی تقریروں میں اس کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور ایف آئی اے کے جواب میں بھی۔ منیر نیازی کے شعر کو بالآخر ایک نیازی ہی نے سمجھا۔