ہمارا تصورِ اسلام ہماری جغرافیائی اور کلچرل حساسیت سے ماخوذ ہے۔ مسلم معاشرے زیادہ تر پدر سرانہ ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اسلام کو لاحق تمام خطرات عورت کے وجود سے پھوٹ رہے ہیں۔ وہی ہے جو مرد کو گمراہ اور سماج کو بے راہ کرتی ہے۔ اس کو اگر مرد سے دور اور چار دیواری میں قید کر دیا جائے تو سماجی فتنوں کے دروازے بند ہو سکتے ہیں۔ مرد کی عصمت کو محفوظ بنانے کا یہی طریقہ ہے۔
اخباری خبر ہے کہ آزاد کشمیر کی حکومت نے تعلیمی اداروں میں خواتین اساتذہ اور طالبات کے لیے پردہ لازم کر دیا ہے۔ اس پر تحسین کے پھول نچھاور کیے جا رہے ہیں کہ وہاں کی حکومت نے کیسے اسلام کے ساتھ سچی وابستگی کا ثبوت دیا ہے۔ اسی طرح ہر سال عورت مارچ کو روکنا اسلام کا سب سے بڑا ''تقاضا‘‘ بن جاتا ہے اور مجاہدین سر پرکفن باندھے سڑک پر نکل آتے ہیں کہ آج کے دن اگر دینی حمیت کا مظاہرہ نہ کیا توکب کریں گے۔
عورت کے بعد‘ ہمارا دوسرا ہدف‘ عام طور پر مذہبی اقلیتیں ہیں۔ ان کو آئے دن یہ احساس دلانا بھی ہمارا ''مذہبی فریضہ‘‘ ہے کہ وہ ایک اسلامی ملک میں رہ رہے ہیں اور انہیں اپنی حدود میں رہنا چاہیے۔ ایک کالم سے اٹھنے والی صدائے احتجاج سے معلوم ہوا کہ سول سروسز اکیڈمی میں ہولی کا تہوار منایا گیا۔ سوال یہ اٹھایا گیا کہ جس ملک کے اعلیٰ تربیتی ادارے میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے‘ اس کا مستقبل کیا ہوگا؟
میں تیس پینتیس برس سے اسلام اور سماجیات کا طالب علم ہوں۔ مقدور بھر اللہ کی ہدایت اور سماجی حرکیات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم جسے اسلام کے طور پر پیش کرتے ہیں‘ وہ اکثر ہمارے ان احساسات کا نتیجہ ہے جو ہمارے کلچر اور ماحول سے پھوٹے ہیں۔ ہم نے ان کی روشنی میں دینی متون کی تعبیر کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب کوئی اس کلچر اور ماحول کی تبدیلی کی طرف توجہ دلاتا ہے تو ہم اسے مطعون کرتے ہیں کہ وہ خود بدلتا نہیں‘ دین کو بدلنا چاہتا ہے۔ مراکش سے افغانستان تک مسلم معاشروں کے سماجی رویے یکساں نہیں۔ جب سب ایک دین کو مانتے ہیں تو رویوں میں یہ تنوع کیوں ہے؟
یہ وہ سوال ہے جو مذہبی نہیں۔ اس کا تعلق زمان و مکان سے ہے۔ انبیا کی سیرت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سماجی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے لوگوں تک احکامِ الٰہی کا ابلاغ کر تے اور اس باب میں اپنی ترجیحات کا تعین کرتے ہیں۔ اس میں حالات کے ساتھ اہم اور اہم تر کے فرق کو بھی ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اسے قرآن مجید نے حکمت سے تعبیر کیا ہے۔ مذہب سماج کو تدریجاً بہتری کی طرف لاتا ہے۔ جب اس کا ادراک نہیں ہوتا تو ہم دینی حمیت کے نام پر لوگوں کو تکلیفِ مالایطاق میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
آج مسلمان حکومتوں کی ترجیح کیا ہونی چاہیے؟ تعلیمی اداروں میں خواتین کو اپنی تعبیرِ دین کے تحت پردہ کرانا یا خواتین کو سماجی تحفظ فراہم کرنا؟ اس سے بھی اہم تر خود تعلیم کی فراہمی ہے۔ صنفی امتیاز سے ماورا ہر شہری کی تعلیم تک رسائی یقینا پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ انہوں نے خواتین پر تعلیم کے دروازے بند کیے تو دلیل یہ دی کہ ریاست ان کے لیے علیحدہ تعلیمی ادارے نہیں بنا سکتی‘ اس لیے انہیں مخلوط اداروں میں جانے سے روک دیا ہے۔ گویا ترجیح تعلیم نہیں بلکہ اس خود تراشیدہ تصورِ اخلاق کا تحفظ ہے جس کے مطابق خواتین‘ مرد کے اخلاق کے لیے خطرہ ہیں۔
ترجیحات کا جب درست تعین نہیں ہوتا تو پھر وہ رویہ پیدا ہوتا ہے جس کی طرف حضرت مسیحؑ نے اشارہ کیا کہ لوگ مچھر چھانتے اور اونٹ نگلتے ہیں۔ ریاست کا پورا نظام عدل فراہم نہیں کر رہا۔ وقت کا حکمران قدم قدم پر اسلامی اخلاقیات کو پامال کرتا ہے۔ اس کے ساتھ اگر وہ رحمۃ للعالمین اتھارٹی نام سے ایک ادارہ بنا دیتا یا ٹی وی کی خواتین اینکر کو دوپٹہ اوڑھا دیتا ہے تو اسے اسلام کا نمائندہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ بنیادی حقوق مسلسل پامال ہوتے ہیں مگر اس کا کسی کو احساس نہیں ہوتا۔ پاکستان میں سب سے زیادہ ہونے والا جرم قتل ہے۔ انسانی جان کی حرمت خود عالم کے پروردگار نے قائم کی۔ اس کے خلاف بیداری کبھی ہماری ترجیح نہیں بنی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں دینی حمیت تو ہے‘ دینی حکمت نہیں۔
عورت ہو یا مرد‘ اس کے سماجی کردار کا تعین حالات کرتے ہیں۔ ایک مسلمان کا اصل امتحان یہ ہے کہ غیر سازگار معاشرتی حالات میں کیسے خدا کا بندہ بن کر جیے۔ یہ چیلنج مرد کے لیے ہے اور عورت کے لیے بھی۔ مثال کے طور پر ایک خاندان کی پہلی ترجیح مالی خود کفالت ہے۔ مالی عدم استحکام سب سے پہلے فرد کے اخلاق پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اس کی عزتِ نفس باقی رہتی ہے نہ اس کی عفت۔ اس لیے ایک خاندان کی پہلی ترجیح یہی ہونی چاہیے کہ وہ گھر کے ہر فرد کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرے۔ اسے اس قابل بنائے کہ کوئی اس کا استحصال نہ کر سکے۔
ا س استحصال سے محفوظ رہنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم سماجی حالات کے پیشِ نظر‘ اپنی حفاظت کریں۔ یہ مرد ہو یا عورت‘ گھر سے نکلتے وقت چند باتوں کا اہتمام کرے۔ ان کو اللہ کی کتاب میں بیان کر دیا گیا ہے۔ اگر عام حالات ہوں تو سورۃ نور میں بتایا گیا کہ مرد کیا کرے اور عورت کیا کرے۔ اگرفساد اور سماجی بدامنی کا ماحول ہو تو پھر کیا کیا جائے؟ اس کا جواب سورۃ احزاب میں دے دیا گیا ہے۔
پاکستان کو آج بڑے بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ اگر ہم پیغمبرانہ حکمت سے فائدہ اٹھا سکیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہے۔ نبیﷺ نے معاشی استحکام کو ترجیح بنایا تو سود اور غلامی جیسے ناپسندیدہ کاموں کو نہ چاہتے ہوئے بھی‘ کئی سال گوارا کیا۔ آپؐ اگر پہلے ہی دن غلامی کے خاتمے کا اعلان فرما دیتے تو سماجی بُنت قائم نہ رہ سکتی۔ آپؐ نے ایک طرف نیا بحران پیدا نہیں ہونے دیا اور دوسری طرف سماج کی اخلاقی سطح اتنی بلند کر دی کہ غلامی اور سود جیسے استحصالی مظاہر اس کے لیے ناقابلِ قبول ہو گئے۔ سزاؤں کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔
پاکستان میں عام آدمی کے معاشی حالات ناگفتہ بہ ہو چکے۔ اس کو جسم و جاں کا رشتہ ہی قائم نہیں رکھنا‘ اپنے اخلاقی وجود کی بھی حفاظت کرنی ہے۔ جب ریاست اپنی ذمہ داری نہیں ادا کر رہی ہے تو پھر ہماری پہلی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ہم مواخات کی طرز پر سماج کو ترغیب دیں کہ وہ معاشی وسائل کا رخ ضرورت مندوں کی طرف کر دے۔ اس وقت انفاق فی سبیل اللہ ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔
جب ہم تعلیمی اداروں میں خواتین کے دوپٹہ اوڑھنے کو سماج کی اسلامی تشکیل کی طرف بڑا قدم سمجھیں گے اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی پر حساس نہیں ہوں گے تو اس سے ہم نہ تو اسلام کی کوئی خدمت کریں گے اور نہ سماج کی۔ اس بنیادی تصور پر بھی ہمیں غور کرنا ہوگا کہ اسلام صرف عورتوں کے لیے نہیں آیا۔ یہ بنی آدم کے لیے ہدایت ہے جس میں صنفی امتیاز سے ماورا سب انسان شامل ہیں۔ عورت اگر مرد کے ایمان کے لیے آزمائش ہے تو مرد عورت کے لیے آزمائش ہے۔ اللہ کے اس قانونِ آزمائش کی تفہیم ہی سے ہم سماج کے بارے میں الٰہی سکیم کو سمجھ سکتے ہیں۔