دینی حمیت کیا ہے؟
الوہی ہدایت‘اسوۂ پیغمبر‘اخلاق اور قانون‘ سب سے صرفِ نظر کرتے ہوئے‘اپنی باگ جذبات کے ہاتھ میں دے دینا‘کیا دینی حمیت ہے؟یا پھر دنیاوی مفاد‘عوامی ذوق اورملامت واکرام سے بے نیاز ہو کر‘خدا کے احکام کی پیروی اور بیان کا نام دینی حمیت ہے؟جذبات کو دین کے تابع کرنا یا دین کو جذبات کا مطیع بنانا؟... دینی حمیت کس بات کا تقاضاکرتی ہے؟
کوئی بدنصیب دین کے احکام یا پیغمبرِ اسلام ﷺ کی طاہر وپاکیزہ ہستی کو ہدف بناتا ہے۔کتاب لکھتا اوراسے پھیلادیتا ہے۔ایک مسلمان کتاب پڑھتا اور مضطرب ہو جاتا ہے۔اُس کی رات کا چین اور دن کا سکون چھن جاتا ہے۔وہ اٹھتا اور ایک عزم کرتا ہے:میں ایک ایسی کتاب لکھوں گا جواس زہر کا تریاق بنے گی‘ جو اس کتاب سے پھیلا ہے۔وہ اس ارادے کے ساتھ گھر سے نکلتا‘دنیا کی خاک چھانتا‘کتب خانوں کو کھنگالتا اور اس مہم میں اپنا عمر بھر کی جمع پونجی صرف کرنے کے بعد‘ایک کتاب لکھتا ہے جو مذموم کتاب کا جواب ہے۔
وہ سوچتا ہے:مصنف نے باقی نہیں رہنا لیکن کتاب رہ جائے گی۔اس لیے کتاب کو مارنا ضروری ہے۔کتاب کو مارنا‘اس کے استدلال کو رد کرنا ہے۔اس کی علمی کمزوریوں کو طشت ازبام کر نا ہے۔وہ خیال کرتا ہے کہ کتاب کی پھیلائی گمراہی کا ازالہ اسی طرح ممکن ہے۔وہ یہ خواہش رکھتا ہے کہ قیامت کے روز‘اللہ تعالیٰ کے روبرو‘رسالت مآب ﷺ اس پر فخر کا اظہار کریں کہ یہ میرا وہ امتی ہے جس نے میری ناموس کے دفاع میں آخری پونجی تک لٹا دی۔کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس آدمی نے دینی حمیت کا مظاہرہ نہیں کیا؟
ایک ردِ عمل یہ ہے کہ مصنف نے میرے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔میں اشتعال میں آیا اور یہ چاہا کہ اپنے جذبات کی تسکین کروں۔اللہ تعالیٰ کی ہدایت کیاہے‘اسوہ پیغمبر کیا ہے‘اخلا ق اور قانون کیا تقاضا کرتے ہیں‘مجھے کسی سے کچھ غرض نہیں۔میں اٹھتا اوراپنے جذبات کی اتباع میں آخری اقدام کر گزرتا ہوں۔ کیاا سے دینی حمیت کا مظاہرہ کہاجا ئے گا؟کیامیرا پروردگار مجھ سے یہی چاہتا تھا؟
یہ سوال میں نے اس لیے اٹھائے ہیں کہ دورِ حاضرمیں جب کوئی پہلا طرزِ عمل اختیار کرتا ہے تو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جیسا یہ رویہ دینی حمیت کے خلاف ہے۔یا کم ازکم رخصت یا مداہنت کا اظہار توہے۔اگر کوئی رویہ مطلوب ہے یا جسے عزیمت کہنا چاہیے تووہ دوسرا ہی ہے۔اسی کو مثالی اوراسی کودینی حمیت کا مظہر قراردیاجا تاہے۔کیا یہ نتیجہ فکر درست ہے؟یہ سوال اصلاً اہلِ علم سے متعلق ہے۔اہلِ علم جب کسی رویے کی توثیق کرتے ہیں تو اسے دینی سند حاصل ہو جا تی ہے۔عامی کا ردِ عمل بالعموم علما کی آرا کے تابع ہو تا ہے۔ اگر وہ پہلے رویے کی تائید کریں گے تو عوام میں اسی طر ح کی سوچ پیدا ہوگی۔اور اگر وہ دوسرے رویے کی تحسین کریں گے تو عامتہ الناس اسے قبول کریں گے۔اہلِ علم کی آزمائش یہ ہے کہ وہ ایسے مواقع پرکیا مؤقف اختیار کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ برپا رہتا ہے۔یہاں اگر خدا کو ماننے والے اپنی بات کہہ رہے ہیں تو ایسے بھی ہیں جو اس کے وجود ہی کا انکار کرتے ہیں۔یہی نہیں‘ ان کا رویہ عمومی اخلاقیات سے بھی گرا ہوتا ہے۔دشنام ان کی لغت اور کذب ان کی دلیل ہوتی ہے۔ان کاا سلوب ایسا ہوتا ہے کہ خدا ور رسول کو ماننے والے کے جذبات کھول اٹھتے ہیں۔ اگر وہ کوئی صاحبِ علم ہے تو دینی حمیت‘اس سے کیا تقاضا کرتی ہے؟وہ ان کے لگائے ہوئے میدان میں اترے اور وہی ہتھیار اٹھا لے‘مخالفین جن سے لیس ہیں یا پہلے یہ جانے کہ ایسے رویوں کے بارے‘میں خود عالم کے پروردگار کی ہدایت کیا راہنمائی کرتی ہے ؟
واقعہ یہ ہے کہ کسی جبر کی موجودگی میں اپنی رائے بے کم و کاست بیان کرنا اور پھر اس جبر کے باوصف‘ اپنے موقف پر قائم رہنا ہی عزیمت ہے۔جبر کی کئی صورتیں ہوتی ہیں۔یہ ریاست کی طرف سے ہو سکتا ہے۔حالات کا بھی ایک جبر ہوتا ہے اور جذبات کا بھی۔ عوامی مذاق کے برخلاف کوئی بات کہنا آسان نہیں ہو تا۔یہ جبر کی سب سے سنگین صورت ہے۔اہلِ علم کے لیے دینی حمیت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ کسی جبر کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے‘دین کو ویسے بیان کریں‘جیسے انہوں نے سمجھا اورپھر اس راہ میں ہر مشکل کا سامنا کرنے کے لیے ڈٹ جا ئیں۔
ہم اپنی تاریخ کے جن اہلِ علم کی تعریف کرتے اور ان کو اپنے آئمہ میں شمار کرتے ہیں‘ان کا اسوہ یہی ہے۔امام مالکؒ ایک آسودہ حال زندگی گزارتے تھے۔اربابِ اقتدار ان کااحترام کرتے تھے۔جب جبری طلاق کا مسئلہ اٹھا تو انہوں نے ریاست کے جبر کو مسترد کر دیا۔امام احمد ابن حنبلؒ کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔یہاں رائے کی صحت نہیں‘رویہ زیرِ بحث ہے۔ اہلِ علم اسی کو عزیمت سمجھتے ہیں کہ ہر جبر سے بے نیاز ہو کر دین کو ویسا ہی بیان کریں‘جیسا کہ انہوں نے سمجھا۔
عصرِ حاضر میں ایسے لوگ ہیں جنہوں نے دین کو جیسے سمجھا‘ اسی طرح بیان کیا۔سماجی جبر کی پروا کی نہ ریاستی مؤقف کی۔اس کے صلے میں ان کے لیے زمین تنگ کر دی گئی۔بعض کی جان لے لی گئی اور بعض کو ہجرت پر مجبور کر دیا گیا۔انہوں نے کسی کی جان لینے کا فتویٰ نہیں دیا بلکہ بتایا کہ انسانی جان کی حرمت خودعالم کے پروردگار نے قائم کی ہے۔اس حرمت کو اس کے حکم کے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے بتایا کہ جذبات‘دین کے تابع ہوں گے‘دین جذبات کے تابع نہیں ہے۔ہم جانتے ہیں کہ یہ کہنا آسان نہیں کہ یہ بات عوامی مذاق کے خلاف ہے۔دینی حمیت کے حامل در اصل یہی لوگ ہیں جنہوں نے اس کے باوصف یہ بات کہی اور اس کی قیمت دینے کے لیے تیار ہو گئے۔
اس میں شبہ نہیں کہ دینی حمیت کے تقاضے‘ ہر وقت میں ایک جیسے نہیں ہوتے۔اس لیے اظہار بھی ایک طرح سے نہیں ہو سکتا۔اہلِ علم اس فرق کو جانتے ہیں۔ان کا اصولی مؤقف البتہ وہی رہاہے جو امام احمد ابن حنبلؒ کا تھا:قرآن مجید سے کوئی دلیل لاؤ یا پھر سنت سے۔ میں اس کے علاوہ کسی چیز کو نہیں جانتا۔اسی کا نام دینی حمیت ہے۔ لوگوں کو کسی ایسی بات پر ابھارنا جس کی دلیل ماخذاتِ دین کے بجائے‘عوامی ذوق میں ہو‘جذبات کی سوداگری کے سوا کچھ نہیں۔ اہلِ علم جانتے ہیں کہ دینی دلیل سے کیا مراد ہے۔ایک مؤقف اختیار کرنا اور پھر اس کی تائید میں رطب ویابس جمع کر دینے کو دینی دلیل نہیں کہتے۔یہ اپنی رائے یا جذبات کا اتباع ہے نہ کہ دین کا۔
اہلِ علم کی ذمہ داری ہے کہ اس باب میں عوام کی صحیح راہ نمائی کریں۔ان کا کام عوامی رومیں بہہ جانا نہیں‘اس کو تھامنا اور درست سمت دینا ہے۔بلا شبہ اس کی ایک قیمت ہے۔یہ زندگی ہو سکتی ہے اور جلاو طنی بھی۔عوام کے غضب کا سامنا کر نا پڑ سکتاہے اور ریاستی جبر کا بھی۔دینی حمیت کا تقاضا یہ ہے کہ صبر کے ساتھ ان مشکلات کا سامنا کیا جائے اورانسانی جذبات کی باگ دین کے ہاتھ میں دی جائے نہ کہ دین کی باگ جذبات کو تھما دی جائے۔ جواہلِ علم اس روش پر قائم رہتے ہیں‘بلا شبہ وہی اہلِ عزیمت ہیں اور وہی دینی حمیت کا حقیقی مظہر ہیں۔