سیاسی شعور کیا ہے؟
'شعور‘ کا لفظ خود بول کر بتا رہا ہے کہ اس کا تعلق دماغ سے ہے‘ دل سے نہیں۔ یہ ایک فکری سرگرمی کا حاصل ہے‘ کوئی قلبی واردات نہیں۔ یہ عقل کی کوکھ سے جنم لیتا اور فراست کی گود میں پروان چڑھتا ہے۔ اس کو علم و استدلال سے ناپا جا تا ہے اور منطق کی زبان میں بیان کیا جاتا ہے۔ شعور سے پھوٹا ہوا مقدمہ عقلی ہوتا ہے جسے مشاہدے اور تجربے کی کسوٹی پر پرکھا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ جب ہم 'سیاسی‘ کا سابقہ لگاتے ہیں تو اس سے مراد وہ ذہنی سرگرمی ہے جو سیاست و ریاست سے متعلق ہے۔
سماج اور ریاست میں کیا فرق ہے؟ جدید ریاست کب اور کیسے وجود میں آئی؟ ریاست کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟ عمرانی معاہدہ کیا ہے اور کیوں ضروری ہے؟ سیاسی تبدیلی اور سماجی تبدیلی میں کیا فرق ہے؟ کسی فرد یا گروہ کا حقِ اقتدار کیسے ثابت ہوتا ہے؟ اقتدار ایک گروہ سے دوسرے گروہ کو کیسے منتقل ہوتا ہے؟ پاپائیت‘ جمہوریت‘ آمریت اور بادشاہت میں کیا فرق ہے؟ ریاستی ادارے کون سے ہیں اور ان میں اختیارات کا توازن کیسے قائم کیا جاتا ہے؟ خارجہ پالیسی کیسے بنتی ہے اور ممالک کے باہمی تعلقات کی تشکیل کیسے ہوتی ہے؟ عالمی مالیاتی ادارے کس نے قائم کیے؟ آئی ایم ایف جیسے ادارے‘ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کی سیاست اور معیشت پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں؟ پولیٹکل اکانومی کیا ہوتی ہے؟ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مابین فرق کیا ہے؟ سیاسی جماعتیں کیوں ضروری ہیں اور سیاسی نظام کے استحکام میں ان کا کردار کیا ہے؟ ہماری سیاسی تاریخ کیا ہے؟
یہ تو وہ سوالات ہیں جو عمومی ہیں اور کم و بیش دنیا کے ہر معاشرے کی ضرورت ہے کہ عوام کو ان کے جواب معلوم ہوں۔ بعض سوال وہ ہیں جو کسی معاشرے کی خاص سماجی بُنت سے پیدا ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک معاشرہ مذہبی تشخص رکھتا ہے تو وہاں عوام کے سامنے چند خصوصی سوالات ہوں گے! جیسے مذہب اور ریاست کا باہمی تعلق کیا ہے؟ کیا مذہب نے کوئی سیاسی نظام دیا ہے؟ جمہوریت اور حاکمیت الٰہیہ‘ کیا متضاد تصورات ہیں؟ خدا نے کیا کسی خاص فرد یا گروہ کو حقِ اقتدار دیا ہے؟ کیا مذہب کے نام پر سیاسی جماعت بنائی جا سکتی ہے؟
یہ سیاسیات کے بنیادی سوالات ہیں۔ اگر کوئی ان کے جواب جانتا ہے تو اسے سیاسی اعتبار سے باشعور کہاجا ئے گا۔ عام شہری کے لیے ضروری نہیں کہ وہ علمِ سیاسیات کا عالم ہو؛ تاہم بعض باتیں وہ ہیں جن کا تعلق عمرانیات اور سیاسیات کے مبادیات سے ہے۔ ایک عام شہری چونکہ سیاسی تبدیلی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے‘ اس لیے لازم ہے کہ وہ ان مبادیات سے واقف ہو۔ اگر نہیں ہو گا تو اس بات کا ہمیشہ احتمال رہے گا کہ کوئی مفاد پرست اسے اپنی جنگ کا ایندھن بنا لے۔ اس کے جذبات کا استحصال کرے اور اقتدار تک پہنچنے کے لیے اس کا کندھا استعمال کرے۔
سماجی تعلیم کا ایک اہم شعبہ سیاسی تعلیم ہے۔ سماجی تعلیم سے مراد‘ سماج سے متعلق ان بنیادی باتوں کا علم ہے جو ہر شہری کو ہونا چاہیے۔ ان کی تعلیم رسمی ہوتی ہے اور غیر رسمی بھی۔ رسمی تعلیم کا مطلب یہ ہے کہ یہ تعلیمی نصاب کا حصہ ہو اور اسے تعلیمی اداروں میں پڑھایا اور سکھایا جائے۔ غیر رسمی تعلیم سے مراد یہ ہے کہ خاندان‘ گھر اور مسجد و محراب جیسے سماجی ادارے‘ عوام میں یہ سیاسی شعور پیدا کریں۔ اس کی مثال مذہبی تعلیم ہے۔ جب ہم ایک شہری کو 'مذہبی آدمی‘ سمجھتے ہیں تو اس کی مذہبی تعلیم کا اہتمام کرتے ہیں۔ بچے کو گھر میں‘ مدرسے میں‘ مسجد میں اور سکول میں مذہبی تعلیم دی جا تی ہے تاکہ وہ اپنی مذہبی شناخت کے بارے میں حساس رہے اور مذہبی اعتبار سے باشعور ہو۔ یہ ہم اس لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ کوئی اسے اس معاملے میں گمراہ نہ کر سکے۔ ہم جانتے ہیں کہ رسمی تعلیم سے محروم لوگ بھی‘ مذہب کا اتنا علم ضرور رکھتے ہیں کہ بنیادی مذہبی فرائض سرانجام دے سکیں۔ یہی نوعیت سماجی اور سیاسی فرائض کی بھی ہے۔ حفظانِ صحت کے بنیادی اصول بھی اس کی ایک مثال ہیں۔ ہر آدمی ڈاکٹر نہیں ہوتا لیکن صحت مند رہنے کے لیے ہر پڑھے لکھے اور ان پڑھ کے لیے ان اصولوں کو جاننا لازم ہے۔
اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ایک عام شہری سیاسی اعتبار سے باشعور ہو تو لازم ہے کہ اسے بچپن ہی سے سیاسی تعلیم دی جائے۔ اتنی تعلیم جو اسے سیاسی گمراہی سے محفوظ رکھ سکے۔ یہ کام رسمی تعلیم کے ذریعے ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ گھر‘ میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے ذریعے بھی جو اس تعلیم کے غیر رسمی ادارے ہیں۔ جن معاشروں میں عوام سیاسی اعتبار سے باشعور نہیں ہوتے‘ وہاں انہیں سیاسی تبدیلی کے نام پر گمراہ کرنا آسان ہوتا ہے۔ انہیں خوابوں کے جال میں پھنسا کر ان کی سادہ لوحی اور بے علمی کا ناجائز فائدہ اٹھانا ممکن ہو جاتا ہے۔ ایسے معاشروں میں جمہوریت کے نام پر پاپولزم اور مذہب کے نام پر پاپائیت کو فروغ ملتا ہے۔ پاپولزم فسطائیت میں ڈھل جاتا ہے اور پاپائیت‘مذہبی جبر میں۔ انسانی تاریخ کی گواہی یہ ہے کہ انسانوں پر بدترین ظلم‘ ایسے نظام ہائے حکومت ہی کے تحت ہوا ہے۔ اگر عوام سیاسی طور پر باشعور ہوں توخود کو فسطائیت اور پاپائیت سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
بند معاشروں میں سیاسی شعور نہیں پیدا ہو سکتا۔ جہاں میڈیا آزاد نہ ہو‘ جہاں لوگوں کو اپنی بات کہنے کی اجازت نہ ہو وہاں سیاسی کیا‘ کسی طرح کا شعورجنم نہیں لے سکتا۔ سیاسی شعور پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آزادیٔ رائے کویقینی بنایا جائے۔ مکالمے کی فضا پیدا ہو تاکہ لوگ سیاسی افکار کے باب میں پائے جانے والے اختلاف سے واقف ہوں۔ تعلیمی اداروں میں اس بات کا اہتمام ہو کہ طلبہ و طالبات جہاں زندگی کی دیگر مہارتوں سے واقف ہوں‘ وہاں سیاسی طور پر بھی باشعور ہوں۔
ہر وہ سیاسی مقدمہ جس کی بنیاد جذبات پر ہو‘ یقینی طور پر سیاسی شعور کی عطا نہیں ہے۔ ہیجان‘ نفرت اور اندھی عقیدت جیسے جذبات کا مآخذ دماغ نہیں ہوتا۔ ہیجان میں مبتلا آدمی اپنے طرزِ عمل سے یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کا سیاسی شعور سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ ایسا آدمی ہاتھ میں لاٹھی لیے‘ اپنے راستے میں آنے والی ہر شے توڑتا ہے اور یہ گمان کرتا ہے کہ وہ سیاسی شعور کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ یہ اتنی بدیہی بات ہے کہ ایک سیاسی راہ نما جو اس طرزِ عمل کی تبلیغ کرتا ہے‘ کسی باشعور فورم پر اس کا دفاع نہیں کر سکتا اور خود کو اس سے بری الذمہ قرار دیتا ہے۔ عدالت کے سامنے ایسے لوگوں سے اعلانِ برأت کرتا ہے۔
یہ سیاست ہی نہیں‘ مذہب میں بھی ہوتا ہے۔ مذہبی ہیجان کو مذہبی شعور بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور جب کوئی اس کا عملی مظاہرہ کرتا ہے تو مذہبی ہیجان پیدا کرنے والا اس کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کر دیتا ہے۔ ممتاز قادری نے جس مبلغ کی تقریروں سے متاثر ہو کر سلمان تاثیر کو قتل کیا‘ اس مقرر نے سپریم کورٹ میں ممتاز قادری سے حلفاً اعلانِ لاتعلقی کر دیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ عدالت میں اس طرزِ عمل کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔
سیاسی استحکام انہی معاشروں میں آیا ہے جہاں عوام سیاسی اعتبار سے باشعور ہوں۔ پاکستان جیسے معاشروں میں سیاسی کے ساتھ‘ مذہبی شعور کو بھی شامل کر لینا چاہیے۔ سیاسی شعور کے لیے لازم ہے کہ تعلیمی نظام اور سول سوسائٹی کی سطح پر لوگوں کو باشعور بنانے کی مہم اٹھائی جائے۔ سیاسی عمل کو بامعنی بنانے کے لیے یہ ضروری ہے۔ الیکشن کمیشن کو بھی اس جانب توجہ دینی چاہیے تاکہ سیاسی جماعتیں اس باب میں مؤثرکردارادا کریں۔ سیاسی عمل کا تسلسل بھی اس کے لیے لازمی ہے۔