تمام تر جاہ و جلال کے باوصف‘ ریاست عمران خان صاحب کے سامنے کیوں بے بس دکھائی دے رہی ہے؟
تربیت یافتہ پولیس اور وسائل کی فراوانی کے باوجود حکومت کیوں انہیں گرفتار نہ کر سکی؟
نظامِ عدل کے دامنِ حلم میں‘ خان صاحب کے لیے وہ وسعت کیسے آئی‘ عام شہری تو کجا‘ عام سیاستدان بھی جس کا تصور نہیں کر سکتا؟
ان تمام سوالات کا ایک ہی جواب ہے اور وہ بھی دو لفظی: سیاسی عصبیت۔
کسی فردکی سیاسی پذیرائی بعض اوقات اتنی بڑھ جاتی ہے کہ اس پر عام قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ وہ قانون سے بڑا تو نہیں ہوتا لیکن قانون کی گرفت میں بھی نہیں آتا۔ یوں نہیں ہے کہ وہ قانون شکنی کا مرتکب نہیں ہوتا‘ ہوتا ہے مگر قانون کی تعبیر کا اختیار اسے حاصل ہو جاتا ہے۔ اس کو شبلی فراز جیسے تحریکِ انصاف کے راہنماؤں نے پوری خوبی سے بیان کر دیا ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ خان صاحب گرفتاری کیوں نہیں دیتے؟ جواب دیا گیا: جب انہوں نے کوئی قانون نہیں توڑا تو گرفتاری کیوں دیں؟ گویا یہ طے کرنا عدالت کا نہیں‘ ملزم کا کام ہے کہ اس نے قانون توڑا یا نہیں۔
میں اس معاملے کو غلط یا صحیح کے تناظر میں نہیں‘ ایک سیاسی عمل کے طور پر دیکھ رہا ہوں۔ حکومتی جماعتوں کے حامی تلملا رہے ہیں کہ عمران خان کو کیوں گرفتار نہیں کیا جا رہا؟ حکومت کے لیے یہ کام زیادہ مشکل نہیں۔ عام لوگوں کا کوئی جتھا‘ تربیت یافتہ پولیس کے مقابلے میں تادیر کھڑا نہیں رہ سکتا۔ وہ گرفتار ہو سکتے ہیں مگر اس کی ایک قیمت ہے۔ یہ قیمت چکانا حکومت کے لیے آسان نہیں۔ مثال کے طور پر حکومتی اقدام کے نتیجے میں چند انسانوں کی جان جا سکتی ہے۔ اس کے جو سیاسی مضمرات ہوں گے‘ ان کو سنبھالنا حکومت کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔
تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ ریاست جب سیاسی عصبیت کا مقابلہ طاقت سے کرنا چاہتی ہے تو اس کے نتائج اس کے حق میں نہیں نکلتے۔ وہ اپنا ظاہری ہدف اگر حاصل کر لے تو بھی اس کے دور رس نتائج بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ ریاست نے بھٹو صاحب کو پھانسی چڑھا دیا۔ اسے مگر اس کی ایک قیمت ادا کرنا پڑی۔ سیاستدان اگر کلٹ بن جائے تو پھر معاملہ سنگین تر ہو جاتا ہے۔ عمران خان بھی ایک کلٹ ہیں۔ میں نے سب سے پہلے اس جانب توجہ دلائی تھی۔ اب سب نے مان لیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اقتدار سے نکل کر میں زیادہ 'خطرے ناک‘ ہو جاؤں گا۔ انہوں نے اپنا قول سچ کر دکھایا۔
کلٹ‘ مذہب میں ہو یا سیاست میں‘ عقل وخرد سے بیگانگی اس کی پہلی نشانی ہے۔ اس پر کوئی دلیل کارگر نہیں ہوتی۔ لوگ ایک خاص طرح کی نظر بندی کے زیرِ اثر ہوتے ہیں۔ ان کے لیے کلٹ خود ہی دعویٰ ہوتا ہے اور خود ہی دلیل۔ اس کی بات حق کے کسی مروجہ اخلاقی پیمانے پر نہیں پرکھی جاتی کیونکہ حق وہی ہوتا ہے جو اس کی زبان سے صادر ہوتا ہے۔ اسے کسی اخلاقی معیار پر پورا نہیں اترنا کہ اخلاق اس کے طرزِ عمل ہی کا نام ہے۔ اس کے حلقے میں صرف ہیجان کی حکمرانی ہوتی ہے۔ اس لیے وہ بڑی چالاکی کے ساتھ اس ہیجان کو کبھی کم نہیں ہونے دیتا۔
ماضی قریب اور اسی خطے کی دومثالیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ ایک شیخ مجیب الرحمن ہیں۔ ایک وقت تھا کہ وہ بنگالیوں کے واحد لیڈر قرار پائے۔ وہ پورے پاکستان کے نہیں‘ صرف مشرقی پاکستان کے لیڈر تھے۔ انتخابات میں وہ صرف مشرقی پاکستان سے کامیاب ہوئے۔ مغربی پاکستان میں انہیں ایک نشست نہ مل سکی۔ چونکہ مشرقی پاکستان کی آبادی زیادہ تھی‘ اس لیے قومی اسمبلی میں اس کی نشستوں کی تعداد بھی زیادہ تھی۔ یوں پارلیمانی سیاست کے معیار پر‘ وہ اس کے مستحق تھے کہ اقتدار انہیں منتقل کر دیا جاتا۔ جب نہیں کیا گیا تو ان کی سیاست پر ہیجان غالب آگیا۔
عوامی لیگ میں ' مکتی باہنی‘ نام سے نوجوانوں کا ایک عسکری گروہ منظم کیا گیا تھا‘ جس نے دلیل کے بجائے ہیجان کو فیصلہ کن حیثیت دے دی۔ مکتی باہنی کے ذمہ دو کام تھے۔ ایک نفرت کو اتنا بڑھا دیا جائے کہ بنگالی نوجوان اس کی آگ میں مسلسل سلگتا رہے۔ دوسرا سیاسی مخالفین کا ناطقہ بند کر دیا جائے کہ وہ عوامی لیگ کے خلاف کھڑا ہونے کی جرأت نہ کر سکیں۔ اس ہیجان نے معاملات کو اس سطح تک پہنچا دیا کہ ریاست تو ایک طرف رہی‘ خود مجیب الرحمن اس کے ہاتھوں بے بس ہو گئے۔
ریاست نے جب شیخ مجیب الرحمن کے خلاف اگرتلہ سازش کا مقدمہ بنایا تو اس نے ہیجان کو مزید ہوا دی۔ ایسی فضا میں ریاستی مقدمات اگر درست ہوں تو بھی ان کا انجام یہی ہوتا ہے۔ دوسری طرف ایک ہی سیاسی قوت تھی جو مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے خلاف کھڑی تھی۔ یہ جماعت اسلامی تھی۔ پیپلز پارٹی کا تو مشرقی پاکستان میں ایک امیدوار نہ تھا۔18جنوری 1970ء کو جماعت اسلامی نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ایک جلسہ رکھا۔ عوامی لیگ کے تربیت یافتہ عسکری ونگ نے اس کو الٹ دیا۔
جناب مجیب الرحمن شامی اس جلسے میں موجود تھے۔ انہوں نے اس کی چشم دید روداد لکھی ہے جو جناب الطاف حسن قریشی کی کتاب ''مشرقی پاکستان: ٹوٹا ہوا تارا‘‘ میں شامل ہے۔ قریشی صاحب نے بھی لکھا ہے کہ مولانا مودودیؒ جب جلسے میں شرکت کے لیے روانہ ہوئے تو راستے میں عوامی لیگ کے نوجوانوں نے انہیں روک لیا۔ انہوں نے مولانا کی بزرگی کا حیا کیا اور ان سے بد تمیزی نہ کی؛ تاہم انہیں جلسہ گاہ جانے نہ دیا۔ جلسہ گاہ میں موجود لوگوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ عوامی لیگ کا پروپیگنڈا دیکھیے کہ اس کا ذمہ دار بھی جماعت اسلامی کو ٹھیرا یا گیا۔ اس ہیجانی سیاست پر ریاست قابو پا سکی نہ سیاسی جماعتیں۔ انجام سے ہم سب باخبر ہیں۔
دوسرا واقعہ سکھ راہ نما سنت جرنیل سنگھ کا ہے۔ اس کی حیثیت بھی ایک کلٹ کی تھی۔ ریاست نے اسے طاقت سے ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ بظاہر ریاست کامیاب رہی۔ دربار صاحب کا تالاب انسانی لہو سے بھر گیا۔ غالباً خشونت سنگھ نے لکھا تھا کہ سنت سنگھ کی لاش ہمیشہ بھارت اور سکھوں کے درمیان پڑی رہے گی۔ ریاست نے اس کی قیمت ادا کی‘ اندرا گاندھی کی جان اور خالصتان تحریک کی صورت میں۔
بھٹو صاحب اور نواز شریف صاحب کو بھی سیاسی عصبیت حاصل تھی۔ ان کے خلاف ریاست نے طاقت استعمال کی تو ریاست کے لیے اس کے ایسے نتائج نکلے جس نے اس کی چولیں ہلا دیں؛ تاہم ان میں اور عمران خان میں فرق ہے۔ یہ دو سیاستدان تھے‘ کلٹ نہیں۔ عمران خان کلٹ ہیں۔ ان کی مماثلت اگر ہو سکتی ہے تو وہ مجیب الرحمن سے ہو سکتی ہے۔ دونوں کی حکمتِ عملی ایک جیسی ہے۔ مجیب الرحمن اصلاً سیاستدان تھے۔ انہوں نے جب ہیجان کو فروغ دیا تو سیاست ان کے ہاتھ سے نکل گئی۔ عمران خان تو اصلاً سیاستدان نہیں‘ ایک ایجیٹیٹرہیں۔ وہ تو زیادہ 'خطرے ناک‘ ہو سکتے ہیں۔
میں تواتر سے لکھ ر ہا ہوں کہ سیاسی عصبیت کو سمجھے بغیر سیاسی حرکیات کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ بھی عرض کر تا رہا ہوں کہ ہیجان کی سیاست کا انجام کیا ہو گا۔ آج ان کے نتائج لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے۔ اب ان سوالات کے جواب مل جانے چاہئیں جو کالم کی ابتدا میں اٹھائے گئے ہیں۔ تحریکِ انصاف پر پابندی مسئلے کا حل نہیں۔ ریاست کے لیے اب نئے اقدام نہیں‘ پچھلے اقدام کے نتائج سمیٹنے کا وقت ہے۔ بہتر یہی ہے کہ معاملات کو اس کے فطری بہاؤ کے حوالے کر دیا جائے۔