جو مذہبی مبلغین چودہ سو سال پہلے پیش آنے والے واقعات کی صحت کا آج فیصلہ کرنا چاہیں‘ ان کی دانش کی صرف داد دی جا سکتی ہے۔
مذہبی انتہا پسندی ایک نئے روپ میں ظہور پذیر ہے۔ گزشتہ تین چار عشروں میں اس کی نوعیت تبدیل ہو گئی تھی۔ عالمی سیاست حوالہ بنا جس نے مسلم معاشروں کو ایک آگ میں جھونک دیا۔ ہم سب سے زیادہ اس کا ہدف تھے۔ اس دوران میں وہ مذہبی جھگڑے پس منظر میں چلے گئے جو تاریخی واقعات کا نتیجہ تھے۔ خدا خدا کرکے یہ آگ کچھ ٹھنڈی پڑی تو ہمارے مذہبی ذہن نے اُن پرانے جھگڑوں کو پھر سے زندہ کر دیا۔ آج 'حدیثِ عمار‘ پر محاذ گرم ہے‘ درآں حالیکہ کتبِ تاریخ و حدیث‘ اس روایت پر مباحث سے مملو ہیں۔ میں نہیں جان سکا کہ اس کو ایک بار پھر زندہ کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ جس کو اس بحث سے دلچسپی ہے وہ ان کتابوں سے رجوع کر سکتا ہے۔
یا پھر اس روایت کے بارے میں کیا کوئی نئی تحقیق سامنے آئی ہے؟ اگر آئی ہے تو اسے کسی تحقیقی جریدے میں شائع کرایا جا سکتا ہے۔ اس پر میدانِ کارزار میں اترنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہمارے عہد میں حدیث کے ایک بڑے عالم شیخ ناصر الدین البانی نے ذخیرۂ احادیث پر نظرثانی کرتے ہوئے سند اور روایت کے پہلو سے نئے تحقیقی نتائج پیش کیے۔ بعض روایات کو صحیح مانا جاتا تھا۔ ان کی تحقیق کے نتیجے میں یہ روایات ضعیف قرار پائیں۔ یہ تحقیق علمی حلقوں میں زیرِ بحث رہی لیکن اس کی بنیاد پر کوئی ہنگامہ نہیں برپا ہوا۔ علم کی روایت اسی طرح آگے بڑھتی ہے۔
خرابی تب پیدا ہوتی ہے جب حکمت سے تہی دامن مذہبی مبلغین ان روایات کو گلی بازار کا موضوع بنا دیتے ہیں اور ان تاریخی تنازعات کو ایک بار پھر حل کرنا چاہتے ہیں جو چودہ سو سال سے لاینحل ہیں۔ جو مسائل علمی مجالس اور کتب میں حل نہیں ہو سکے‘ کیا چوک اور چوراہے میں حل ہو جائیں گے؟ یہاں زیرِ بحث لانے کا یہی نتیجہ ہے کہ وہ فتوے کا موضوع بنیں۔ فتویٰ باز جب اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں تو قضا کا منصب سنبھال لیتے اور یوں سماج کو فساد کی آماجگاہ بنا دیتے ہیں۔
مسائل اختلاف سے نہیں‘ رویے سے پیدا ہوتے ہیں۔ بد قسمتی سے رویوں کی تعمیر کا کہیں اہتمام نہیں کیا جاتا۔ اس وقت مذہب کے نام پر دو طرح کے لوگ سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں۔ ایک وہ جو روایتی دینی مدارس کے فارغ التحصیل ہیں۔ دوسرے وہ جو جدید تعلیم کے نمونے ہیں۔ مذہبی معاملات میں اختلاف کرتے وقت دونوں کا رویہ ایک جیسا ہوتا ہے۔ لغت ایک جیسی اور تصورِ مذہب بھی ایک جیسا۔ مذہب کا حقیقی مقصد کسی کے پیشِ نظر نہیں ہوتا۔
یہ حقیقی مقصد کیا ہے؟ مذہب فرد سے متعلق ہوتا ہے تو اس کا مقصد تزکیۂ نفس ہے۔ یہ سماج سے متعلق ہوتا ہے تو دعوت ہے۔ ہم مذہب کے نام پر جو معرکہ آرائی دیکھ رہے ہیں‘ ان میں ان دونوں باتوں کا کہیں گزر نہیں‘ الّا ماشاء اللہ۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی مبلغ کو اپنی حدود کا خیال نہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خود کو مبلغ نہیں کچھ اور مانتے ہیں۔ 'کچھ اور‘ کا تصور ہر کسی کے ہاں مختلف ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں داروغہ بنایا گیا ہے کہ وہ بزور لوگوں کے خیالات کو تبدیل کریں۔ جو ان کے نزدیک حق کی ترجمانی نہیں کر رہے‘ ان کے وجود سے یا ان کی سوچ سے زمین کو پاک کر دیں۔ دونوں میں جو راستہ اختیار کیا جائے گا‘ اس کا تعلق استعداد سے ہے۔
مذہب جیسے معاملات پر عوام سے ہم کلام ہونے کے آداب ہیں۔ یہ آداب دین نے سکھائے ہیں۔ اس پر اہلِ علم نے کتابیں لکھی ہیں۔ سوشل میڈ یا کے پیدا کیے ہوئے فساد سے یہ خیال ہوتا ہے کہ اس بحث میں ملوث لوگوں کو اس کی ہوا نہیں لگی۔ اس کی بنیادی وجہ وہی ہے کہ وہ جن تعلیمی نظاموں سے فارغ ہیں‘ اس میں اس تربیت کا کوئی اہتمام نہیں ہوتا۔
میرا خیال ہے اس معاملے میں حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس کے لیے وزارتِ مذہبی امور میں ایک محکمہ بنانا چاہیے جو ان لوگوں کی تربیت کرے جو معاشرے میں دینی دعوت کی ذمہ داری ادا کرنا چاہتے ہیں۔ ایک ٹیسٹ لے کر لوگوں کا انتخاب کیا جائے اور پھر انہیں ایک تربیتی پروگرام سے گزارا جائے۔ اس سے کامیابی کے ساتھ گزر جانے والوں کو ایک سرٹیفکیٹ جا ری کیا جائے جو انہیں قانونی طور پر یہ حق دیتا ہو کہ وہ معاشرے میں دعوتِ دین کا کام کر سکتے ہیں۔ ترکیہ کی وزارتِ مذہبی امور میں اسی طرح کا ایک ادارہ 'دیانت‘ کے نام سے قائم ہے۔
یہ رائے عقلِ عام پر مبنی ہے۔ ہمارے ہاں ایم بی بی ایس مکمل کرنے والے کو پریکٹس کا حق نہیں مل جاتا۔ اس مقصد کے لیے ایک سرٹیفکیٹ ضروری ہوتا ہے۔ اسی طرح ایل ایل بی کرنے والا وکالت نہیں کر سکتا۔ پہلے اسے بار کونسل سے سرٹیفکیٹ لینا ہوتا ہے۔ اسی اصول پر ایک سرٹیفکیٹ فرد یا ادارے کوجاری کیا جانا چاہیے جو دعوتِ دین کا کام کرنا چاہتا ہے۔ اس کام کے لیے جو بنیادی ٹیسٹ لینا چاہیے‘ اس کے لیے کسی سند کی ضرورت نہیں۔ صرف یہ پرکھنا چاہیے کہ مبلغ ضروری دینی تعلیم سے واقف ہے جو دعوت کے لیے لازم ہے۔ اسی سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر مساجد میں لوگوں کو خطبہ دینے کی اجازت ہونی چاہیے۔
جس طرح اتائی طبیب جان کے لیے خطرہ ہیں‘ اسی طرح حکمتِ دین سے عاری لوگ جب معاشرے میں مذہب کا مقدمہ لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں تو وہ مذہب کو نقصان پہنچاتے ہیں اور ساتھ سماج کو بھی فساد سے بھر دیتے ہیں۔ ان لوگوں کو سکھایا جا سکتا ہے کہ پبلک مقامات پر کس طرح کے مسائل زیرِ بحث آنے چاہئیں اور اگر ان سے کوئی سوال پوچھا جائے جس کا جواب کسی مذہبی کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس سے کیسے اعراض کیا جائے۔
مسجد بنیادی طور پر نماز اور عبادت کی جگہ ہے۔ اس کو مسلکی تبلیغ کا مرکز نہیں بننا چاہیے۔ یا تو اس میں نماز کے علاوہ کسی طرح کی تبلیغی سرگرمی کی اجازت نہیں دینی چاہیے اور اگر ہو تو پھر اس کا دروازہ سب مبلغین کے لیے کھلا ہونا چاہیے جن کے پاس سرٹیفکیٹ موجود ہو۔ حکیم لوگ تو مساجد میں اختلافی دینی امور پر گفتگو سے گریز کرتے ہیں۔ استاذ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی کا معاملہ یہ تھا کہ مسجد میں جب ان سے کوئی دینی سوال کرتا تو جواب نہیں دیتے تھے۔ سائل سے یہ کہہ دیتے کہ وہ ان کے گھر یا ادارے میں آ جائے۔
یہ اسی تربیت کا فقدان ہے کہ آج 'حدیثِ عمار‘ کو سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بنا دیا گیا ہے۔ یہ ایک روایت نہیں ہے‘ اس نوعیت کی بہت سی روایات ہیں جو لوگ تاریخی واقعات کی تاویل میں اپنے اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ ان قضیوں کا فیصلہ نہ پہلے ہوا ہے نہ اب ہو گا۔ ان کو باقی رہنا ہے۔ ہمیں صرف یہ سیکھنا ہے کہ ان اختلافات کے ساتھ کیسے ایک سماجی وحدت قائم ہو سکتی ہے۔ اگر مذہب بیان کرنے کا کام غیرتربیت یافتہ مبلغین کے پاس رہا تو سماج یوں ہی انتشار میں مبتلا رہے گا۔ یہ اسی سوچ کا اظہار ہے کہ صدیوں پہلے پیش آنے والے تنازعات کا آج تصفیہ کیا جا رہا اور ان کے حق میں وہ روایات پیش کی جا رہی ہیں‘ جن کی اپنی سند مشکوک ہے۔