ہماری کرکٹ ٹیم کی کمزوریاں‘کیا کھلاڑیوں میں بڑھتے ہوئے مذہبی رجحانات کا نتیجہ ہیں؟
کرکٹ کا کھیل انگریزوں کی ایجاد ہے۔برصغیر میں اسے 'ایسٹ انڈیا کمپنی‘ نے متعارف کرایا۔1737ء میں کمپنی کی ایک رپورٹ میں اس کا ذکر ہے جو اس باب میں پہلی دستاویزی شہادت مانی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کرکٹ کا کھیل اس سے کئی سال پہلے متعارف ہو چکا تھا۔ مقامی افراد کی پہلی ٹیم پارسیوں نے بنائی۔پھر ہندو کرکٹ ٹیم بنی اور اس کے بعد مسلم کر کٹ ٹیم۔ابتدا میں یہ اعیانی طبقے کا کھیل تھا۔ گجرات‘کولکتہ‘سرنگاپٹم اورممبئی اس کے ابتدائی مراکز بنے۔ کراچی میں پہلا میچ نومبر1935ء میں سندھ اور آسٹریلیاکی ٹیموں کے مابین کھیلا گیا۔ اسے پانچ ہزارتماشائیوں نے دیکھا۔
پاکستان بناتو ابتدا میں کرکٹ امیر لوگوں کا کھیل تھا۔ایچیسن جیسے تعلیمی اداروں میں کھیلا جاتا تھا۔کرکٹ کے ابتدائی کھلاڑی اعیانی طبقے سے آئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ مقبول ہونے لگا اور1980 ء میں یہ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل بن چکا تھا۔بیسویں صدی کے اختتام تک‘کرکٹ میں مذہبی رجحانات کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔نہ صرف اس کا سراغ نہیں ملتا بلکہ معاملہ اس کے برعکس رہا۔ کرکٹ کے کھلاڑیوں کی ایک وجۂ شہرت ان کی رنگین مزاجی بھی تھی۔نذر محمداورایک گلوکارہ کا قصہ آج بھی سنایا جاتا ہے۔ عمران خان صاحب کی کہانیوں سے توبچہ بچہ واقف ہے۔
دلچسپ بات ہے کہ یہ شہرت ہاکی یا سکوائش کے کھلاڑیوں کی نہیں رہی جوعالمی شہرت رکھتے تھے اور جن کی کامیابیاں غیر معمولی تھیں۔ میرے علم میں نہیں کہ صلاح الدین‘سمیع اللہ یا جہانگیر خان سے کوئی سکینڈل منسوب ہوا ہو۔جوگلیمرکرکٹ کے کھلاڑیوں کو ملا‘وہ کم ہی کھلاڑیوں کو نصیب ہوا۔اس کے اسباب میں سرمایہ دارانہ نظام اورکھلی منڈی کی تجارت کا بڑا حصہ ہے مگر اس وقت یہ میرا موضوع نہیں۔سرِدست بات کو مذہب تک محدود رکھتے ہیں۔
کرکٹ میں مذہبی رجحان 'ایم ٹی جے‘ کے زیرِ اثر آیا۔روایتی طور پر تبلیغی جماعت کی دعوت اپنے اندر ایک عمومیت رکھتی ہے۔اس میں کوئی خصوصی ہدف نہیں ہوتا۔ طارق جمیل صاحب نے پہلی بارمعاشرے کے نمایاں افراد کو خصوصی مخاطب بنانا شروع کیا۔اس حکمتِ عملی کے پس منظر میں یہ خیال کارفرما ہے کہ اگرمعاشرے کے رجحان ساز افراد کسی دعوت کو قبول کر لیں تو اس سے عام آدمی تک دعوت کا ابلاغ آسان ہوجاتا ہے کیونکہ یہی لوگ ہیں‘عوام جن کے پیچھے چلتے ہیں۔
طارق جمیل صاحب نے سیاست کے ساتھ‘کرکٹ اور فلم ٹی وی سے وابستہ افراد سے خصوصی مراسم استوار کیے اوران سے مسلسل رابطہ رکھا۔ ایک مرتبہ مجھے انہوں نے تفصیل بتائی کہ کس طرح معروف بھارتی اداکار عامر خان سے انہوں نے شاہد آفریدی کے ذریعے رابطہ قائم کیااوران تک دعوت پہنچائی۔دعوت کے حوالے سے یہ ایک حکیمانہ طرزِ عمل ہے اور اس کی افادیت واضح ہے۔
کرکٹ کے کھلاڑی بھی ان کی دعوت کا ہدف بنے۔سب سے پہلے کون ان کی دعوت سے متاثر ہوا‘یہ تو میں نہیں کہہ سکتا لیکن سعید انور اور یوسف یوحنا غالباًان کے پہلے مدعوین میں سے تھے۔یوحنا نے دین اسلام اختیار کر لیا۔سعید انور ایک ذاتی صدمے سے گزرے جس نے انہیں غیر معمولی طور پر متاثر کیا۔مذہب اس سے نکلنے میں ان کا معاون بنا اور اس سے ان کی زندگی کا ڈھنگ بدل گیا۔پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔انضمام الحق‘ مشتاق احمد‘ ثقلین مشتاق‘شاہد آفریدی ‘رضوان اور بہت سے دوسرے کھلاڑی بھی اسی رنگ میں رنگتے چلے گئے۔یہ رنگ کچھ ایسا چڑھا کہ اب کرکٹ ٹیم کا غالب رنگ یہی ہے۔اگر 1980ء کی دہائی میں کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی 'پلے بوائے‘ کی شہرت رکھتے تھے تو اب ان کی شہرت کی وجہ مذہب ہے۔
تبلیغی جماعت ایک خاص مذہبی مزاج پیدا کرتی ہے۔اس کا متاثر خود کو ذاتی اصلاح تک محدود نہیں رکھتا۔وہ دوسروں کی اصلاح کے لیے بھی بے چین رہتا ہے اور اس اصلاح کی واحد صورت اس کے نزدیک یہی ہو تی ہے کہ دوسرے بھی تبلیغی جماعت میں شامل ہوجائیں اور چند ظواہر کی لازماً پابندی کریں جن میں ایک داڑھی کا بڑھانا بھی ہے۔ میں چند دن پہلے ایک تصویر دیکھ رہا تھا کہ اسی' ٹی۔ 20‘ورلڈ کپ کے دوران میں‘ رضوان آسٹریلیا کی کسی مسجد میں تبلیغ کر رہے تھے۔اسی طرح گراؤنڈ میں بھی کھلاڑیوں کا مذہبی تشخص غالب رہتا ہے۔میچ کے دوران میں سجدۂ شکر یا وظائف کا پڑھنا اب معمول بن گیا ہے۔ کھلاڑی گفتگو بھی مذہبی لغت میں کرنے لگے ہیں۔
اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جب یہ ٹیم ناکام ہوتی ہے تو اس کے ناقدین‘مذہب کو اس کی ناکامی کا ایک بڑا سبب قرار دیتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ جتنی توجہ مذہب پر دی جاتی ہے‘اتنی اگر کھیل کو بہتر بنانے پر دی جائے تواس سے ناکامیاں کم ہو جائیں گی۔اس بات کو کثرت سے دہرایا جاتا ہے اور اسے استہزا کا موضوع بھی بنایا جا تا ہے۔میں نے اس پر جب بھی غور کیا‘واقعہ یہ ہے کہ مجھے یہ اعتراض بے بنیاد اور بہت سطحی محسوس ہوا۔
پہلی بات تو یہ کہ جو ٹیم ایک عالمی مقابلے میں دوسری بڑی ٹیم بن کر سامنے آئی ہو‘اس کی کارکردگی کو کسی طور کم تر نہیں کہا جا سکتا۔فائنل میں ہماری ہار ‘باوقار تھی۔ انگلستان کی ٹیم کو جیتنے کے لیے سخت محنت کرنا پڑی۔اگر انگلینڈ اور بھارتی ٹیم کا مقابلہ سامنے رہے تو پاکستان کی کارکردگی بھارت سے بہت بہتر تھی۔اس لیے یہ مقدمہ کم ازکم اس ورلڈ کپ کی کارکردگی کی بنیاد پر‘ درست نہیں۔اس کے ساتھ ‘اس کی بھی کوئی واقعاتی شہادت موجود نہیں کہ مذہب میں کھلاڑیوں کی دلچسپی ان کی کارکردگی پر منفی طور پر اثر انداز ہوئی ہو۔یا انہوں نے کھیل کے لیے ضروری مشق اور محنت کے بجائے وظائف یا کسی غیبی تائید پر انحصار کیا ہو۔انہوں نے اگر اللہ کی مدد چاہی ہے تو اس سے پہلے انسانی کاوش میں کوئی کمی روا نہیں رکھی۔
اگر کہیں کوئی کمی یا کمزوری رہی ہے تو اس کا سبب کوئی اور ہے۔جیسے کھلاڑیوں کا انتخاب۔جیسے کسی مرحلے پر کپتان کا صحیح فیصلہ نہ کرنا۔اب اس سے مذہب کا کیا تعلق؟ مثال کے طور فائنل میں یہ فیصلہ کہ شاہین آفریدی کا 'اوور‘ کون مکمل کرے گا‘کپتان کو کرناتھا اور اپنی بصیرت کے مطابق۔اس کے غلط یا صحیح ہونے میں مذہب کا کوئی دخل نہیں۔پوری تیاری کے بعد اللہ سے مدد مانگنا ایک مسلمان کی نفسیاتی قوت میں اضافہ کرتا ہے۔یہ کام صرف مسلمان نہیں کرتے‘مسیحی اورہندوکھلاڑی بھی کرتے ہیں۔کیا بھارت کے مندروں میں ٹیم کی کامیابی کی دعائیں نہیں ہوتیں؟
ہمارے ہاں کچھ لوگ مذہب کے خلاف ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔وہ ہر خرابی کا باعث مذہب میں تلاش کرتے ہیں۔اس میں کیا شبہ ہے کہ ہمارے بہت سے مسائل ہماری مذہبی تعبیرات کی دِین ہیں۔ان کی نشاندہی جتنی میں نے کی ہے‘کسی دوسرے کالم نگار نے نہیں کی لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مذہب فی نفسہ کوئی منفی قوت ہے اور اس کو اگرسماج سے دیس نکالا دے دیا جائے توزندگی کے ہر میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے جا سکتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ انسان جب کسی تعصب میں مبتلا ہو جائے تو اس کے لیے صائب رائے اختیار کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ دلیل ہے جو غلط اور صحیح کا فیصلہ کرتی ہے۔ورلڈ کپ میں ٹیم کی کارکردگی خود اس مقدمے کی نفی کے لیے کفایت کرتی ہے جو مذہب کے خلاف قائم کیا گیا ہے۔