آپ کی نظر میں کرپٹ کون ہے؟
میرے کہنے یا آپ کے فرمانے سے‘ کیا کسی کو کرپٹ یا چور ڈاکو قرار دیا جا سکتا ہے؟ ایک سیاسی رہنما کے دوسرے رہنما پر الزام دھرنے سے کیا کوئی کرپٹ بن جاتا ہے؟ کسی عدالت یا کمیشن کا فیصلہ کیا کسی کی کرپشن پر مہرِ تصدیق ثبت کر دیتا ہے؟ کیا یہ کسی پہنچی ہوئی شخصیت کا وجدان ہے جس کی بنیاد پر ہم کسی کوکرپٹ مان لیں گے؟ شب و روز میں اگر کسی کے معیارِ زندگی میں غیرمعمولی اضافہ ہوتا ہے تو فقط یہ مشاہدہ کیا کسی کے کرپٹ ہونے کی حتمی دلیل ہے؟ حکومتی منصب اور وسائل کا شخصی اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا کرپشن ہے؟ کرپشن کیا صرف مالی امور میں ہوتی ہے؟ کیا اس پر ایمان لانا لازم ہے کہ ہر امیرآدمی کرپٹ ہوتا ہے؟ یا پھر یہ سماج کا عمومی کلچر ہے جس کی روشنی میں ہم کسی فرد کے بارے میں کوئی رائے قائم کرتے ہیں؟
یہ تمام سوال سنجیدہ بحث کے سزاوار نہیں ٹھہرے۔ اہلِ سیاست نے کرپشن کے الزام کو مخالفین کے خلاف سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ اقتدار ان کے ہاتھ میں آیا تو احتسابی عمل نے اس باب میں ان کی غیرسنجیدگی کو بے نقاب کر دیا۔ اقتدار ملنے کے بعد ہر حکومت نے‘ وہ سیاسی ہو یا غیر سیاسی‘ اسے اپنے اقتدار کی ترجیحات کی روشنی میں دیکھا۔ آج بھی کرپشن ایک سیاسی ہتھیار ہے جس طرح کبھی سوشلزم یا اسلام سیاسی ہتھیار تھے۔ پروپیگنڈا میں اتنی شدت ہے کہ اگر کوئی ان الزامات کی سنجیدگی کو چیلنج کرے تو گویا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سوالات ا ٹھانے والا لازماً چوروں کا ساتھی ہے۔ ماضی میں بھی یہی ہوتا تھا۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ سوشلزم پر سوال اٹھانے والا امریکہ کا ایجنٹ ہے۔ ستم ظریفوں نے مولانا مودودی کی شفاف شخصیت کو بھی نہیں بخشا جن کے حسنِ کردار کی گواہی ان کے مخالفین بھی دیتے تھے۔
کرپشن کا مسئلہ ہمارے ہاں اتنا اہم کیوں بنا؟ یہ معاشرے میں پھیلی عدم مساوات اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم کی سب سے آسان اور سرعت کے ساتھ سمجھ میں آنے والی توجیہ ہے۔ اہلِ سیاست کو ہمیشہ وہ بات راس آتی ہے جس سے عوام کو شیشے میں اتارنا آسان ہو۔ یوں وہ اس کو نعرہ بنا کر عوام کے جذبات کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ وہ لوگوں کو کبھی حقیقی اسباب کی طرف متوجہ نہیں ہونے دیتے۔
پاکستان میں سب سے امیر طبقات دو ہیں جن کی دولت کسی کاوش کے بغیر روز افزوں ہے۔ یہ پیر ہیں یا جاگیردار۔ شاہ محمود قریشی صاحب کی طرح بہت سے ایسے بھی ہیں جو دونوں کا مجموعہ ہیں۔ دونوں کی دولت غیر دستاویزی ہے۔ یوں ان پر کبھی کرپشن کا الزام لگتا ہے نہ ان کے خلاف قانون حرکت میں آتا ہے۔ ایک پیر بغیر اشتہار چوبیس گھنٹے ٹی وی چینل چلا سکتا ہے۔ یونیورسٹی اور میڈیکل کالج قائم کر سکتا ہے۔ چارٹر طیارے پر حج اور عمرہ کر سکتا ہے۔ اس کے پاس اتنی دولت ہے کہ عام آدمی شاید گمان نہ کر سکے۔ دونوں کی دولت عوام کے استحصال کا نتیجہ ہے مگر عام آدمی کی اس طرح ذہن سازی کی گئی ہے کہ اس کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا۔
یورپ میں بادشاہ‘ جاگیر دار اور کلیسا کے مابین ایک غیر پاکیزہ اتحاد (Unholy Alliance) وجود میں آگیا تھا جو عوام کے استحصال میں یک زبان تھے اور ایک دوسرے کے معاون بھی۔ ہمارے ہاں بھی یہی ہو رہا ہے۔ علامہ اقبال ہمیں اس اتحاد کی طرف متوجہ کرتے رہے مگر ان کی یہ بات کسی نے نہیں سنی۔ علما کا فتویٰ جاگیرداری کے حق میں رہا اور یہی علما جب سپریم کورٹ کے شریعہ اپیلٹ بینچ تک پہنچے تو انہوں نے جاگیرداری کے جائز ہونے پر قانون کی مہر بھی ثبت کر دی۔
اس اتحاد کو توڑنا آسان نہیں۔ کوئی اس کی مشکلات کو سمجھنا چاہے تو اسے چاہیے کہ یورپ کی تاریخ کا مطالعہ کرے۔ میں اسی لیے اپنے سماج کو انسان کے تہذیبی سفر سے بچھڑا ہوا قافلہ قرار دیتا ہوں کہ جن مسائل کو ترقی یافتہ اقوام صدیوں پہلے حل کر چکیں‘ ہمیں ابھی تک ان کا ادارک نہیں ہے۔ شخصی اور گروہی مفادات کے اسیر ہمارے سیاسی رہنما لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور وہ اپنی سادہ لوحی میں ان کو مسیحا سمجھ لیتے ہیں۔
اسی طرح کے سادہ حل پہلے بھی اختیار کیے گئے‘ جیسے کہا گیا کہ اسلام کو نافذکردیا جائے تو ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ سود کے مسئلے کو بھی آج اسی طرح پیش کیا جا رہا ہے۔ کل اسی طرح کی مہم حدودِ قوانین کے لیے چلائی گئی۔ قوانین نافذ ہوگئے مگر معاشرہ ویسے کا ویسا ہی رہا۔ اسی طرح سوشلزم کو اکسیر بنا کر بیچا گیا۔ ہم نے دیکھا کہ سوشلزم کے ٹکٹ پر جاگیرداراسمبلیوں میں بٹھا دیے گئے۔ یہی معاملہ کرپشن کا ہوا۔ اس نعرے کو استعمال کرنے والوں کو چار سال ملے۔ معلوم ہوا کہ کرپشن پہلے سے بڑھ گئی ہے۔ چہرے بدلے تھے‘ رویے نہیں۔ ایک وزیر کو کرپشن کے الزام میں کابینہ سے نکال کر پارٹی کا دوسرا اہم ترین عہدہ سونپ دیا گیا۔
کرپشن خرابی کا سبب نہیں‘ نتیجہ ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے سود اصل خرابی نہیں۔ اصل خرابی قرض ہے‘ سود جس کا نتیجہ ہے۔ آج ہماری معیشت قرض پر کھڑی ہے اور ہم سود کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ سود کا خاتمہ قرض کی معیشت سے نجات حاصل کیے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اس کی طرف کسی کا دھیان نہیں کہ یہ ایک مشکل کام ہے۔ اس کے لیے ایک متبادل معاشی اساس کی ضرورت ہے اور وہ ہمارے پاس نہیں ہے۔
کرپشن کو‘ سیاست کے بجائے معیشت کی آنکھ سے دیکھا جانا چاہیے۔ یہ معاشرے میں کن کن صورتوں میں رائج ہے اور ریاستی سطح پر قانون اس کوکم کرنے میں کس طرح معاونت کر سکتا ہے؟ ریاست کی سطح پرکرپشن صرف ترقیاتی بجٹ میں ممکن ہے۔ ہمارے قومی بجٹ کا ایک حصہ قرض پر سود وغیرہ کی ادائیگی میں صرف ہوتا ہے۔ ایک حصہ دفاع کے لیے۔ ان دونوں کو ہم نے کرپشن کے دائرے سے باہر رکھا ہے۔ ترقیاتی بجٹ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کرپشن کا تناسب کیا ہے اور اسے کس طرح قانون کے مؤثر نفاذ سے کم کیا جا سکتا ہے۔
یہ وہ کام ہے جو کوئی کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہر حکومت نے کرپشن کو ایک سیاسی مسئلہ بنایا اور اس سے سیاسی مفادات کشید کرنا چاہے۔ تحریکِ انصاف جس کا نعرہ ہی کرپشن کا خاتمہ تھا‘ وہ بھی اس باب میں کوئی قابلِ ذکر پیش قدمی نہیں کر سکی۔ سوچنا چاہیے کہ اس کی وجہ کیا ہوئی؟ پھر یہ کہ ترقیاتی بجٹ میں اگر اس کو کم کر دیا جائے تو کیا معاشرتی سطح پر بھی یہ کم ہو جا ئے گا؟ اگر پیری مریدی اور جاگیرداری کا یہ نظام قائم ہے تو ہم کرپشن کیسے ختم کر سکتے ہیں؟
نیب کے قوانین غیر اخلاقی تھے اور غیر آئینی بھی۔ ان کو بدلنا ضروری تھا۔ مسئلہ قانون نہیں‘ اس کا استعمال ہے۔ اینٹی کرپشن کے قوانین‘ ہمارے ہاں صرف سیاسی مخالفین کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ان دنوں پنجاب میں دو افراد کے خلاف یہ مقدمات قائم ہوئے۔ ایک رانا ثنا اللہ اور دوسرے دوست محمد مزاری۔ مرکز میں عمران خان کے خلاف۔ کیا بائیس کروڑ میں یہی تین کرپٹ ہیں؟
پاکستان میں کرپشن کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا جب تک کہ قومی سطح پر کوئی میثاقِ معیشت نہیں ہوتا اور کرپشن کو ایک غیرسیاسی مسئلے کے طور پر نہیں سمجھا جاتا۔ جب تک یہ ہوتا رہے گا‘ لوگ اسے صوبے کا وزیراعلیٰ بناتے رہیں گے جو ان کی نظر میں صوبے کا سب سے بڑا ڈاکو ہوگا۔ یہ عوام کو سوچنا ہے کہ کب تک ان نعروں کے اسیر رہیں گے؟