سوال کیسے اٹھایا جائے؟
تطہیرِ علم کے لیے یہ سوال کلیدی ہے۔ میں نے استاذ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی سے جو کچھ سیکھا‘ اس میں اہم ترین سبق یہی ہے۔ معلومات کی اہمیت اپنی جگہ مگر یہ ایک بے معنی عمل ہے اگر تطہیرِ علم نہ ہو۔ دونوں میں فرق وہی ہے جو کتابوں کے ڈھیر اور فلسفی کے دماغ میں ہے۔ منتشر اور بے ترتیب کتابوں کے انبار سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ آپ اس ڈھیر کے ساتھ جتنا وقت گزاریں‘ حاصل پراگندگیٔ فکر کے سوا کچھ نہیں۔ فلسفی یا دانشورکا دماغ معلومات کو ترتیب دیتا اور ان میں ایک ربط پیدا کرتے ہوئے انہیں ایک قابلِ فہم مقدمے میں بدل دیتا ہے۔ ممکن ہے کہ مقدمہ درست نہ ہو لیکن فلسفی کی یہ خدمت کم اہم نہیں ہوتی کہ وہ حصولِ علم کے عمل کو صحیح راستے پر ڈال دیتا ہے۔
لوگوں کے پاس معلومات ہوتی ہیں لیکن فلسفی یا دانشور کا دماغ نہیں ہوتا۔ یوں وہ ان معلومات کی بنیاد پر کچھ ایسے سوالات اٹھاتے ہیں جو 'عالمانہ‘ نہیں ہوتے۔ اس سے خلطِ مبحث پیدا ہوتا ہے اور معاملات سلجھنے کے بجائے مزید اُلجھ جاتے ہیں۔ اگر ان پر یہ واضح ہو کہ معاملے کو کس زاویے سے اٹھانا ہے تو ان کے بہت سے فکری تضادات از خود دور ہو جائیں۔
اس بات کی طرف‘ سب سے پہلے میرا دھیان اُس وقت ہوا جب میں نے مولانا امین احسن اصلاحی کی کتاب ''تزکیۂ نفس‘‘ پڑھی۔ اس کی معنویت جاوید صاحب کی صحبت سے پوری طرح واضح ہوئی۔ مولانا نے یہ مقدمہ قائم کیا ہے کہ تزکیۂ نفس کے لیے تزکیۂ علم لازم ہے۔ اگر علم کا تزکیہ نہ ہو تو تزکیۂ نفس کی کوشش ایسے افکار اور اعمال سے آلودہ ہو سکتی ہے جس کا انجام گمراہی ہے۔
یہ بات تدریجاً واضح ہوتی گئی جب تصوف پر مزید پڑھنے کا موقع ملا۔ مسلم سماج میں جہاں تصوف کی ایک روایت ہے وہاں نقدِ تصوف کی ایک روایت بھی ہے جسے 'اسلامی تصوف‘ کہا گیا۔ علامہ اقبال جیسے صوفی اور مفکر نے بھی یہ لکھا کہ 'عجمی تصوف‘ اسلام کی سر زمین پر ایک اجنبی پودا ہے۔ اسی سوچ کے تحت‘ تصوف کی تطہیر کی ایک کوشش شروع ہوئی تاکہ اسے عجمی تصورات سے پاک کیا جائے۔ یہ کاوش بے نتیجہ رہی۔ اہلِ علم نے بتایا کہ تزکیۂ تصوف کے نام پر جو کچھ ہوا‘ وہ محض الفاظ کا الٹ پھیر ہے۔ مثال کے طور پر شیخ احمد سرہندی کے بارے میں یہ خیال کیا گیا کہ انہوں نے وحدت الشہود کا تصور دے کر 'اسلامی تصوف‘ کو وحدت الوجود کے ان اثرات سے محفوظ کر دیا جو عجمی تصور ہے۔ شاہ ولی اللہ نے بعد میں آ کر یہ بتایا کہ یہ محض لفظی نزاع ہے۔ ان دونوں میں کوئی جوہری فرق نہیں۔
یہ کوشش لاحاصل کیوں ہوئی؟ اس کی وجہ وہی ہے کہ مسئلے کو صحیح بنیاد پر نہیں سمجھا گیا۔ سوال ایک غلط جگہ سے اٹھایا گیا جس کا یہی نتیجہ نکل سکتا تھا۔ اہلِ علم نے اس سوال کو مخاطب بنایا کہ اسلامی تصوف کو عجمی تصوف کے اثرات سے کیسے محفوظ بنایا جائے؟ اس سوال میں یہ غلطی مضمر تھی کہ تصوف ایک درست فلسفۂ حیات ہے۔ ہمارا کام اسے قرآن و سنت کے مطابق ثابت کرنا ہے۔ یوں تصوف سے ہمارا فکری و مذہبی تشخص مجروح نہیں ہوگا۔ یہ ممکن نہیں تھا۔ تصوف‘ اسلام کے برعکس ایک فلسفۂ حیات ہے جو پہلے سے موجود تھا۔ جب دونوں کا مآخذ ایک نہیں تو ان میں تطبیق کیسے ہو سکتی تھی؟
تصوف کی روایت اسلام سے قدیم تر ہے۔ یہ دو چیزوں کا مجموعہ ہے۔ ایک فلسفۂ حیات اور ایک طریقۂ حیات۔ بطور طریقہ یا منہج‘ یہ دنیا سے بے رغبتی کا مظہر ہے۔ یہ انسان کو ان ترغیبات سے اُٹھ جانے کا درس دیتا ہے جو فرد کی شخصیت اور سماج میں فساد کا باعث بنتی ہیں۔ مسلم سماج میں جب دنیا داری کے اثرات بڑھنے لگے تو کچھ نیک لوگوں نے یہ خیال کیا کہ صوفیانہ روایت کو مسلم معاشرے میں بھی رواج دیا جائے تاکہ لوگ دنیا کی محبت سے نکلیں جو حرص و لالچ کو فروغ دیتی اور انسان کو خود غرض بناتی ہے۔
اس تصور کو مسلمان سماج میں مقبول بنانے کے لیے یہ کہا گیا کہ تصوف بھی وہی کچھ ہے جسے اسلام 'تزکیۂ نفس‘ کہتا ہے۔ اس طرح تصوف کا ایک ایسا تصور متعارف کرانے کی کوشش ہوئی جو ایک مسلمان کے لیے اجنبی نہ ہو۔ بات مگر یہاں تک محدود نہیں رہی۔ تصوف کو طریقۂ حیات کے ساتھ‘ فلسفۂ حیات کے طور پر بھی قبول کر لیا گیا۔ اب اس فلسفے کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت پیش آئی۔ مثال کے طور پر وحدت الوجود‘ تصوف کی اساس ہے۔ اب مسلم صوفیا نے یہ ثابت کرنا شروع کیا کہ قرآنِ مجید بھی اسی کو پیش کرتا ہے۔ یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ مسلم سماج میں تصوف کی پوری روایت شامل ہو گئی جو قدیم تھی۔ اس موقع پر کچھ اہلِ علم کو خیال ہوا کہ قرآن مجید اور سنتِ رسولﷺ ان باتوں کی تائید نہیں کرتے جو تصوف کے ذیل میں بیان کی جاتی ہیں۔ جیسے وحدت الوجود۔ یوں اس پر تنقید شروع ہوئی اور اصلاحِ تصوف کی تحریک اٹھی۔ امام ابن تیمیہ اس کی نمائندہ شخصیت ہیں۔ شیخ احمد سرہندی بھی اسی طبقے میں شامل ہیں۔
اس سے بچنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ اس مسئلے کو صحیح جگہ سے اٹھایا جاتا۔ صحیح جگہ یہ تھی کہ تزکیۂ نفس کے باب میں سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا کہ قرانِ مجید کیا کہتا ہے اور اللہ کے رسولﷺ نے اس باب میں کیا راہ نمائی فرمائی ہے۔ قرآنِ مجید نے تزکیے کو پیغمبر کی بعثت کا مقصد قرار دیا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو بات پیغمبر بھیجنے کی وجہ ہے‘ اسلام اسی کے بارے میں کوئی راہ نمائی نہ دے اور ہمیں اس مقصد کے لیے کسی دوسری روایت کی طرف رجوع کرنا پڑے؟ اگر پیغمبر اس لیے تشریف لائے کہ وہ انسانوں کا تزکیہ کریں تو لازم ہے کہ ان کے لائے ہوئے دین میں اس کے حصول کا مکمل ضابطہ موجود ہو۔
اس کے لیے ضروری تھا کہ تزکیۂ نفس کے افکار اور اعمال کو قرآنِ مجید اور نبی کریمﷺ کے اسوہ میں تلاش کیا جائے۔ اگر ہم یہاں سے تزکیۂ نفس کا سفر شروع کریں گے تو اس کا کوئی امکان نہیں کہ کوئی عجمی یا غیراسلامی تصور مسلم سماج میں در آئے۔ اس کے بعد ہمیں اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ اسلامی تصوف کے کسی خود ساختہ تصوف کو عجمی تصورات سے پاک کرنے کی سعی لاحاصل میں توانائیاں برباد کرتے رہیں۔ یہی وہ بات ہے جسے مولانا امین احسن اصلاحی 'تزکیۂ علم‘ کہتے ہیں۔ جب علم کا تزکیہ ہو جاتا ہے اور وہ قرآن و سنت کی بنیادوں پر استوار ہو جاتا ہے تو پھر تزکیۂ نفس کا سفر اس سمت میں شروع ہو جاتا ہے جس میں منزل یقینی ہے۔
میں آج کل جب لوگوں کو مذہبی اور سیاسی مباحث میں الجھتا دیکھتا ہوں تو اکثر خیال آتا ہے کہ یہ لوگ کس لاحاصل مشق میں مصروف ہیں؟ سوشل میڈیا تو گویا پراگندگیٔ فکر کا شاہکار ہے۔ جاوید احمد صاحب غامدی کی ایک بڑی علمی خدمت یہ ہے کہ انہوں نے سماج کو تطہیرِ علم کی راہ دکھائی۔ انہوں نے معاشرے کو سکھایا کہ سوال کیسے اٹھایا جاتا ہے۔ میں نے جب سے اس پہلو سے سوچنا شروع کیا ہے‘ مجھ پر یہ خوشگوار انکشاف ہوا کہ میں اکثر اپنی کم علمی کے باوجود‘ ان نتائج تک پہنچ جاتا ہوں جن پر بحرِ علوم میں برسوں شناوری کرنے والے پہلے سے پہنچے ہوتے ہیں۔