ایک بار پھر عمران خان صاحب کی حفاظتی ضمانت منظور ہوگئی۔
حفاظتی ضمانتوں کا سلسلہ دراز ہو رہا ہے۔ وہ عدالت نہ آئیں تو بھی انہیں ضمانت مل جاتی ہے۔ مقدمات ایک سے زیادہ ہیں اور اس لمحے تک انہیں ہر مقدمے میں ضمانت کی سہولت‘ بہ آسانی میسر ہے۔ چھ ماہ سے حکومت کی خواہش ہے کہ وہ گرفتار ہوں لیکن ابھی تک یہ خواہش واقعہ نہیں بن سکی۔ رانا ثناء اللہ صاحب پیچ و تاب کھاتے ہیں مگر کچھ کر نہیں سکتے۔ 'لاڈلے‘ کی پھبتی کسی جاتی ہے اور اس کی صدائے بازگشت تھمنے کو نہیں آ رہی۔ آخر ماجرا کیا ہے؟ خان صاحب گرفتار کیوں نہیں ہو رہے؟
یہ معاملہ عمران خان صاحب کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ شہباز شریف صاحب کو بھی عدالت میں حاضری سے استثنا جیسی سہولتیں میسر رہیں اور اس سے پہلے حمزہ شہباز صاحب کو بھی جب وہ وزیراعلیٰ تھے۔ اسی طرح نواز شریف صاحب کو بھی عدالت نے علاج کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت دی۔ مریم نواز صاحبہ کو البتہ یہ رعایت کم ہی ملی۔ وہ آخری دن تک عدالت میں پیش ہوتی رہیں۔
ایک سوال اور بھی اٹھایا جاتا ہے کہ کیا عام لوگوں کو بھی یہ سہولتیں میسر ہیں؟ ریاستی ادارے‘ عوام کے لیے اتنے خیر اندیش کم ہی دکھائی دیے ہیں۔ بچے بلکتے رہ جاتے ہیں اور مائیں گرفتار ہو جاتی ہیں۔ یہ التفات خاص لوگوں ہی کے لیے کیوں؟ تھانے میں کسی کے خلاف درخواست چلی جائے تو پولیس گھر سے اٹھا لیتی ہے۔ یہاں ایف آئی آر کے باوجود لوگ آزاد ہیں۔ کیا اس ملک میں دو طرح کے قوانین ہیں؟ خواص کے لیے اور عوام کے لیے اور؟
ایک ٹی وی چینل پر خان صاحب کی ضمانت کی خبر کے ساتھ‘ اگلی خبر یہ تھی کہ بتیس سال پہلے‘ پولیس کی حراست میں جو نوجوان جان کی بازی ہار بیٹھا تھا‘ اس کے والدین کو آج انصاف ملا ہے۔ گزشتہ ہفتے خبر آئی کہ سپریم کورٹ نے دو بھائیوں کی رہائی کا حکم صادر فرمایا ہے جو ایک ماہ پہلے ہی زندگی کی قید سے رہائی پا چکے تھے۔ ایک طرف اتنی شتابی سے فیصلے ہوتے ہیں کہ چوبیس گھنٹے گزرنے سے پہلے حکم سنا دیا جاتا ہے اور دوسری طرف ایسا تساہل کہ سال کیا‘ عشرے گزر جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
میں جس سیاسی عصبیت کا اکثر ذکر کرتا ہوں‘ یہاں اس کا اعادہ ضروری ہے۔ قانون اندھا ہوتا ہے مگر نظام انصاف نہیں۔ حکومت بھی نہیں۔ قانون کا اطلاق اور اس پر عملدرآمد نظام انصاف اور حکومت کی ذمہ داری ہو تے ہیں۔ وہ فیصلوں کے مضمرات کو بھی سامنے رکھتے ہیں۔ جن لوگوں کو سیاسی عصبیت حاصل ہوتی ہے‘ ان کے متاثرین‘ عام طور پر واقعات کی اس تعبیرکو قبول نہیں کرتے جو ان کے رہنما کو مجرم ٹھہراتی ہے۔ یہ امکان ہوتا ہے کہ فیصلہ اگرنافذ ہو گیا تواس سے عوام کی جان و مال کے لیے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ یوں سماجی حالات نظامِ انصاف اور حکومت دونوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
تاریخ میں اس کی شہادتیں موجود ہیں۔ خلیفۂ راشد سیدنا عثمانؓ کی شہادت معمولی واقعہ نہیں تھا۔ یہ مطالبہ بھی غلط نہیں تھا کہ ان کے قاتلوں کو سزا ملنی چاہیے۔سیدنا علیؓ کو بھی اس سے اختلاف نہیں تھا؛ تاہم ان کا کہنا تھا کہ سزا کا فوری فیصلہ ممکن نہیں ہے۔ مدینہ پر ان لوگوں کا بالفعل قبضہ ہو چکا تھا جو فسادات میں ملوث تھے۔ اگر اُس وقت قانون اور سزا کے نفاذ کا عمل شروع ہو جاتا تو فساد بڑھ جاتا جس کو کم کرنا‘ اس وقت خلیفہ کی اولین ترجیح ہونی چاہیے تھی۔ حالات میں بہتری نہ آسکی اور یوں قاتلینِ عثمانؓ پر کبھی سزا کا اطلاق نہ ہو سکا۔ ریاستیں کئی بار باغیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرتی ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ ریاستِ پاکستان نے کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کیے اور اس کے نتیجے میں ان لوگوں کو رہا کیا جنہوں نے اَن گنت بے گناہ لوگوں کی جان لی تھی۔ ایسے فیصلے کسی بڑی حکمت کے تحت کیے جاتے ہیں۔ اس سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ قانون بے معنی ہو گیا ہے۔ یہ دراصل دو ناگزیر برائیوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا معاملہ ہے۔
عمران خان کا شمار پاکستان کے مقبول سیاسی رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ ان کے حق میں سیاسی عصبیت پیدا ہو چکی۔ اس لیے نظام عدل یا حکومت ان کے خلاف فیصلہ دیتے وقت‘ اس بات سے صرفِ نظر نہیں کر سکتی کہ معاشرے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ حکومتوں کے بارے میں تو یہ بات قابلِ فہم ہے مگر کیا نظامِ عدل کوعوامی ردِ عمل سے بے نیاز ہو کر فیصلہ نہیں سنانا چاہیے؟ اس بارے میں دو آرا ہیں۔ ایک یہ کہ نظامِ انصاف بھی ریاستی بندوبست کا حصہ ہے‘ اس لیے اپنے فیصلوں کے سماجی و سیاسی مضمرات سے لاتعلق نہیں ہو سکتا۔ دوسری رائے یہ ہے کہ نظامِ انصاف کا اولین فریضہ قانون کی حاکمیت قائم کرنا ہے اور یہ کام ہر طرح کے نتائج سے بے پروا ہو کر ہونا چاہیے۔میرا احساس ہے کہ پاکستان جیسے معاشرے میں‘ جہاں قانون کی حاکمیت کی تاریخ زیادہ درخشاں نہیں‘ ہم نظام انصاف سمیت کسی طبقے سے مثالی کردار کی توقع نہیں کر سکتے۔ ہمیں تدریجاً بہتری کی طرف جانا ہے اور وہ بھی اُس وقت جب ہم اس کے لیے سنجیدہ ہوں۔ جہاں چھوٹی چھوٹی شخصی خواہشیں انسانی فیصلوں پر غالب ہوں‘ وہاں تجزیے میں حقیقت پسند ہونا چاہیے۔ عمران خان صاحب کے خلاف مقدمات کے حوالے سے بھی اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
رہی حکومت تو اس کے پاس گرفتاری کے لیے بہت سے جواز موجود ہوتے ہیں۔ وہ چاہے تو بھینس کی چوری کا مقدمہ قائم کرکے گرفتار کر سکتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت حکومت خان صاحب کی گرفتاری کے معاملے میں یکسو نہیں۔ وہ انہیں گرفتاری کے خوف میں مبتلا رکھنا چاہتی ہے اور ساتھ ہی اس ردِ عمل کا جائزہ بھی لے رہی ہے جو متوقع ہو سکتا ہے۔ جب تک خان صاحب مارچ کا اعلان نہیں کرتے‘ معاملات اسی طرح چلتے رہیں گے۔ اگر حکومت کو ان کی سیاسی منصوبہ بندی کی خبر مل گئی تو یہ گرفتاری پہلے بھی ہو سکتی ہے۔ حکومت کے لیے ایک بڑا مسئلہ کے پی اور پنجاب میں تحریکِ انصاف کی حکومت ہے۔ اس سے یہ کام دشوار تر ہے۔ اس سوال کا جواب البتہ باقی ہے کہ پرویز الٰہی صاحب کا آخری فیصلہ کیا ہو گا؟ یا پنجاب کا سیاسی بندوبست‘ کیا فیصلہ کن مرحلے تک برقرار رہ سکے گا؟
ایک سوال یہ ہے کہ اگر حکومت عمران خان صاحب کو گرفتار کرتی ہے تو کس نوعیت کا ردِ عمل ہو سکتا ہے؟ مجھے تو کسی بڑے ردِ عمل کی توقع نہیں۔ پاکستان میں پچھلے پینتالیس سال میں کوئی بڑی سیاسی تحریک نہیں اٹھی۔ ایسی تحریک جو حکومت کے خاتمے پر منتج ہو۔ 2014ء میں خان صاحب نے ایک بھرپور کوشش کی تھی جو میڈیا اور کئی دوسری قوتوں کی پوری معاونت کے باجود ناکام رہی۔
اب تو آثار یہی ہیں کہ انہیںکوئی بڑی غیبی مدد بھی حاصل نہیں۔ 'رجال الغیب‘ تواس وقت نیوٹرل دکھائی دے رہے ہیں۔ یوں اس کی کامیابی کے امکانات مزید معدوم ہو گئے ہیں۔ اگر قوت کے کسی بڑے مرکز میں اس تحریک کو ناکام بنانے کا فیصلہ ہوگیا تو پھرکامیابی کا سرے سے کوئی امکان نہیں ہے۔ عوام کے پاس کسی طویل احتجاجی تحریک میں شرکت کا وقت ہے نہ خواہش۔ ان سے زیادہ کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے۔
اس وقت عمران خان صاحب معرضِ امتحان میں ہیں۔ گرفتاری اہلِ سیاست کے لیے ایک بڑی آزمائش ہے۔ یہ بھٹی انہیں کوئلہ بنا سکتی ہے اورکندن بھی۔ وہ اب تک گرفتاری سے بچنے کی کوشش میں ہیں۔ حفاظتی ضمانت کی چھتری ہٹنے کے بعد دیکھتے ہیں کہ وہ زمینی سفر کرتے ہیں یا نہیں؟