سیاست سے طبیعت اچاٹ ہو گئی ہے۔ سیاست ہی نہیں‘ ریاست سے بھی۔ ایک انتظامی نوعیت کا تعلق باقی ہے کہ اس عہد کی تمدنی ضرورت ہے۔
ہر آنے والا دن اس کیفیت میں اضافہ کر رہا ہے۔ آدمی کیا کرے جب ایک ایسے دور میں جینے پر مجبور ہو جس میں اس کے من پسند تصورات کی صورت گری ممکن نہ رہے۔ نہ ریاست میں‘ نہ سماج میں؟ دیر تک اس سوال پر غور کرتا رہا۔ اچانک ایک کرن نے روزنِ دیوار سے جھانکا اور چاروں طرف اجالا ہو گیا۔ 'جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے‘۔ یہ پسرِ حسینؓ امام زین العابدینؓ تھے۔ سیدنا حسنؓ کی طرح‘ ہماری تاریخ کا ایسا کردار جسے دریافت کرنے کی بہت کم کوشش کی گئی۔
تاریخ کے نام پر جو رطب ویابس جمع ہے‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سانحۂ کربلا کے بعد‘ خاندانِ حسینؓ میں سے زندہ رہ جانے والے واحد مرد تھے۔ جب یہ حادثہ پیش آیا تو صاحبِ فراش تھے۔ زندگی کے باقی ایام مدینہ میں گزارے۔ تمام عمر سیاست سے دور رہے۔ کربلا کے واقعے کے بعد‘ جو سیاسی گروہ وجود میں آئے‘ ان میں سے بعض نے انہیں سیاست میں دھکیلنا چاہا۔ انہوں نے انکار کیا اور اقتدار کی کشمکش میں کبھی فریق نہ بنے۔
امام کے اس فیصلے کی حکمت کو‘ جب میں آج کے حالات کی روشنی میں دیکھتا ہوں تو ان کی بصیرت کو داد دیتا ہوں۔ وہ جان چکے تھے کہ ان جیسے فرد کے لیے اب کوئی سیاسی کردار باقی نہیں ہے۔ سیاست کا اپنا مزاج ہے جو ان کو قبول نہیں کرے گا۔ انہوں نے اپنے لیے ایک دوسرا کردار پسند کیا۔ وہی جو قرآن مجید میں ایک عالم کا بتایا گیا: تذکیر۔ افراد کو یہ یاد دہانی کروانا کہ وہ خدا کے بندے ہیں اور انہیں ایک دن اپنے پروردگار کے حضور میں پیش ہونا ہے۔ وہ مدینہ النبیﷺ میں جمعہ کا خطبہ دیا کرتے تھے اور لوگوں کو اللہ کی بندگی اور آخرت میں جوابدہی کی تذکیر کرتے تھے۔
میں نے جب اس طرزِ عمل پر غور کیا تو مجھے پر واضح ہوا کہ جب سیاست اور ریاست سے آدمی مایوس ہو جائے تو اسے چاہیے کہ اپنی تمام تر جد وجہد کا مرکز سماج کو بنائے۔ اسے جو کہنا ہے افراد سے کہے اور اس کا تناظر عصری سیاست کے بجائے‘ اس سے وسیع تر اور اخلاقی ہو جو انسانی رویوں کو محیط ہو۔ امام زین العابدینؓ کی دعاؤں کا مجموعہ تو معروف ہے جو کئی ناموں سے شائع ہوا۔ انہوں نے ''رسالہ الحقوق‘‘ کے عنوان سے ایک مختصر نصیحت نامہ بھی املا کرایا تھا‘ جو تذکیر کی بنیاد ہے۔ اس رسالے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ فرد کو اس کے فرائض یاد دلاتا ہے۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ معاشرے میں ایک فرد کی سماجی حیثیت کے مطابق‘ اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔
یہ بہت اہم بات ہے۔ ہم انسانی حقوق کے عنوان سے‘ جن مقبولِ عام تصورات کے دور میں زندہ ہیں‘ اس میں لوگوں کو ان کے حقوق کے بارے میں حساس بنایا جاتا ہے‘ فرائض کے باب میں نہیں۔ ہر کسی کو اپنے حقوق کے لیے لڑنا سکھایا جاتا ہے۔ اس کے برخلاف اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے فرائض کے بارے میں حساس بنایا جائے۔ دوسروں کو الزام دینے کے بجائے‘ لوگوں میں خود احتسابی کا ذوق پیدا کیا جائے۔ جب سب اپنے فرائض کے بارے میں حساس ہوں گے تو نتیجتاً سب کو ان کے حقوق ملیں گے۔ امام کا یہ رسالہ اسی فہمِ دین پر مبنی ہے۔
اس رسالے کا آغاز ان الفاظ کے ساتھ ہوتا ہے: ''تم پر اللہ اپنی رحمت نازل کرے۔ جان لو کہ تم پر اللہ کے کئی حقوق ہیں جو تمہاری ہر خود اختیاری حرکت‘ سکون کے لمحات‘ منزلوں پر تمہارے نزول اور تمہارے اعضا و جوارح کی اختیاری حرکات کو محیط ہیں۔ نیز وہ آلات وسائل بھی ان میں شامل ہیں جو تم استعمال کرتے ہو۔ ان میں سے کچھ حقوق دیگر حقوق سے بڑے ہیں۔ تمہارے اوپر سب سے بڑا حق اللہ کا ہے جو اس نے تم پر واجب کیا۔ اصل حق‘ اللہ ہی کا حق ہے جس سے دیگر تمام حقوق پھوٹے ہیں‘‘۔
اس کے بعد وہ اعضا کے حقوق بیان کرتے ہیں جن سے انسان اپنے افعال سر انجام دیتا ہے۔ جیسے ہاتھ پاؤں‘ پھر اعمال کے حقوق ہیں جیسے نماز کا حق‘ روزے کا حق۔ آگے بڑھتے ہوئے وہ حقوق العباد کا ذکر کرتے ہیں۔ اس میں راہ نماؤں (آئمہ) کے حقوق ہیں۔ پھر رعیت کے حقوق ہیں یعنی جو آپ کے ماتحت ہیں۔ امام کہتے ہیں کہ آئمہ تین طرح کے ہوتے ہیں: حکمران‘ ستاد اور مالک۔ مزید فرمایا: ''ہر منتظم کو امام کہا جاتا ہے‘‘۔ اس عہد میں غلامی جاری تھی‘ اس لیے آخری حق کو بیان کیا گیا ہے۔
امام نے اپنے اس رسالے میں ان حقوق کی شرح بھی کی ہے۔ یہ سب حقوق قرآن وسنت سے ماخوذ ہیں۔ مجھے جس بات نے حیران کیا‘ وہ حکمرانوں کے حقوق ہیں جو امام نے بیان کیے۔ ان کی معنویت اس وقت مزید واضح ہو جاتی ہے جب ہم انہیں امام کے ذاتی تجربات اور اس عہد کے سیاسی حالات کے پس منظر میں سمجھتے ہیں۔ امام سانحہ کربلا کے بعد کم و بیش 34برس زندہ رہے۔ وہ اس حادثے کے عینی شاہد ہیں۔ یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے سنیے کہ وہ کیا کہتے ہیں:
''حکمران کا حق‘ اس بات کا فہم ہے کہ تم (عوام) اس کے لیے آزمائش بنائے گئے ہو۔ اللہ نے اسے اختیار دے کر‘ تمہارے واسطے سے اسے آزمایا ہے۔ تم اخلاص کے ساتھ اسے نصیحت کرو۔ تم اس کے ساتھ جھگڑا نہ کرو کیونکہ اسے تم پر تسلط حاصل ہے۔ یہ جھگڑا تمہاری اور اس کی ہلاکت کا باعث بن سکتا ہے۔ تم اس کے سامنے فروتنی اور خاکساری اختیار کرو تاکہ وہ تم سے خوش رہے اور یہ رویہ اسے تم سے باز رکھے (وہ تمہیں کوئی ضرر نہ پہنچائے) اور تمہارے دین کو نقصان نہ ہو۔ اس کے معاملے میں تم اللہ سے مدد چاہو۔
تم اُس (حکمران) کے ساتھ مخاصمت اور دشمنی نہ رکھو کیونکہ یہ دونوں تمہارے لیے اور اس کے لیے بھی استخفاف (تذلیل) کا سبب بنے گا۔ تم اپنی جان کو سختی میں ڈالو گے اور اس طرح‘ تمہاری وجہ سے وہ بھی ہلاکت میں پڑے گا۔ یہ دراصل‘ تمہاری طرف سے‘ تمہارے ہی خلاف‘ اس کی مدد ہو گی۔ یوں تم خود کو (اس کی طرف سے) پہنچنے والی برائی میں اس کے ساتھ شریک ہو جاؤ گے‘‘۔
رسالے کا یہ حصہ مجھے امام زین العابدین کے سیاسی مشاہدات کا حاصل معلوم ہوتا ہے۔ یہ رسالہ اسلام آباد کے ایک ادارے 'البلاغ المبین‘ نے عربی متن اور ترجمے کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس کا مطالعہ ہر اس شخص کو کرنا چاہیے جو ایک مسلمان کی زندگی بسر کرنا چاہتا ہے‘ بالخصوص وہ لوگ آج کے پُرآشوب دور میں معاشرے کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ میرے لیے تو یہ نصیحت ایک نعمت سے کم نہیں جو مایوسی کے اندھیرے میں روشنی کی کرن ثابت ہوئی۔ اقتدار کی سیاست کا راستہ حالات نے متعین کر دیا ہے۔ پاکستان کے لیے جو کچھ سوچا گیا ہے‘ میں اپنے کالموں میں اس کی طرف اشارہ کرتا رہا ہوں۔ یہ سوچ اب واقعات میں ڈھل رہی ہے۔ سیاست کے باب میں ہر نصیحت‘ تجزیہ‘ بے معنی ہو چکا۔ جہاں برہنہ حقائق ایوان ہائے انصاف و اقتدار پر اثر انداز ہونے کی سکت نہ رکھتے ہوں‘ وہاں کسی قلم کار کا تجزیہ تاثیر کی قوت کہاں سے لائے؟ اس لیے ہمیں اپنی توجہ سماج کی بہتری کی طرف منتقل کرنی چاہیے‘ اگر ہم شخصی بقا سے آگے سوچ سکتے ہیں۔ سماج تو بہر حال رہے گا۔ برصغیر میں انگریزوں کی آمد کے بعد بھی مسلم معاشرت قائم رہی۔ امام زین العابدینؓ کا اسوہ یہی ہے کہ جب سیاست نا قابلِ اصلاح دکھائی دے تو اپنی توانائیوں کا رُخ سماج کی طرف کر دینا چاہیے۔